ہر مشکل کے بعد ہے آسانی بھی دوست

عظیم

محفلین
السلام علیکم، ایک غزل پابند بحور شاعری میں پیش کر رہا ہوں، اس بحر کے بارے میں مجھے کچھ زیادہ آگاہی نہیں ہے۔ اگر کوئی رکن کم یا زیادہ ہو تو آگاہ فرمائیے گا براہ مہربانی
اور اپنی رائے سے بھی ضرور نوازئے
جزاک اللہ خیر



ہر مشکل کے بعد ہے آسانی بھی دوست
حد میں رہے اچھا ہے من مانی بھی دوست

دل کا گھر آباد رکھو پھر دیکھو تم
چشن بپا کرتی ہے ویرانی بھی دوست

میں ہوں بہت ادراک سے تیرے دور کھڑا
تجھ کو سمجھ میری نہیں کچھ آنی بھی دوست

اب بھی ہیں جلوے صدیوں پہلے تھے جیسے
اور ہے دنیا میری دیوانی بھی دوست

دشت میں ڈھونڈتے پھرتے ہو کیا عیش و نشاط
یہاں تو برسوں ملتا نہیں پانی بھی دوست

جاؤ اور کہاں جاؤ گے میرے سوا
میرا نہیں پاؤ گے کوئی ثانی بھی دوست

یونہی اپنے آپ میں رہ کر زیست کرو
بس میں نہیں کرنے کی جو کچھ ٹھانی بھی دوست

میں تو ہوں وہ صیاد جو رکھتا ہوں تم سے
بے بس بے مختار سے زندانی بھی دوست

چاہ کا پیکر بننا کوئی آسان ہے کیا
اس میں دور نہیں ہے جاں جانی بھی دوست




 
السلام علیکم، ایک غزل پابند بحور شاعری میں پیش کر رہا ہوں، اس بحر کے بارے میں مجھے کچھ زیادہ آگاہی نہیں ہے۔ اگر کوئی رکن کم یا زیادہ ہو تو آگاہ فرمائیے گا براہ مہربانی
اور اپنی رائے سے بھی ضرور نوازئے
جزاک اللہ خیر



ہر مشکل کے بعد ہے آسانی بھی دوست
حد میں رہے اچھا ہے من مانی بھی دوست

دل کا گھر آباد رکھو پھر دیکھو تم
چشن بپا کرتی ہے ویرانی بھی دوست

میں ہوں بہت ادراک سے تیرے دور کھڑا
تجھ کو سمجھ میری نہیں کچھ آنی بھی دوست

اب بھی ہیں جلوے صدیوں پہلے تھے جیسے
اور ہے دنیا میری دیوانی بھی دوست

دشت میں ڈھونڈتے پھرتے ہو کیا عیش و نشاط
یہاں تو برسوں ملتا نہیں پانی بھی دوست

جاؤ اور کہاں جاؤ گے میرے سوا
میرا نہیں پاؤ گے کوئی ثانی بھی دوست

یونہی اپنے آپ میں رہ کر زیست کرو
بس میں نہیں کرنے کی جو کچھ ٹھانی بھی دوست

میں تو ہوں وہ صیاد جو رکھتا ہوں تم سے
بے بس بے مختار سے زندانی بھی دوست

چاہ کا پیکر بننا کوئی آسان ہے کیا
اس میں دور نہیں ہے جاں جانی بھی دوست




عظیم صاحب ،و علیکم السلام . اچھے اشعار ہیں . داد حاضر ہے .

آپ نے بحر کا ذکر کیا ہے . میری ناحیز رائے میں یہ بحر متقارب اثرم کی ہم شکل ہے جس كے ارکان ہیں : فعل فعولن فعل فعولن فعلن فع . اِس بحر میں فعل فعولن کی جگہ فعلن فعلن بھی رکھ سکتے ہیں . مردف مصرعوں میں آپ نے آخر میں فع کی جگہ فعل یا فاع بھی استعمال کیا ہے . میرے پاس عروض پر جو مواد ہے ، اس میں اِس کا ذکر تو نہیں ہے ، لیکن میرے خیال میں ایسا استعمال مقبول ہے . بحر كے نام پر ایک دلچسپ بات اور . یہ بحر ہندی میں بھی مستعمل ہے ، لیکن متقارب اثرم كے نام سے نہیں . ہندی میں اُرْدُو کی طرح بحور كے نام نہیں ہوتے . ہندی میں وزن کرنے میں اُرْدُو كے مقابلے زیادہ لچک رکھی گئی ہے . وہاں اگر مصرعے كے ایک حرفی اور دو حرفی ٹکڑوں کو جوڑنے پر تعداد ایک جیسی پائی جائے تو مصرعہ بر وزن قرار پائےگا خواہ ان ٹکڑوں کی ترتیب کچھ بھی ہو . لیکن کلاسیکی اُرْدُو شعراء کے نذدیک اس بحر میں سبب اور وتد کی ترتیب ارکان كے مطابق ہونا ضروری تھی .مثلاً میر کی شاعری میں ، جنہوں نے اِس بحر کا بہت استعمال کیا ہے ، اِس شرط کی پابندی نظر آتی ہے . بعد كے شعراء نے ، مثلاً اِبْن انشاء نے بھی اِس بحر کا استعمال کیا ہے ، لیکن انہوں نے اُرْدُو اور ہندی کا فرق ختم کر دیا . ان کی شاعری بھی رواں ہے ، لیکن میری ناحیز رائے میں ان کی بحر کو متقارب اثرم نہیں کہا جا سکتا . آپ كے کچھ مصرعے بھی متقارب اثرم کی روایتی ترتیب سے ہٹ کر ہیں .

چند باتیں آپ كے غور و فکر كے لیے عرض ہیں . اول تو یہ کہ مجھے محسوس ہوا کہ کئی ایسے مقامات پر حروف کو ساقط کرنا پڑ رہا ہے جہاں اِس سے پرہیز کیا جا سکتا ہے . دویم یہ کہ کئی مصرعے الفاظ کی غیر ضروری تَعْقِید كے شکار ہیں . یہ دونوں خامیاں آپ تھوڑے بہت رد و بَدَل سے دور کر سکتے ہیں .

امید ہے یہ ناچیز تأثرات کار آمد ثابت ہو نگے . اشعار کی مرمت کا کام میں آپ پر چھوڑتا ہوں . :)
 

عظیم

محفلین
عظیم صاحب ،و علیکم السلام . اچھے اشعار ہیں . داد حاضر ہے .

آپ نے بحر کا ذکر کیا ہے . میری ناحیز رائے میں یہ بحر متقارب اثرم کی ہم شکل ہے جس كے ارکان ہیں : فعل فعولن فعل فعولن فعلن فع . اِس بحر میں فعل فعولن کی جگہ فعلن فعلن بھی رکھ سکتے ہیں . مردف مصرعوں میں آپ نے آخر میں فع کی جگہ فعل یا فاع بھی استعمال کیا ہے . میرے پاس عروض پر جو مواد ہے ، اس میں اِس کا ذکر تو نہیں ہے ، لیکن میرے خیال میں ایسا استعمال مقبول ہے . بحر كے نام پر ایک دلچسپ بات اور . یہ بحر ہندی میں بھی مستعمل ہے ، لیکن متقارب اثرم كے نام سے نہیں . ہندی میں اُرْدُو کی طرح بحور كے نام نہیں ہوتے . ہندی میں وزن کرنے میں اُرْدُو كے مقابلے زیادہ لچک رکھی گئی ہے . وہاں اگر مصرعے كے ایک حرفی اور دو حرفی ٹکڑوں کو جوڑنے پر تعداد ایک جیسی پائی جائے تو مصرعہ بر وزن قرار پائےگا خواہ ان ٹکڑوں کی ترتیب کچھ بھی ہو . لیکن کلاسیکی اُرْدُو شعراء کے نذدیک اس بحر میں سبب اور وتد کی ترتیب ارکان كے مطابق ہونا ضروری تھی .مثلاً میر کی شاعری میں ، جنہوں نے اِس بحر کا بہت استعمال کیا ہے ، اِس شرط کی پابندی نظر آتی ہے . بعد كے شعراء نے ، مثلاً اِبْن انشاء نے بھی اِس بحر کا استعمال کیا ہے ، لیکن انہوں نے اُرْدُو اور ہندی کا فرق ختم کر دیا . ان کی شاعری بھی رواں ہے ، لیکن میری ناحیز رائے میں ان کی بحر کو متقارب اثرم نہیں کہا جا سکتا . آپ كے کچھ مصرعے بھی متقارب اثرم کی روایتی ترتیب سے ہٹ کر ہیں .

چند باتیں آپ كے غور و فکر كے لیے عرض ہیں . اول تو یہ کہ مجھے محسوس ہوا کہ کئی ایسے مقامات پر حروف کو ساقط کرنا پڑ رہا ہے جہاں اِس سے پرہیز کیا جا سکتا ہے . دویم یہ کہ کئی مصرعے الفاظ کی غیر ضروری تَعْقِید كے شکار ہیں . یہ دونوں خامیاں آپ تھوڑے بہت رد و بَدَل سے دور کر سکتے ہیں .

امید ہے یہ ناچیز تأثرات کار آمد ثابت ہو نگے . اشعار کی مرمت کا کام میں آپ پر چھوڑتا ہوں . :)
ایک بار پھر بہت شکریہ آپ کا عرفان علوی بھائی
 

الف عین

لائبریرین
مجھے ردیف میں دوست بھرتی کا محسوس ہورہا ہے، اس کے بغیر رواں ہوسکتی ہےغزل
ہرمشکل کےبعد ہےکچھ آسانی بھی
 
Top