قتیل شفائی ہرجائی

کھیتوں سے دور دمکتے ہوئے دوراہے پر
اک سرشار جواں کو میں نے کھڑے پایا تھا
تمتماتے ہوئے چہرے پر سلگتی ہوئی آنکھیں
جیسے کسی مہکے ہوئے گلزار کا خواب آیا تھا

سر پر گاگر کے چھلکنے سے جو تارے ٹوٹے
آسماں جھانک رہا تھا مجھے حیرانی سے
ٹن سے لگا کنکر جو مری حسیں گاگر پر
اک نغمہ سا الجھنے لگا پیشانی سے

ٹوٹتی رات گئے وہ گھر کو پلٹنا میرا
اک لپکتے ہوئے سائے نے ڈرایا تھا مجھے
تم اری تم (وہ ہی سرشار جواں تھا شاید)
جی یونہی مری اک سہیلی نے بلایا تھا مجھے

کانچ کی چوڑیاں کل رات نہ ہوں ہاتھوں میں
اس قدر اونچی تری پازیب کی جھنکار نہ ہو
سرسراتا ہوا ملبوس لہرا نہ جائے کہیں
کسی سائے کا گماں پس دیوار نہ ہو

چاند سے جب پگھلی ہوئی چاندی برسی
اونگھتی ہوئی رات کے شانے کو جھنجھوڑا ہم نے
بھول کر بھی پلکیں نہ جھپکنے پائیں
اس قدر نیند کو آنکھوں سے نچوڑا ہم نے

اب کہ چاندنی رات آ کر گزر جاتی ہے
کوئی پوچھتا ہی نہیں مری تنہائی کو
کھیتوں سے دور دمکتے ہوئے دوراہے پر
آنکھ مری ڈھونڈتی ہے کسی ہرجائی کو
 
Top