ہفتہ ٔ شعر و ادب - خط کی کہانی مخطوطات کی زبانی از ڈاکٹر سید عبداللہ (ایک نادر مقالہ)

الف نظامی

لائبریرین
آخری تدوین:

عائشہ عزیز

لائبریرین


اور یقینا آ چکا ہوگا کیونکہ تعلیق اور نسخ کی کش مکش کے زمانے میں کئی ایسے نمونے سامنے آتے ہیں جن میں نسخ سے حد درجہ دوری، ان کو نستعلیق کہلا سکتی ہے۔ البتہ حسن کی شان (یا حسن مطلق کی ترجمانی) کی کوشش کے اعلیٰ نمونے میر علی اور یا ان کے کسی اقدام معاصر کے ہاتھوں ظہور میں آئے ہوں گے۔ اس کے بڑے بڑے نمائندوں میں سلطان علی مشہدی، میر علی الکاتب الہروی، میر عباد، عبد الرشید دیلمی، مولانا اظہر، جعفر تبریزی، محمد حسین کاشمیری اور ان لوگوں کے شاگرد شامل ہیں۔
نستعلیق کی زیبائی اور رعنائی نے جب ایک فن لطیف اور فن عالی کا منصب حاصل کر لیا تو دفتری اور کاروباری ضرورت کا مسئلہ پھر بھی موجود رہا۔ اس کے لیے تعلیق، دیوانی اور بعد میں شکستہ، شکستہ آمیز اور شفیعہ سے کام لیا گیا اور اس کی طرزوں میں تنوع ہوتارہا۔ شفیعہ مرتضیٰ قلی کے ایک اہل کارمحمد شفیع کے نام سے منسوب ہے۔
نستعلیق کے اصول کے بارے میں ابو الفضل نے یہ کہا ہے، کہ سراپا دور ہے۔ لیکن نستعلیق میں اتنی کاوش ہوئی ہے اور اختراع پسند خطاطوں نے اس میں بھی وہ رنگا رنگی پیدا کی ہے کہ صرف دور کو اس کا مرکزی اصول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حرفوں کی نشست، ج، ح، ع، ق اور م کی گردنیں، ب، ت، وغیرہ لیٹے ہوئے حرفوں کی اٹھان (یعنی قلم کا باریک سرے سے شروع ہو کر آہستہ آہستہ پورے قط کی چوڑائی تک خوبصورتی سے بڑھتے جانا، ش کو ش بنا کر لکھنا۔
غرض بانکپن کا ہر رنگ اس خط میں پیدا کیا گیا ہے۔ بڑی مدت تک، ناگوار خلاؤں کو نظر کے لیے امتیاز کے لیے خوش آیند بنانے کے لیے س کے نیچے تین نقطے لگا دیے جاتے تھے۔ شاھجہان کے زمانے کے بعد تک یہ رواج رہا۔
خط پر بعض مقامی روایتوں کا بھی بڑا اثر رہا اور بعض مقامی تلفظات کو بھی دخل رہا ہے ۔ چ کو ج لکھنا، گ کو ک لکھنا، کہ کو کے لکھنا، آنکہ کو
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
درست ہے۔ اچھی بہنا صفحات کی تقسیم کر لیں کیونکہ صفحہ 6 میں بھی لکھ چکا تھا کہ دیکھا آپ نے پوسٹ کر دیا۔
جفت صفحات مجھے دے دیجیے اور طاق صفحات آپ منتخب کر لیں۔
مراسلہ 10 صفحہ 7

مراسلہ 11 صفحہ 8

مراسلہ 13 صفحہ 9

مراسلہ 15 صفحہ 10

مراسلہ 17 صفحہ 11

مراسلہ 19 صفحہ 12

مراسلہ 20 صفحہ 13
او ۔۔ا او
اوکے بھائی ۔۔ پیج نمبر 7 میں نے کر لیا ہے آپ سارے جفت پیجز کر لیجئے
 

الف نظامی

لائبریرین
صفحہ 8 ،مراسلہ 11

آنک لکھا ، د کی جگہ ذ۔
اردو تحریروں میں ٹ ، ڑ ، ڈ کے لیے چھوٹی ط کے بجائے پہلے چار نقطوں کا :: رواج ہوا۔ پھر ٹ پر نقطہ کے بجائے ۴ کا نشان بنا ، اس کے بعد ٹ ہوا ، یعنی موجودہ شکل ہوئی۔
یای مجہول اور یای معروف میں پرانی تحریروں میں بہت کم امتیاز نظر آتا ہے۔ مجہول کی جگہ معروف اور معروف کی جگہ مجہول --- ی اور ے جب پوری لکھی جاتی تھی تو اس کے نیچے نقطے کبھی ہوتے تھے کبھی نہیں ہوتے تھے۔
یہ مختصر سی کہانی ہے خط کی۔۔۔ اب آپ اس کی مختلف نمونے ملاحظہ فرمائیے ، یونیورسٹی لائبریری کے سب نوادر کا ذکر نہیں آیا ، مجموعہ شیرانی کے قرآن مجید الگ مضمون کے طلب گار ہیں ، باقی اہم نسخے بھی ہیں۔ میں نے موجودہ تدوین کے اختصار کے خیال سے صرف چند نمونے منتخب کیے ہیں۔
تختی 1 :
کوفی قدیم ( سنہ 7 ھجری )
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط مقوقس حاکم مصر کے نام
تختی ملاحظہ فرمائیے۔ اس میں نقطے موجود نہیں۔ الف کی شکل عجیب و غریب ہے ، خط کی نشست میں کوئی خاص اہتمام نہیں پایا جاتا۔ یہ خط سراپا عملی ضرورت کو پورا کرنے لے لیے ہے۔ اس میں کوئی ہندسی ، یا تصویری خصوصیت نہیں پائی جاتی۔
یہ کوفی قدیم ہے اور ابتدائی ، بے تکلف صورتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
تختی 2 ، 3، 4 :
ایرانی کوفی ( جدید ) سنہ 292 ھجری
یہ قرآن مجید کے ایک نسخے کا عکس ہے جو برٹش میوزیم کے مجموعہ
 

الف نظامی

لائبریرین
صفحہ 10 ، مراسلہ 15

تختی 7:
با اصول نسخ و ثلث ( سنہ 668 ھجری) گلستانِ سعدی کا ایک نسخہ
یہ عکس مہدی بیانی کی کتاب نمونہ خطوط خوش سے لیا گیا ہے (شمارہ 1)
بخط یاقوت المستعصمی جو خطاطوں کے امام تھے۔ سنہ کتابت 668 ھ ہے۔
تختی 8:
ثلث ، نسخ ، رقاع (سنہ 761 ھجری)
نثر اللالی کا ایک ورق کتاب خانہ شاہنشاہی ایران کے مخطوطے سے ، عکس مہدی بیابی کے نمونہ خطوط خوش سے لیا گیا ہے (شمارہ 4) ۔ رقاع کے ایک خوش تر نمونے کے لیے مہدی کی کتاب کے شمارہ 5 کو ملاحظہ فرمائیے۔ یہ قرآن مجید کا ایک نسخہ ہے جو ھرات میں لکھا گیا ہے (کتابت 864 ھ)
تختی نمبر 8 میں جلی حروف میں خطِ ثلث میں ہیں ، درمیان کا متن نسخ میں اور آخری عبارت خطِ رقاع میں ہے۔ اس رقاع کی صورت دیکھیے ۔ اس میں کسرہ کے ترچھے تیر کتنے تسلسل سے چل رہے ہیں۔ اس میں روانی کی خاطر منفصل حرفوں کا اتصال برابر نظر آئے ہیں۔ یہ خط چونکہ دفتری ضرورت کے لیے ہے اس لیے کاتب حرفوں کو جوڑتا جاتا ہے۔ ایران کے دفتری تعلیق میں اور ہند و ایران کے شکستہ میں بھی روانی کی خاطر یہی رنگ چلتا ہے۔ اس لیے اس کو شکستہ کا جد امجد سمجھنا چاہیے۔
ثلث جلی اپنی اصلی پٹی یا پٹڑی سے بہت اوپر اور بہت نیچے جا رہا ہے۔ پیٹ والے حروف پورے گول نہیں مگر اپنی پٹڑی سے بہت نیچے اتر رہے ہیں۔ نسخ عموما اپنی پٹڑی کے اندر رہتا ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 9 (مراسلہ نمبر 13)

چسٹر بیٹی Chester Beatty کا مخطوطہ نمبر 1417 ہے۔ اس پر پروفیسر آربری نے اوریئنٹل کالج میگزین کے شفیع نمبر ( مئی 1964 ع) میں ایک تشریحی مضمون لکھا ہے۔ میں یہ تختیاں ان کی اجازت خاص سے، استعمال میں لا رہا ہوں۔
اس خط کو غور سے دیکھیے۔ اس میں اعراب( زبر، زیر، پیش) موجود ہیں۔ لیکن یہ ملاحظہ فرمائیے کہ س کے نیچے بھی تین نقطے ہیں۔ الف کی مخصوص شکل دیکھیے۔ ہاکی کی طرح مڑا ہوا ہے، م کی شکل دیکھیے۔ الف جو حروف کے ساتھ متصل ہے اس کا ذرا سا شوشہ نیچے کی طرح لٹکا ہوا ہے ( اس کی خصوصیت کے لیے دیکھیے تختی نمبر 3 و 4) ر کے نیچے نقطہ ہے، د کے اوپر بھی نقطہ ہے، اور نیچے بھی (ذ)۔ کوفی جدید کے اس دور کا معلوم ہوتا ہے جب خط بااصول ہو چلا تھا پروفیسر آربری اس کا ایرانی کوفی کہتے ہیں۔
تختی 5 :
کوفی جدید مائل بہ نسخ سنہ 446 ھجری
یہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری کا ایک مخطوطہ ہے۔ جو المدونہ فی فروع البالکیہ (عبد الرحمٰن ابن القاسم البالکی متوفی 191ھ) کا ایک حصہ ہے۔ اس کا عنوان کتاب العتق ہے۔ یہ مخطوطہ ھرن کی کھال پر لکھا ہوا ہے۔
یہ خط کوفی جدید میں ہے۔
تختی 6 :
کوفی جدید (شاید چھٹی صدی ھجری)
قرآن مجید کا ایک نسخہ (یونیورسٹی لائبریری شیرانی ، عدد 6374)۔
اس کا ورق 8 الف ملاحظہ ہو۔
یہ نہایت خوب صورت خط ہے اور اس میں ریاضیاتی حسن، بدرجہ کمال موجود ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 11 (مراسلہ نمبر 17)

تختی 9 :
نسخ رقاع آمیز (شاید نویں صدی ھجری کا آخر)
قرآن مجید۔ عدد 4785 شیرانی۔
تختی 10 :
فنی نسخ : (رقاع آمیز، ایرانی) سنہ 835 ھجری)
عدد 4768 (مجوعہ شیرانی)
رقاع کی معمولی آمیزش۔ کسرہ کو کھڑی زبر کی صورت میں کہیں کہیں ظاہر کیا گیا ہے۔
تختی 11 (الف و ب) :
نسخ (معیاری فنی) سنہ 677 ھجری
نسخ رفتہ رفتہ حسن کے سانچوں میں ڈھل گیا ہے اور اس کی نوک پلک میں قلم اور نوک، طول اور سطح اوردور کے جمالیاتی تقاضے پورے کیے جانے لگے ہیں۔ یہ ورق شاہی کتب خانہ ایران کے ایک نسخہ قرآن مجید کا ہے۔ میں نے مہدی بیانی کے نمونہ خطوط خوش سے لیا ہے (شمارہ 41)۔
خاتمے کی عبارت خط رقاع میں ہے (دیکھیے تختی 11 الف)۔
تختی 12 :
تعلیق ایران کا نمونہ (سنہ 666 ھجری)
یونیورسٹی لائبریری میں نصیر الدین محقق طوسی (متوفی 672 ھ 1274 ع) کی کتاب اخلاق ناصری کا ایک قدیم نسخہ ہے جس کا سال کتابت 666ھ 1267 ع ہے۔ نسخے کا اختتامیہ یہ ہے۔
تم الکتاب محمد اللہ تعالیٰ و حسن توفیقہ و الصلوۃٰ علیٰ سیدنا محمد و آلہ یوم
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 13 (مراسلہ نمبر 20)

خصائص :
مرکب کتابت میں ہر الف نیچے کی طرف نکلا ہوا ہے۔ حکایت، صناعت، کیاست وغیرہ کو دیکھیے۔
کہ کو کے، د کو کبھی کبھی ذ، چ کو ج ، گ کو ک لکھا ہے۔
یونیورسٹی لائبریری میں اخلاق ناصری کا ایک نسخہ ہے جس کی کتابت 724ھ ہے۔ یہ بھی تعلیق ایران ہے۔
تختی 13 :
تعلیق ایران، نمونہ 7 ویں صدی ھجری
مخزن اسرار نظامی :

یہ ایرانی تعلیق کے ابتدائی نمونوں میں ہے۔ یہ یونیورسٹی لائبریری کے مخطوطہ Spi IV 12 A/4583 کا ص 149 ہے۔ (ملاحظہ ہو فہرست مخطوطات از سید عبد اللہ عدد 638 )۔
نسخ کی بہت سی خصوصیات موجود ہیں۔ مثلا د لکھنے کا طریقہ، ر لکھنے کا طریقہ۔
د کو کبھی کبھی ذ بھی لکھا جا رہا ہے۔ مثلا سطر 11 میں د کو ذ، ملاحظہ ہو۔
چ کے لیے عموما ج استعمال ہو رہا ہے۔ نون غنہ اور نون منقوط دونوں ہیں۔ اس میں یاے مجہول بھی ہے۔ ورق 124 پر، ھنرے اور قدرے دیکھیے ممکن ہے یہ نسخہ توران میں لکھا گیا ہو۔
تختی 14 :
تعلیق ھند (سنہ 759 ھجری)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
مراسلہ 19 صفحہ 12

الخمیس ثانی عشر ربیع الاول سنہ ست و ستین و ؟
کاتبہ ، بزرجمہر بن محمد بن حبشی الطوسی ، ناظر دریں کتاب کہ بخیرات دو جہانی واصل باد چوں بر سہوے یا خطبے اطلاع یابد ، گباہ بر نویسندہ ننہد کہ نسخہ اصل نیک سقیم بود ہر چند غایت جہد در تصحیح آن مبذول داشت اما جایگاھی چند نافع نیامد و اگر ممکن بشود اصلاح بفرماید ۔ والسلام
آگے بظاہر بعد کی سیاہی میں لکھا ہے : تم 666 الھجریہ اور آخر میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ اور یہ بھی بعد کی سیاھی ہے) اس نسخے کے ساتھ ابو سعید ابو الخیر کا بوعلی سینا کے نام ایک خط ہے جو یقینا بعد کا لکھا ہوا ہے ، نسخے کے ابتدائی ورق کی پشت اول پر ایک دو "عرض دیدے" بھی ہیں اور کچھ تحریرات بھی ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
یہ نسخہ پروفیسر شیرانی کے کتب خانے سے پنجاب یونیورسٹی کے کتب خانے میں پہنچا ہے۔
پروفیسر شیرانی اس نسخے کے خط کو تعلیق ایران کہا کرتے تھے۔
تختی نمبر 12 کو پھر دیکھیے ( جو نسخے کا ورق 100 ب ہے ) خط اس زمانے میں نسخ کے پیچ و خم سے نکلنا چاہتا ہے۔ قوسوں والے حروف تدویر کی طرف مائل ہو کر گولائیاں زیادہ ہو رہی ہیں۔ اس عبارت میں س ، ش ، ن ، ض اور ی کو دیکھیے۔ نستعلیق کے کس قدر قریب ہیں۔ نسخ کے خمیدہ حروف راست ہونے کی کوشش میں ہیں۔ پھر بھی اس خط کو ہم نستعلیق نہیں کہہ سکتے۔ یہ درمیانی دور کا خط ہے۔ اس دور میں فن کار نستعلیق کے سیدھے اور خوبصورت دائروں کے لیے چھپا ہوا اشتیاق رکھتا ہے مگر اس کے لیے ابھی قلم تیار نہیں ہوا۔
 
آخری تدوین:

عائشہ عزیز

لائبریرین
اوکے بھیا ا
میں ناں ایک لیکچر نوٹ کر رہی ہوں انشاء اللہ شام تک یہ تمام پیجز کر دوں گی۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صفحہ 15 ،مراسلہ 24

نظر ڈالیے۔ خط میں صنعت ترصیع کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ تعلیق بہار کی یہ خصوصیت کہ اس میں حروف کو آگے کی طرف لٹکا کر اور لمبا کر کے لکھا جاتا ہے۔ بڑی مدت تک قائم رہی۔

تختی 16 :
تعلیق ھند (قیاسا آٹھویں صدی ھجری)
دیوان غرۃ الکمال، خسرو (غزل برورق 224bو 225a )

اس میں خط کے خصائص یہ یں کہ نسخ کی باقاعدگی اور ریاضیاتی توازن بالکل بگڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ نستعلیق کے قریب بھی نہیں۔ تاہم نسخ کے نظام کو بالکل درہم برہم کر رہا ہے۔
پہلے شعر میں د (بالکل گول ہوگئی ہے اور بے احتیاطی سے لکھی ہوئی ل کے قریب ہے۔ چون میں شکستہ کی مانند جو اور ن کو باہم ملا دیا گیا ہے۔ دوسری غزل میں خواھی کی ھا کی شکل، دو چشمی سے دور ہوگئی ہے اور کہ کی شکلیں کبھی کے کبھی کہ (مقصر) ہے۔ دما دم میں ما اور د کو کس طرح ملایا گیا ہے۔
لمبے اور گول حرفوں کی شکلیں ملاحظہ ہوں۔ اعراب کا طریقہ ملاحظہ ہو۔تصویری طور پر خلا (Space) کو پر کرکے خوب صورت بنایا گیا ہے۔

تختی 17 :
تعلیق ھند ۔ خط بہار (شاید دسویں صدی ھجری)
قرآن مجید عدد 4792 شیرانی

تختی 18 :
خط بہار (شاید بارھویں صدی کا اوائل)
قرآن مجید عدد V.I/4758 بڑی تقطیع
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صفحہ 17،مراسلہ 28


ہیں۔ ایک مہر عبد الرشید دیلمی کی بھی ہے۔ نسخ کی کچھ خصوصیات باقی ہیں۔ لیکن خط میں گولائیاں نمودار ہو رہی ہیں اگرچہ بعض گول حروف قوس کی طرف مائل بھی ہیں۔ مثلا سطر نمبر 1 اور 2 ، ی نسخی انداز لیے ہوئے ہے۔ خط پر نسخ کا گہرا نقش ہے مگر پھر بھی یہ نسخ نہیں۔ سطر نمبر 10 میں 'برگزیدی'
ملاحظہ فرمائیے۔ سطر نمبر 11 میں ل کو دیکھیے۔ ل کو مقطوع لکھا گیا ہے جیسا مرکب طور پر کسی اور حرف کے ساتھ ملا کر لکھا جائے ۔ ھ ہر جگہ دو چشمی چل رہی ہے۔ ۃ گول بھی اور لمبی (ت) بھی ہے۔ ی آخر میں بھی ھو تو اس کے نیچے دو نقطے ہیں ھمزہ بھی کہیں کہیں ہے لیکن ایرانی کتابت اور تلفظ کے مطابق یہ آواز ی سے پیدا کی گئی ہے۔ مثلا سطر نمبر 14 میں رھایی اور خدایی ۔ نون غنہ نظر نہیں آتا۔ ایرانی تلفظ کے مطابق ہر نون کو منقوط کیا گیا ہے۔ سطر نمبر 5 اور 6 ملاحظہ ہو۔

تختی 22 :
تعلیق ایران
مجموعہ دواوین، خسرو، اوحدی، ابو اسحق اطعمہ وغیرہ (غزل ورق 96)

د کی جگہ ذ۔ نستعلیق کی شکل ابھرتی آتی ہے۔ مگر حسن کاری ابھی نہیں ابھری۔

تختی 23 :
تعلیق ایران (سنہ 841 ھجری) ھرات
یہ مہدی بیانی کے نمونہ خطوط خوش (ص109) سے لیا گیا ہے کتاب خانہ شاہی ایران کے ایک مرقع کا ورق ہے یہ خط بڑا سلسلہ دار ہے۔ اس میں حروف کو باہم جوڑنے کا بڑا رحجان ہے۔ حرفوں کو نیچے کی طرف لٹکانے کا میلان ، نقش و نگار کا رنگ ڈھنگ رکھتا ہے۔ بعض سطریں تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا کسی پیراہن کی کنگری ہے جس کے فاصلوں میں مساوات کا اصول
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صفحہ 19،مراسلہ 32


خصائص : س کے نیچے بھی نقطے ہیں۔ حسن کی خاطر حرفوں کو متناسب بنانے کے لیے لمبا لکھا گیاہے۔ خرد میں لمبی کشش سے Rythm پیدا کیا گیا ہے۔
کاغذ سمرقندی ہے۔ کتابت بھی ماوراء النہر کی ہوگی۔

تختی 27 :
نستعلیق (دسویں صدی ھجری)
دیوان شاہی [ Spi VI 35/1639 فہرست سید عبد اللہ 730] ورق 19 ب

تختی 28 :
نستعلیق ( دسویں صدی ھجری )ایران، ھرات
دیوان مغربی [Spi VI 33/4602] ورق 20 ب

تختی 29 :
نستعلیق (دسویں صدی ھجری)
یوسف زلیخا، جامی (وفات 898ھ)
[Spi VI 386/4596] ورق 76 ب

کشکول بہاء الدین آملی کی پانچویں جلدی (یونیورسٹی لائبریری مجموعہ شیرانی۔ عدد 1586)۔

تختی 30 :
نستعلیق مخلوط (شیراز 1049 ھجری)
یہ نسخہ شاہی کتب خانوں کی زینت رہا ہے ۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ خط نستعلیق ہے مگر نسخ، رقاع، تعلیق وغیرہ کی آمیزش کہیں کہیں ہے مگر کم کم ہے۔ ن کی کتابت خاص طور سے قابل غور ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
صفحہ 14 ، مراسلہ 22

مفید المستفید: علی بن احمد الغوری جس کا نمبر AR d II 71 ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لائبریری کی ملکیت ہے۔ کتاب کا سنہ کتابت 759 ھ ہے۔
اس کا خط تعلیق ہے۔ چونکہ مصنف ہندوستان سے متعلق ہے اور نسخہ بھی ظاہرا ہندوستان میں لکھا گیا ، اس مناسبت سے اسے تعلیق "ہندوستان" کہا گیا ہے۔
کتاب کا صفحہ 13 ملاحظہ ہو۔ خط کے خصائص واضح ہو جائیں گے۔ اس میں "د" کی ساخت ملاحظہ ہو۔ اس کی شکل نسخ کی سی ہے لیکن ہر جگہ باقی خط سے "د" کو اصولا زیادہ بڑا کیا گیا ہے۔ سطر نمبر 1 میں المقصود کی "د" ملاحظہ ہو۔ نیز سطر نمبر 16 "کہ" کو ہر جگہ "کر" لکھا ہے۔ یائے مجہول کو یای معروف کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ نسخ کے دائرے قدرے گولائی اختیار کر رہے ہیں۔ گ کو ک لکھا گیا ہے۔
تختی 15:
رواں اور مصنوع تعلیق ( آخری حصہ آٹھویں صدی ھجری)
دیوانِ سعدی (spi VI 18 A)
پروفیسر شیرانی اس خط کو خطِ بہار کہا کرتے تھے۔
ورق 42 ب ملاحظہ ہو۔ یہ نسخ کی ہموار روانی کے خلاف آزادی کا کھلا اعلان ہے۔ شکستہ بھی اسی کے اندر سے نکلتا ہوا نظر آتا ہے۔ خط کا ردھم خود بخود جوش زن ہے۔ سطر 6 ملاحظہ ہو۔ خطاط نے حروف کی نچلی سطح کو ہم رنگ اور ہم قدم رکھنے کی خاص کوشش کی ہے۔
دراں صورت کہ عشق آمد خرد مندی کجا ماند
میں ن کا لٹکا ہوا دائرہ ہے اس کے محاذ میں ت اور ق کے ن کو ہم شکل بنایا ہے۔ اس کے بعد کی سطر میں د کے دائرے لٹکے ہوئے جا رہے ہیں ۔ سارے شعر پر
 

الف نظامی

لائبریرین
صفحہ 16،مراسلہ 26

تختی 19:
تعلیق ،خطِ بہار ( شاید بارھویں صدی ہجری)
بین السطور ترجمہ بھی ہے۔ امعان سے نہیں دیکھ سکا کہ کس کا ہے۔ آرائش کی طرف میلان ہے۔
تختی 20:
تعلیق ایران ( ساتویں صدی ہجری کے آخر میں )
اخلاق ناصری کا ایک اور نسخہ ( Spb III 1 A --- شیرانی 1558 )

اس پر دو مالکانہ یاداشتیں ہیں۔ ایک کی تاریخ 764 ھ ہے۔ دوسری کی تاریخ 756 ھ ہے۔ اس کا ورق 68 ب ملاحظہ ہو۔
اس میں خط کی تقریبا وہی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو اخلاق ناصری کے سابقہ نسخے میں ہیں۔ ت کے نقطے اوپر نیچے ہیں۔ د (ذ) ہے۔ کہ (کی اور کے) ہے کاف لکھنے کا انداز خاص ہے۔ کشش الگ الگ ہے۔
قیاسا یہ اس سے پہلے نسخے کے بعد کا لکھا ہوا ہے لیکن ساتویں صدی میں یعنی سنہ سات سو سے کوئی بیس سال پہلے لکھا گیا ہوگا اس میں میں مرکب حرفوں میں ملا ہوا حرف ، سابقہ نسخے کی مانند نیچے کی طرف بڑھا ہوا نہیں ، مگر کہیں ہے بھی۔
تختی 21:
تعلیق ایران (آٹھویں صدی ہجری)
کلیات عماد فقیہ ( نمبر 371 ، فہرست سید عبد اللہ)

یہ مخطوطہ PI VI 301/2338 کے ورق 90 ب کا عکس ہے۔ کلیات عماد فقیہ کا یہ نسخہ قیاسا 8 ویں صدی ہجری کا لکھا ہوا ہے۔ عماد فقیہ کا سال وفات 773/772 ھ ہے۔ یہ نسخہ معاصر معلوم ہوتا ہے اس پر عالمگیری امرا کی مہریں
 

الف نظامی

لائبریرین
صفحہ 18،مراسلہ 30

کار فرما ہے۔ ماسوا چند حرفوں کے اکثر حرفوں کو قوسوں کی شکل دی جا رہی ہے۔ (نیز ملاحظہ ہو اسی کتاب کا شمارہ 2)
تختی 24:
نستعلیق (سنہ 849 ہجری)
کلیات سعدی شیرازی

کلیات کا یہ نسخہ 829 ھ کا لکھا ہوا ہے۔ کاتب علی عبد المظفر بن عبد اللہ۔
بہ ارشاد جناب ۔۔۔ یگانہ زمان و ہنر مند جہاں خواجہ غیاث الدین محمد فرج اللہ مدظلہ
در عہد خلافت ۔۔۔ ابراہیم سلطان خلد اللہ ملکہ و سلطانہ
تختی 25:
نستعلیق (877 ہجری)

خمسہ نطامی ( spi VI 12/4558 ، فہرست سید عبد اللہ 638 )
یہ نسخہ مشہور خطاط اظہر تبریزی کا لکھا ہوا ہے۔ تاریخ کتابت 877 ھ ۔ اصفہان میں لکھا گیا ورق 57 ب ملاحظہ ہو۔
گولائیاں ، نوکیں ، خوبصورتی کے لیے حرفوں کی ڈرائنگ (سطر نمبر 10 میں سر بلندی میں بلند کو محض حسن کاری کی خاطر لمبا کیا گیا ہے۔ لمبی ش میں بھی یہی حسن کاری ہے اور خط میں تصویریت کے طور پر ضرورت کے اصول سے زیادہ جمال کا اصول مد نظر ہے۔ ت کے حروف دیکھیے۔ م کی مخروطی شکل ملاحظہ ہو۔
تختی 26:
نستعلیق (نویں صدی کا آخر)
دیوان خسرو ( Api VI 31/223 ، فہرست سید عبد اللہ 339) ورق 42 الف
 

الف نظامی

لائبریرین
صفحہ 20 ،مراسلہ 34

اس کے بعد کے نسخ ، نستعلیق اور شکستہ کے نمونے ترک کرتا ہوں کیونکہ وہ عام ہیں اس لیے وضاحت طلب بھی نہیں۔ میں نے یہ مختصر مضمون زیادہ تر پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے مخطوطوں پر مبنی کیا ہے ورنہ اس سے اقدم اور بہتر نمونے دنیا میں موجود ہیں بلکہ شاید خود اس لائبریری میں بھی ہوں جو میرے علم میں نہ ہوں۔ کسی نوجوان محقق کو --- کاوش کرنی چاہیے!
 
Top