ہاتھی پر سواری کا شوق۔۔۔۔۔۔ جمیل خان

hathi-par-sawari-ka-shouq-670.jpg

بات تلخ ہے لیکن حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں امریکی کاسہ لیسی کا شوق تقریباً ہر ایک کو ہی ہے، اُن کو بھی جو امریکہ کے خلاف جہاد کے فتوے دیتے رہتے ہیں، اور وہ لوگ بھی پس منظر میں امریکی مفادات کی تکمیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں جو امریکی فوجیوں سے نبرد آزما ہیں۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کسی دوسری سلطنت میں بطور مہمان گیا، وہاں پر میزبان بادشاہ نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی۔ میزبان نے مہمان کو دارالسلطنت کی سیر کرائی، سیر کے دوران مہمان بادشاہ اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور میزبان ہاتھی پر!

میزبان نے مہمان کو ہاتھی پر سوار ہونے کی دعوت دی۔ مہمان بادشاہ اپنے گھوڑے سے اُترنا ہی چاہتا تھا کہ کچھ سوچ کر رُک گیا۔ میزبان نے مہمان سے رُک جانے کی وجہ دریافت کی تومہمان بادشاہ نے کہا “میں کسی سواری پر صرف اس صورت میں سوار ہوتا ہوں، جبکہ اس کی لگامیں بھی میرے ہاتھ میں ہوں۔”
اب یہ بات ایسی کوئی ڈھکی چھپی بھی نہیں رہی کہ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں کے دوران امریکہ نے دو خوفناک جنگوں میں دھکیل کر برطانیہ کی معیشت پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ ایک ایسی سلطنت جس کی سرحدوں میں سورج غروب ہی نہیں ہوتا تھا (محاورتاً نہیں حقیقتاً)، کو اُبھرتے ہوئے عالمی مہاجن سے سود پر قرض لینا پڑ گیا۔
یاد رہے اس قرض کی قسطیں چند سال قبل ہی پوری ہوسکی تھیں۔
کہا جاتاہے کہ امریکہ نے اندرون خانہ “سازشوں” کے ایسے جال بچھائے کہ برطانیہ کے نوآبادیاتی نظام میں شامل خطوں کے اندر آزادی کی تحریکیں زور پکڑتی چلی گئیں، گرتی ہوئی معیشت کے ساتھ خانہ جنگی کی طرف بڑھتی ہوئی اِس صورتحال سے نبٹنا اب سلطنت برطانیہ کے لیے کوئی آسان نہ تھا، دوسرے امریکہ جاپان کے دو شہروں پر ایٹمی حملے کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی فوجی برتری کی دہشت بٹھا چکا تھا،چنانچہ تاج برطانیہ نے اپنے کالونیل سسٹم کا بیشتر حصہ امریکہ کے سپرد کردیا۔ لیکن امریکہ نے اس سسٹم کو تقسیم در تقسیم کرکے قبول کرنا پسند کیا، مزید یہ بھی کہ برطانیہ کی طرز پر وائسرائے اور انگریز انتظامیہ کے بجائے بالواسطہ طریقۂ کار کواختیار کیا، یعنی برطانیہ کے دور میں گوری چمڑی کے لوگ ہم کالوں پر حکمرانی کرتے تھے، جبکہ آج ہمارے ووٹوں سے منتخب کردہ یاقومی مفاد میں بالجبر مسلط ہونے والے حکمران خطے میں سامراجی مفادات کی نگرانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
ابتدائی دور سے ہی پاکستانی حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کا حصول اپنا اوّلین مقصد بنائے رکھا۔ اس کی ایک مثال پاکستان کا پہلا مارشل لاء ہے جو 1953ء میں نافذکیا گیا۔ مارشل لاء کے نفاذ کا بظاہر مقصد تو یہ تھاکہ پنجاب میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص امن عامّہ کی انتہائی بدترین صورتحال پر قابو پایا جائے۔ یہ بدترین صورتحال قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردینے کے مطالبے پر مبنی تحریک کی بناء پر پیدا ہوئی جو آگے چل کر پُرتشدد احتجاج میں تبدیل ہوتی گئی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ تحریک کا اصل مقصدکچھ اور تھا، جیسا کہ قیامِ پاکستان سے تاحال جاری تحریکوں کے پس پردہ مقاصد ان کے عنوانات کے عین برعکس ہوا کرتے ہیں۔ 1953ء کے مارشل لاء کا باعث بننے والی اُس تحریک کا اصل مقصد بہت سے تجزیہ نگاروں کے خیال میں بنگالی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی برطرفی تھا۔ خواجہ صاحب انتہادرجے کے سادگی پسند تھے، اکثر تانگے یا رکشے میں بھی اپنے دفتر چلے جاتے تھے، تعیشات وتکلفات کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ان کی یہ طرزفکربہت سے لوگوں میں”مایوسی” کا سبب بن رہی تھی، لہٰذا اندرونِ خانہ اُن کے خلاف محاذ تیار ہونے لگا۔
جرنل اعظم خان کے مطابق اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں ممتازدولتانہ نے اس تحریک میں شدت پیدا کروائی۔ دولتانہ کا خیال تھاکہ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد وہ خودان کی جگہ وزیراعظم کا منصب سنبھال لیں گے، لیکن ان سب کے پس پردہ بھی ایک خفیہ ہاتھ موجود تھا جو خواجہ ناظم الدین کو اُن کی جرأتِ رندانہ کی سزادینا چاہتاتھا۔ دراصل خواجہ صاحب نے امریکی امداد قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، چنانچہ پہلے تو مصنوعی طور پر ملک بھر میں غذائی قلت پیدا کی گئی، پھر خواجہ ناظم الدین کی کردارکشی کے لیے باقاعدہ مہم چلائی گئی اور جب لوہا اچھی طرح گرم ہو گیا تو مذہبی تحریک کی صورت میں آخری وارکیا گیا، جس میں تمام سرکردہ مذہبی جماعتوں نے خوب حصہ لیا اور اپنے فرقہ وارانہ عقائد کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو بھی تقویت بخشی۔
خواجہ ناظم الدین کی جگہ لینے والوں نے تخت حکمرانی سنبھالتے ہی امریکی امداد قبول کرنے کا اعلان کردیا اور امداد کی پہلی کھیپ لے کر امریکی جہاز کراچی پہنچا تو امریکی گندم کی بوریاں لادنے والی اونٹ گاڑیاں جب بندرروڈ(حالیہ ایم اے جناح روڈ)سے گزررہی تھیں، تو اس وقت لوگوں نے دیکھا کہ ان اونٹوں کی گردنوں میں “تھینک یو امریکہ” کی تختیاں جھول رہی ہیں۔
ساٹھ برس قبل “تھینک یو امریکہ” کی تختیاں صرف اونٹوں کی گردنوں میں لٹکائی گئی تھیں جبکہ آج حکمران طبقے کے یا حکمرانی کی خواہش رکھنے والے اعلیٰ وادنیٰ تمام افرادکی گردنوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
جب ابتدائی دورسے ہی لگامیں ہمارے ہاتھ میں نہیں رہیں تو قوم کے لیے فکروعمل کی اجتماعی راہ کا تعین کس طرح کیاجاتا؟
حقیقت تو یہی ہے کہ جن مقاصد کے لیے برصغیر کی یہ غیر فطری تقسیم کی گئی تھی، وہ مقاصد بتدریج پورے ہوتے رہے اور ان مقاصد کی تکمیل کے لیے بطور ایندھن ہمارا استعمال کیا جاتا رہا۔
مثال کے طور پر جب امریکہ کو ہمارے “جذبۂ جہاد” کی ضرورت ہوئی تب ہمارے ہاں ایلیٹ کلاس کے بہت سے مغرب زدہ لوگوں کے سروں پر بھی ٹوپی اور ہاتھوں میں تسبیح نظر آنے لگی، اسی کلاس کی بہت سی خواتین قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے ابتدائی عشروں کے دوران گوری میموں کی نقالی کیا کرتی تھیں، تیس پینتیس برس قبل ان کی اکثریت نے بخوشی “میلاد والی باجیوں”کی سی وضع قطع اختیار کرلی۔ شریعت کا اس قدر غلغلہ ہوا کہ بانی ٔپاکستان محمد علی جناح مرحوم پر بھی شریعت نافذکرنے کی کوشش کی گئی، وہ اس طرح کہ تمام سرکاری ونیم سرکاری اداروں اور بیرون پاکستان سفارتخانوں سے قائداعظم کی سوٹ اورٹائی والی تصاویر اُتار کر شیروانی اور ٹوپی والی تصاویر آویزاں کردی گئیں۔ شلوار قمیض اسکول وکالجز کا یونیفارم قرار دیا گیا، درسی کتابوں میں فرقہ واریت اور شدّت پسندی کچھ اس طرح سرائیت کی گئی کہ چند ہی برسوں میں پوری دنیا پر مسلمانوں کے قبضے کا خواب دیکھنے والے جنونیوں کی پوری فصل تیارہوگئی، جسے امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ اور جب اس “جذبۂ جہاد” کی امریکہ کو ضرورت نہیں رہی تو 12،اکتوبر1999ء سے روشن خیالی کا دور شروع ہوگیا۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ اس کے دوسرے یا تیسرے روز اس وقت چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ اختیار کرنے والے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کی، اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک تصویر پاکستانی اخبارات کے فرنٹ پیج پر شائع ہوئی تھی، جس میں چیف ایگزیکٹیو صاحب اپنے ہاتھوں میں سفید رنگ کے دو کتے اُٹھائے کھڑے تھے۔
ہمارے خیال میں اس تصویر کے ذریعے امریکی حکمرانوں کو ایک خاص سگنل دیا گیا تھا، ایسے سگنل کسی خاص فوجی اہداف یا ہدف کے حصول کے بعد بھیجے جاتے ہیں۔ اس تصویر سے مغربی عوام کو بھی یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان میں رجعت پسندی کادور ختم ہوگیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اُس تصویر اور بعد کے برسوں میں بیانات، اقدامات اور متحرک و غیر متحرک ہزاروں تصاویر کے ذریعے پاکستان کے عسکریت و غیر عسکریت پسند مذہبی طبقے کو یہی پیغام دیا جاتا رہا کہ پاکستان میں اب ان کے غلبے کی راہ میں رکاوٹیں دور ہوچکی ہیں چنانچہ پورے پاکستان میں بالعموم اور پاکستان کے مفلس وپسماندہ خطوں میں بالخصوص شدت پسندی اور دہشت گردی کی ایسی لہر اُبھری جس کا تصور تیس برس قبل کے “دور سیاہ” میں بھی شاید ممکن نہ تھا۔
کیا ایسا نہیں لگتا کہ یہ سارے عوامل بھی عالمی طاقتوں کے مفاد کا حصہ تھے اور ہیں؟
کہا جاتاہے کہ مشرف کے دور میں پاکستان کے کتنے ہی لوگوں کو پکڑپکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا جاتا رہا ہے۔ لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے اور انہیں یاد نہیں رہتا کہ یہ سلسلہ بھی نیا نہیں، مشرف کے دور میں عرب کے محلات میں شاہانہ طرزکی جلاوطنی کا مزہ لوٹنے والے نواز شریف جو بدترین دھاندلی کے الزامات کے ساتھ اب پاکستان کے وزیراعظم کا عہدہ تیسری مرتبہ سنبھالنے جارہے ہیں، جب خود وزیراعظم تھے تو ان کے دور میں ایک روز امریکی طیارے نے پاکستان کی سرزمین پر لینڈ کیا تھا، اس میں سے ایف بی آئی کے اہلکار اپنی گاڑیوں سمیت باہر نکلے یہ گاڑیاں جو جدید ہتھیاروں اور جدید ترین مواصلاتی نظام سے لیس تھیں، پاکستانی سڑکوں پر بے دھڑک دوڑتی رہیں اورمختلف علاقوں سے گزرتی ہوئی ایک رہائشی علاقے میں پہنچیں اور یوسف رمزی کو بے خبری میں جاپکڑا، اسے گرفتار کرکے ایف بی آئی کے اہلکار ایئرپورٹ پہنچے اور وہی طیارہ گرفتارمجرم لے کر امریکہ لوٹ گیا۔
بات تلخ ہے لیکن حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں امریکی کاسہ لیسی کا شوق تقریباً ہر ایک کو ہی ہے، اُن کو بھی جو امریکہ کے خلاف جہاد کے فتوے دیتے رہتے ہیں، اور وہ لوگ بھی پس منظر میں امریکی مفادات کی تکمیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں جو امریکی فوجیوں سے نبرد آزما ہیں۔
ڈرون حملوں کے خلاف ملک بھر میں دھرنوں کا سلسلہ جاری کرنے والے عمران خان کی جماعت نے خیبر پختونخوا میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے،کیا وہ اپنی جماعت کی صوبائی حکومت کو یہ حکم دے سکیں گے کہ امریکی ڈرون طیاروں کو مار گرائیں؟
ہم نے ابتداء میں ایک حکایت بیان کی تھی جس میں مہمان بادشاہ نے کہا تھا کہ میں اس سواری پر ہی سوار ہوں گا جس کی لگامیں بھی میرے ہاتھ میں ہوں۔
ہمارے ہاں تو ایسے لوگ بھی گزرے ہیں بلکہ آج بھی موجود ہیں جوسواری تو سواری اپنی ذاتی لگامیں بھی ازخود امریکی ہاتھوں میں دینے کے لیے تہہ دل سے بے قرار رہتے ہیں۔
ہاتھی پر سواری کے شوقین افراد اپنے پیشروؤں کے انجام سے بھی کچھ نہیں سیکھتے جن کے نام عبرتناک مثال کے طورپرباقی رہ گئے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے اندر انفرادی واجتماعی ہر سطح پر عبرت حاصل کرنے کی صلاحیت بھی دیگر مثبت صلاحیتوں کی طرح مفقود ہوچکی ہے۔
ہاتھی پر سواری کا شوق تو شہنشاہ ایران کو بھی تھا، جس نے ڈھائی ہزارسالہ شہنشائیت کا دعویٰ کیا تھا ۔حسنی مبارک اور صدر قذافی کو بھی، لیکن اُن کایہی شوق انہیں لے ڈوبا، اورجن کے ہاتھوں میں ان کی اور ان جیسے دیگر کی لگامیں تھیں انہوں نے ان سب کی کوئی مدد نہیں کی۔ شہنشاہ ایران تو دنیابھر میں پناہ ڈھونڈتا رہا اورکسی نے اسے پناہ نہ دی، اس لیے کہ ایک عرصہ تک اسے جن کی پشت پناہی حاصل تھی وہی اس سے آنکھیں پھیر چکے تھے۔
(جاری ہے)

تحریر:جمیل خان
بہ شکریہ ڈان اردو
 
Top