نظیر ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا

یاسر شاہ

محفلین
مذمتِ اہلِ دنیا

کیا کیا فریب کہیے دنیا کی فطرتوں کا
مکر و دغا و دُزدی ہے کام اکثروں کا
جب دوست مل کے لوٹیں اسباب مُشفِقوں کا
پھر کس زباں سے شکوہ اب کیجے دشمنوں کا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________


گر دِن کو ہے اُچَکّا تو چور رات میں ہے
نَٹ کَھٹ کی کچھ نہ پوچھو ہر بات بات میں ہے
اس کی بغل میں کُتّی تیغ اس کے ہاتھ میں ہے
وہ اس کی فکر میں ہے یہ اس کی گھات میں ہے


ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________


دیکھے کوئی ہے جن کا ہے گَٹھ کَٹی وتیرہ
جامے پہ کھا رہا ہے لُچّے کا دل حریرا
لَٹھ مار تاکتا ہے ہر آن سر کا چِیرا
جوتی کو تک رہا ہے ہر دم اٹھائی گیرا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________


عیّار اور چھچھورا نت اپنے کار میں ہے
اور صبح خیزیا بھی اپنی بہار میں ہے
قزّاق جس مکاں پر فکرِ سوار میں ہے
پیادہ غریب اس جا پھر کس شمار میں ہے

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________


اس راہ میں جو آیا اسوار گہہ سے گھوڑا
ٹھگ سے بچا تو آگے قزّاق نے نہ چھوڑا
سویا سرا میں جا کے تو چور نے جِھنجھوڑا
تیغہ رہا نہ بھالا گھوڑا رہا نہ کوڑا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________


نادان کو پِلا کر اک بھنگ کا پیالا
کپڑے بَغَل میں مارے اور لے لیا دوشالا
دانا ملا تو اس میں گھولا دھتورا کالا
ہوتے ہی غافل اس کو پھانسی میں کھینچ ڈالا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________


پیسے روپے اَشَرفی یا سیم زر کا پَترا
پھر جیت گھر میں لاوے ہے کون ایسا چَترا
میدان ،چوک ،کھائی یہ فن ہے وہ دَھنترا
کترے ہے جیب چڑھ کر ہاتھی پہ جیب کَترا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________


چڑیا نے دیکھ غافل کپڑا ادھر گھسیٹا
کوّے نے وقت پا کر چڑیا کا گھر گھسیٹا
چیلوں نے مار پنجے کوّے کا سر گھسیٹا
جو جس کے ہاتھ آیا وہ اس نے در گھسیٹا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________


صیّاد چاہتا ہے ہو صید کا گزارا
اور صید چاہے دانا کھا کر کرے کنارا
قابو چڑھا تو اس کا دانہ وہ کھا سدھارا
اور کچھ بھی چال چُوکا تو ووہیں جال مارا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
____________


نکلا ہے شیر گھر سے گیدڑ کا گوشت کھانے
گیدڑ کی دُھن لگا دے خود شیر کو ٹھکانے
کیا کیا کریں ہیں باہم مکر و دغا بہانے
یاں وہ بچا نظؔیر اب جس کو رکھا خدا نے

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا


از انتخاب نظیر (ناصر کاظمی )
 

یاسر شاہ

محفلین
بہترین انتخاب
درج ذیل الفاظ کے معانی کی وضاحت ہوجائے تو مشکور ہوں گے:





مفہوم ؟








پیشگی شکریہ
جزاک اللہ خیر عبیدبھائی
کل سے ان شاء اللہ ہر بند کے متعلق اجمالی گفتگو پیش کروں گا ایک ایک کر کے تاکہ مشکل الفاظ کا حل نکل سکے۔
 

م حمزہ

محفلین
شاہ صاحب! بہت ہی خوب. یہاں شئیر کرنے کیلیئے بہت شکریہ .
جتنا کچھ میں سمجھ پایا ہوں بس یہ کہوں گا کہ کاظمی صاحب مجھ سے ہی مخاطب ہیں اور مجھے دنیا اور دنیا والوں کا آئینہ دکھا رہے ہیں.
میری بھی گزارش ہے کہ کچھ تشریح ہوجائے تو احسان ہوگا.
 

یاسر شاہ

محفلین
مذمتِ اہلِ دنیا

کیا کیا فریب کہیے دنیا کی فطرتوں کا
مکر و دغا و دُزدی ہے کام اکثروں کا
جب دوست مل کے لوٹیں اسباب مُشفِقوں کا
پھر کس زباں سے شکوہ اب کیجے دشمنوں کا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________
لغتِ بند
دزدی : چوری -رہزنی
مشفق : شفیق -مہربان
ٹک :اک ذرا-تھوڑی سی دیر

تسہیلِ بند
مطلع کا بند اپنے مطلب میں صاف ہے ،تسہیل کی حاجت نہیں -


گر دِن کو ہے اُچَکّا تو چور رات میں ہے
نَٹ کَھٹ کی کچھ نہ پوچھو ہر بات بات میں ہے
اس کی بغل میں کُتّی تیغ اس کے ہاتھ میں ہے
وہ اس کی فکر میں ہے یہ اس کی گھات میں ہے


ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
لغتِ بند

اچکا :بدمعاش -اوباش
نٹ کھٹ :عیّار -دغاباز -شریر
کتی : چھوٹی تلوار
گھات میں ہونا :تاک میں ہونا

تسہیلِ بند
بندے کا قیاس ہے کہ دوسرے مصرع میں طباعت کی کچھ چوک ہے -بند آسان ہے اگر دوسرے مصرع کا :نٹ کھٹ : رکاوٹ نہ ہو - راقم کو لگتا ہے کہ یہاں :نٹ کھٹ : کی بجائے :کھٹ پٹ : باندھا گیا ہے یعنی : کھٹ پٹ کی کچھ نہ پوچھو ہر بات بات میں ہے :-مراد بند کی یہی ہے کہ دن میں بدمعاش نہیں چھوڑتا کہ دن دیہاڑے دھڑلے سے آتا ہے اور سچ بولو یا جھوٹ جان نہیں چھوڑتا جب تک خوب لوٹ کر تسلّی نہ کر لے اور رات کو چور سے عافیت نہیں ، دونوں ہتھیار سے لیس ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی خدا کے بندے کی تاک میں ہوتے ہیں - والله اعلم

دیکھے کوئی ہے جن کا ہے گَٹھ کَٹی وتیرہ
جامے پہ کھا رہا ہے لُچّے کا دل حریرا
لَٹھ مار تاکتا ہے ہر آن سر کا چِیرا
جوتی کو تک رہا ہے ہر دم اٹھائی گیرا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
لغتِ بند
گٹھ کٹی :جیب کترنا
لچا :ایسا بدمعاش جو بےشرم بھی ہو
حریرا :ایک قسم کی سویٹ ڈش
دل کا حریرا کھانا :یہ محاورہ اب رائج نہیں اور مجھے مختلف لغتوں میں نظر نہیں آیا لیکن بند کے سیاق و سباق میں مصرع سے مراد یہی لگتی ہے کہ لچا جامے دیکھ دیکھ کر للچا رہا ہے
چیرا :خاص قسم کی پگڑی
اٹھائی گیرا :آنکھ بچا کر پرائی چیز اٹھانے والا

تسہیلِ بند
بند سے مراد یہی ہے ہر ہر شکاری اپنے اپنے شکار کی تاڑ میں ہے -

عیّار اور چھچھورا نت اپنے کار میں ہے
اور صبح خیزیا بھی اپنی بہار میں ہے
قزّاق جس مکاں پر فکرِ سوار میں ہے
پیادہ غریب اس جا پھر کس شمار میں ہے

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
لغتِ بند
نت :روزانہ -ہمیشہ
صبح خیزیا :وہ چور جو جنگل میں مسافروں سے پیشتر اٹھ کر مسافروں کا مال اور اسباب لے جاتا ہے -
قزاق :لٹیرا -ڈاکو
پیادہ :پیدل

تسہیلِ بند
عیّار ،چھچھورے ،صبح خیزیے سب اپنے دھندوں میں مست ہیں ،لٹیرا جب چلتی سواری پر سوار کو لوٹ لیتا ہے تو پیدل بیچارے کا تو پوچھنا ہی کیا -

اس راہ میں جو آیا اسوار گہہ سے گھوڑا
ٹھگ سے بچا تو آگے قزّاق نے نہ چھوڑا
سویا سرا میں جا کے تو چور نے جِھنجھوڑا
تیغہ رہا نہ بھالا گھوڑا رہا نہ کوڑا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
لغتِ بند
اسوار گہہ :سوار گاہ -سوار کے ٹھہرنے کی جگہ
ٹھگ :لوٹنے والا ،عموما ٹھگ اس کو کہتے ہیں جو دھوکہ دہی سے لوٹتا ہے
قزاق :وہ لوٹنے والا جو اسلحے کے زور پہ لوٹتا ہے
تیغہ :چھوٹی تلوار جس کا پھل چوڑا ہوتا ہے
بھالا :برچھا -نیزہ جو اکثر سات ہاتھ لمبا ہوتا ہے
سرا :سرائے -وہ جگہ جو مسافروں کے آرام کے لیے بنائی جاتی ہے -

تسہیلِ بند
جب گھر سے گھوڑے پہ کوئی نکلتا ہے تو راستے میں یا تو کوئی ٹھگ مل جاتا ہے جو مکّاری سے لوٹنے کے چکر میں ہوتا ہے یا پھر کوئی ڈاکو ٹکر جاتا ہے -اگر سفر لمبا ہو اور کہیں سرائے میں سستانے کو ٹھہرو تو چور جھنجھوڑ دیتا ہے الغرض انسان کے پاس نہ کوئی چیز رہنے دیتے ہیں نہ اسے آرام ہی کرنے دیتے ہیں یہاں تک کہ اپنے تحفّظ کا سامان تیغہ بھالا وغیرہ بھی لوٹ کے لے جاتے ہیں، سواری اور اس کے ہنکانے کے لیے کوڑا بھی لے جاتے ہیں -
مصرع کتاب میں یوں تھا :
اس راہ میں جو آیا اسوار گہہ کے گھوڑا

مجھے:کے : لفظ یہاں کتابت کی غلطی لگا لہٰذا بدل دیا -

نادان کو پِلا کر اک بھنگ کا پیالا
کپڑے بَغَل میں مارے اور لے لیا دوشالا
دانا ملا تو اس میں گھولا دھتورا کالا
ہوتے ہی غافل اس کو پھانسی میں کھینچ ڈالا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
__________
لغتِ بند
دوشالہ:دو شالوں سے بنا جوڑا
کالا دھتورا :ایک قسم کا پودا جو زہر کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے

تسہیلِ بند
لوٹنے والے نادان کو تو بھنگ کا پیالہ پلا دیتے ہیں اور اس کے کپڑے وغیرہ لوٹ کے لے جاتے ہیں مگر دانا کو بھنگ کے پیالے میں مزید کالا دھتورا بھی گھول کے دیا جاتا ہے ،اس پہ بھی بس نہیں کہ دانا سے بعد میں کاروائی کا بھی خوف ہوتا ہے چنانچہ اسے ٹھکانے لگا دیتے ہیں -
پیسے روپے اَشَرفی یا سیم زر کا پَترا
پھر جیت گھر میں لاوے ہے کون ایسا چَترا
میدان ،چوک ،کھائی یہ فن ہے وہ دَھنترا
کترے ہے جیب چڑھ کر ہاتھی پہ جیب کَترا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________
لغتِ بند
پترا :ورق
چترا :چالاک -عقل مند
دھنترا :دھنتر -زور آور -زبردست

تسہیلِ بند
یہ بند نظم کا سب سے مشکل بند ہے، پہلے سوچا اسے شامل نہ کیا جائے کہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا -بند کا تیسرا مصرع کتاب میں یوں درج تھا :میدان چوک کھائی یہ فن ہے وہ دَھنترا : اچانک خیال آیا رموزاوقاف لگانے کا :میدان ،چوک ،کھائی : تینوں لفظوں کے درمیان :کوما : لگانے سے تفہیم میں مدد ہوئی -یعنی شاعر کہتا ہے کوئی بھی قیمتی سامان گھر سے لے جا کر واپس گھر لانا ایسا ہے جیسے جیت کے لایا گیا ہواور یہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ کوئی بہت ذہین آدمی ہی ہو سکتا ہے جو قیمتی سامان گھر سے لے بھی جائے اور واپس لے بھی آئے - وجہ یہی ہے کہ ہر جگہ فنکار گھومتے ہیں جو اپنے فن میں ایسے زبردست ہیں کہ جیب کترا ہاتھی پہ چڑھ کر سوار کی جیب کاٹ لیتا ہے -

چڑیا نے دیکھ غافل کپڑا ادھر گھسیٹا
کوّے نے وقت پا کر چڑیا کا گھر گھسیٹا
چیلوں نے مار پنجے کوّے کا سر گھسیٹا
جو جس کے ہاتھ آیا وہ اس نے در گھسیٹا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
___________
یہ بند عام فہم اور آسان ہے -

صیّاد چاہتا ہے ہو صید کا گزارا
اور صید چاہے دانا کھا کر کرے کنارا
قابو چڑھا تو اس کا دانہ وہ کھا سدھارا
اور کچھ بھی چال چُوکا تو ووہیں جال مارا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
____________
لغتِ بند
صیاد :شکاری
صید :شکار

تسہیلِ بند
شکاری چاہتا ہے کہ جوزمین پہ اس نے دانے بکھیرے ہوئے ہیں، پرندوں کا اس پر گزر ہو ،اور پرندوں کی چاہت ہے کہ آناً فاناً دانہ چگیں اور اڑ جائیں ،چنانچہ ماہر پرندہ یوں ہی کرتا ہے دانہ چگتے ہی یہ جا وہ جا اور جس کی چال ذرا سی گڑ بڑ ہوتی ہے وہ جال میں دھر لیا جاتا ہے -
نکلا ہے شیر گھر سے گیدڑ کا گوشت کھانے
گیدڑ کی دُھن لگا دے خود شیر کو ٹھکانے
کیا کیا کریں ہیں باہم مکر و دغا بہانے
یاں وہ بچا نظؔیر اب جس کو رکھا خدا نے

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا

یہ بند بھی صاف ہے، سمجھنے میں کوئی دقت نہیں -یہ مصرع نظم کا حاصل ہے :یاں وہ بچا نظؔیر اب جس کو رکھا خدا نے : یعنی جس کو الله رکھے اسے کون چکھے اور جس کو الله نہ رکھے اسے ہر کوئی چکھے -

نظم کا ٹیپ کا شعر :ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا ----یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا: ضرب الامثال میں شمار کیا جاتا ہے جو کہ اس نظم کی آفاقیت کی کھلی دلیل ہے -اندازہ لگائیے کہ نظیر اکبر آبادی کا دور 1735سے لے کر 1830تک کا ہے اور یہ سال 2023 چل رہا ہے - کوئی بدلاؤ نہیں آیا سوائے یہ کہ اسلحہ بدل گیا ہے تیغوں اور بھالوں کی جگہ پستولوں اور بندوقوں نے لے لی ہے -

محترمی سرور عالم راز اور دیگر دوستوں سے بھی یہی امید کی جاتی ہے کہ جہاں کوئی غلطی ہو گئی ہو درستی فرمائی جائے گی -
 

یاسر شاہ

محفلین
شاہ صاحب! بہت ہی خوب. یہاں شئیر کرنے کیلیئے بہت شکریہ .
جتنا کچھ میں سمجھ پایا ہوں بس یہ کہوں گا کہ کاظمی صاحب مجھ سے ہی مخاطب ہیں اور مجھے دنیا اور دنیا والوں کا آئینہ دکھا رہے ہیں.
میری بھی گزارش ہے کہ کچھ تشریح ہوجائے تو احسان ہوگا.
جزاک اللہ خیر حمزہ بھائی ۔
دیکھیے کچھ محنت کی تو ہے شاید گزارا ہو جائے۔
 

م حمزہ

محفلین
جزاک اللہ خیر حمزہ بھائی ۔
دیکھیے کچھ محنت کی تو ہے شاید گزارا ہو جائے۔
شاہ صاحب ! اللّہ آپ کو جزائے خیر دے . بہت بہت شکریہ.
زمانہ ضرور گزر گیا لیکن حالات جو‌ ں کے توں ہیں. انسان بدلے ہیں تو طریق کار بھی بدل گئے ہیں. لیکن خصلت وہی ہے. دھوکہ فریب لوٹ مار فراڈ یہ سب اس وقت بھی ہوتا تھا آج بھی ہورہا ہے. نئے نئے انداز ایجاد ہوئے ہیں. اور شاید اب پہلےسے زیادہ اور منظم طریقے سے ہورہا ہے.
اللہ رحم فرمائے.
 

یاسر شاہ

محفلین
زمانہ ضرور گزر گیا لیکن حالات جو‌ ں کے توں ہیں. انسان بدلے ہیں تو طریق کار بھی بدل گئے ہیں. لیکن خصلت وہی ہے. دھوکہ فریب لوٹ مار فراڈ یہ سب اس وقت بھی ہوتا تھا آج بھی ہورہا ہے. نئے نئے انداز ایجاد ہوئے ہیں. اور شاید اب پہلےسے زیادہ اور منظم طریقے سے ہورہا ہے.
اللہ رحم فرمائے.
درست فرمایا۔
کاظمی صاحب مجھ سے ہی مخاطب ہیں
حمزہ بھائی یہ نظم دراصل نظیر اکبر آبادی کی ہے۔میرے پاس ایک کتاب ہے انتخاب نظیر کے عنوان سے جس میں کلیات نظیر سے کلام کا انتخاب کیا گیا ہے اور منتخب کرنے والے ناصر کاظمی ہیں۔
جزاک اللہ خیر۔
 

سیما علی

لائبریرین
بہت خوب بھانجے ۔
بہترین کلام شریکِ محفل کرنے کے لئے بہت شکریہ ۔۔۔
عجب حالات ہیں ۔دل دکھی ہوتا ۔۔۔سالوں پہلے جس تناظر میں لکھی باتیں آج بھی ویسی ہی ہے !!بلکہ بد سے بد تر ہوگئیں ہیں۔۔۔۔۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
بہت خوب بھانجے ۔
بہترین کلام شریکِ محفل کرنے کے لئے بہت شکریہ ۔۔۔
عجب حالات ہیں ۔دل دکھی ہوتا ۔۔۔سالوں پہلے جس تناظر میں لکھی باتیں آج بھی ویسی ہی ہے !!بلکہ بد سے بد تر ہوگئیں ہیں۔۔۔۔۔۔
جی ایسا ہی ہے ، یہ مصرع آج کل کے اسکیمرز سے بھی ہوشیار کرتا ہے :ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا:
جزاک اللہ خیر آپ کی توجہ کا۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
میرے ایک کلاس فیلو امریکہ سے پچیس سال بعد آئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہا ۔۔۔یہی حا ل ہوا آخر کار پھر واپس گئے ۔۔اسقدر دکھ کرتے کہتے یہ کیا ہوگیا ہے !ہر بندے کی کوشش یہ ہے کہ دوسرے کا پیسہ کسی نہ کسی طرح اُسکی جیب میں آجائے اور محنت نہ کرنا پڑے ۔۔۔وہ کہتے تھے ۔ہم یہ تو کہتے کہ اللہ نے یہ کھانا حرام کہا ہے ۔۔۔لیکن پھر بھی ہم ہر دم ۔۔۔۔۔۔۔ بننے کو تیا ر ہیں ۔۔ارے بابا کھانا ہی حرام نہیں ہے بننا اُس سے زیادہ حرام ہے ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
اس نظم کی آفاقیت کی کھلی دلیل ہے -اندازہ لگائیے کہ نظیر اکبر آبادی کا دور 1735سے لے کر 1830تک کا ہے اور یہ سال 2023 چل رہا ہے - کوئی بدلاؤ نہیں آیا سوائے یہ کہ اسلحہ بدل گیا ہے تیغوں اور بھالوں کی جگہ پستولوں اور بندوقوں نے لے لی ہے -
بہت بہت شکریہ اسقدر مفصل تشریح کے لئے
صد فی صد درست بات بال برابر کچھ نہیں بدلا ۔۔بلکہ جوں جوں وقت گذرتا جاتا ہے برائیاں ہیں کہ بڑھتی جاتی ہے ۔
یہ بند بھی صاف ہے، سمجھنے میں کوئی دقت نہیں -یہ مصرع نظم کا حاصل ہے :یاں وہ بچا نظؔیر اب جس کو رکھا خدا نے : یعنی جس کو الله رکھے اسے کون چکھے اور جس کو الله نہ رکھے اسے ہر کوئی چکھے -
جیتے رہیے ڈھیروں دعائیں ۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
میرے ایک کلاس فیلو امریکہ سے پچیس سال بعد آئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہا ۔۔۔یہی حا ل ہوا آخر کار پھر واپس گئے ۔۔اسقدر دکھ کرتے کہتے یہ کیا ہوگیا ہے !ہر بندے کی کوشش یہ ہے کہ دوسرے کا پیسہ کسی نہ کسی طرح اُسکی جیب میں آجائے اور محنت نہ کرنا پڑے ۔۔۔وہ کہتے تھے ۔ہم یہ تو کہتے کہ اللہ نے یہ کھانا حرام کہا ہے ۔۔۔لیکن پھر بھی ہم ہر دم ۔۔۔۔۔۔۔ بننے کو تیا ر ہیں ۔۔ارے بابا کھانا ہی حرام نہیں ہے بننا اُس سے زیادہ حرام ہے ۔۔۔
خالہ اللہ جل شانہ ہم سب کو ہدایت و نیک توفیقات سے نوازے۔آمین
بہت بہت شکریہ اسقدر مفصل تشریح کے لئے
صد فی صد درست بات بال برابر کچھ نہیں بدلا ۔۔بلکہ جوں جوں وقت گذرتا جاتا ہے برائیاں ہیں کہ بڑھتی جاتی ہے ۔

جیتے رہیے ڈھیروں دعائیں ۔۔
جزاک اللہ خیر ۔
 
Top