ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو (احمد مشتاق)

عاطف ملک

محفلین
ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو
یہ نیا کھیل ملا ہے مِری تنہائی کو

تھا جو سینے میں چراغِ دلِ پُرخوں نہ رہا
چاٹیے بیٹھ کے اب صبر و شکیبائی کو

دلِ افسردہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں
کیا کریں آپ کی اس حوصلہ افزائی کو

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے، لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

نگہِ ناز! نہ ملتے ہوئے گھبرا ہم سے
ہم محبت نہیں کہنے کے شناسائی کو

دل ہے نیرنگئ ایام پہ حیراں اب تک
اتنی سی بات بھی معلوم نہیں بھائی کو

احمد مشتاق​
 

یاسر شاہ

محفلین
واہ احمد مشتاق کے کلام سے ایک بہترین انتخاب چن کے پیش کرنے پہ آپ کے تہہ دل سے ممنون ہیں ۔جزاک اللہ خیر۔

ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو
یہ نیا کھیل ملا ہے مِری تنہائی کو
یہ بھی غنیمت ہے کہ درد کی گہرائی ناپتے ہیں فرصت میں، ورنہ لوگ تو ہاتھ سے نہ جانے کیا کیا ناپتے ہیں اور محفل میں مشہور ہے کہ مصروف ہیں جناب۔
 
Top