ہمارا دوغلا پن !

ربیع م

محفلین
اصل میں ہماری منافقت ہمارے بچے کھا رہی ہے۔
ہمیں یا تو ایک دم انگریز بن جانا چاہیے کہ اگر کبھی بیگم ہمارے لیے وقت نکال سکے تو اس کو تھینک یو بولیں اور بیٹی اپنے بچوں کے باپ سے شادی کی تقریب میں ہمیں بھی انوائٹ کر لے تو اس کیلیے اچھا سا گفٹ خرید لیں ورنہ دو تین کتوں کو اپنے ساتھ سلائیں اور بوڑھوں کو اولڈ ایج میں داخل کروا دیں۔۔۔۔۔ پھر مزے ہی مزے۔۔۔ نا غیرت کے نام پر قتل نا عشق کے نام پر خود کشیاں۔۔۔ راوی کو چین لکھنے کے سوا املاء ہی بھول جائے گی۔۔۔
اور یا ۔۔۔ یا پھر ۔۔۔
ہمیں چاہیے کہ سیدھی طرح بندے کے پتر بن جائیں۔۔۔
خواتین کو ان کے حقوق ان کی دہلیز کے اندر پہنچانے کو مردانگی سمجھیں۔ اولاد کی اپنے حتی المقدور تعلیم و تربیت کا انتظام کریں ۔ کچی عمروں میں ان کی جسمانی اور نفسیاتی نشوونما کا بھی خیال رکھیں ان کو اپنے دین اور روایات کا علم پہچائیں۔ اور پکی عمروں کو پہنچتے ہی ان کی مرضی سے ان کے گھر بسانے کا سوچیں۔
لیکن
ہم لٹکے ہوئے ہیں الٹے یا سیدھے لیکن بہر حال معلق ہیں۔
اور بہت بری طرح معلق ہیں۔
ہماری ایک ٹانگ مذہب میں اڑی ہوئی ہے تو ایک انگلی بالی ووڈ کی منی کو بدنام کرنے پر اٹھی ہوئی ہے ۔
ایک آنکھ شیلا کی جوانی پر ہے تو دوسرے کان میں حوریا رفیق کی نعت رس گھول رہی ہے۔
موبائیل کی رنگ ٹون پر ہم نے شیخ السدیس کی تلاوت لگائی ہوئی ہے تو وال پیپر پر سنی لیون کی چٹیاں کلائیاں چمک رہی ہیں۔
ہم اب بھی کراچی کی فاطمہ اور نوروز کو عشق کے راہی سمجھ رہے ہوں گے لیکن اپنے مستعین اور سعدیہ کیلیے پھر غیرت مند باپ بن جائیں گے۔
ہم لڑکیوں کو ریسپشن پر بٹھانے کے حق میں صفحات کے صفحات کالے نیلے کر دیتے ہیں لیکن اپنی بیٹھک میں آئے ہوئے مہمانوں کیلیے چائے کی ٹرے پردے کے پیچھے سے خود پکڑ تے ہیں۔
ہم ماں کی شان میں قصیدے پڑھنے والے کو خوش ہو کے ہزار کا نوٹ دے دیں گے لیکن ماں کی دوائی کیلیے پانچ سو دیتے ہوئے خود بیمار پڑ جائیں گے۔
ہم ایک طرف کم عمری کی شادی کے خلاف فائیو سٹار ہوٹل میں سیمینار منعقد کروا تے ہیں تو دوسری طرف کم عمری کے عشق کو فطری اور الہامی جذبہ گردانتے ہوئے نہیں تھکتے۔
ہم اپنی بیٹیوں کے لباس کو چست ہوتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور کبھی وہ خود چست ہو جائیں تو منہ لٹکا کے معاشرے کو برا کہنے لگ جاتے ہیں۔
ہم جوتے مسجد سے چرا کر پہنتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اولاد ہمارے قدموں میں جنت تلاش کرے۔
رزق بزور رشوت کشید کرتے ہیں اور قصائی کے گدھا ذبح کرنے پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔
خود چینل وی دیکھتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ بچے پیس انٹرنیشنل دیکھیں گے۔
ہم تمہ کھا کر سمجھتے ہیں کہ ڈکار خربوزے کا آئے گا۔
ہم کانٹے بیج کر پھولوں کے متمنی ہیں ۔
۔
ہم منافق ہیں
ہم سب سے برے منافق ہیں
جو خود سے منافقت کرتے ہیں۔
یہی منافقت ہمیں دھوکہ دیتی ہے۔
یہی منافقت ہماری دشمن ہے۔
یہی منافقت ہمارے بچے کھانے والی بلا ہے۔
اس منافقت کو مارو ۔
یک رنگ ہو جاؤ۔
یا تو سچے انگریز بن جاؤ
یا پکے مسلمان ۔

منقول
 
Top