گیلےکاغذ پہ روشنائی۔ جاوید ندیم

الف عین

لائبریرین
رات کا پچھلا پہر ہےاور میں
جاگتا سوتا نگر ہےاور میں
میں کہ سنگ آسا ہُوا ہوں دوستو!
کیسےجادُو کا اثر ہےاور میں
حکم ہےجرعہ کشی کا دیکھئے
زہر لب پر قدح بھر ہےاور میں
زندگی صحرا سفر ہےجان لیں
سر پہ تپتی دوپہر ہےاور میں
پھول ، پودےاور بستی سوگئی
آرزو کا اِک شجر ہےاور میں
لوگ سارےبےسماعت ہوگئے
شور کرتا زخمِ سر ہےاور میں
آنکھ میں سب کی بسی ہےخُفتگی
تشنہ ¿ ناظر ہنر ہےاور میں
ایسا لگتا ہےکہ میں صحرا میں ہوں
رات ہےجاوید گھر ہےاور میں

****
 

الف عین

لائبریرین
دیکھتےخود کو کبھی بھیڑ میں کھوکر تم بھی
لوگ ہوکر نہیں ہوتے، وہاں ہوکر تم بھی
میری خواہش تھی کبھی پاس تمہارےرُکتا
اپنےپیروں میں لئےپھرتےہو چکّر تم بھی
اِن درختوں کےتلےپہلےبھی لوگ آئےتھے
نام لکھ جاؤ مرے دوست یہاں پر تم بھی
دِل مرا صبح کو بازار کا حصّہ ہوگا
ذہن کو لےکےنکل جاؤ گےدفتر تم بھی
رات رانی سی مہکتی ہُوئی یادیں میری
سوچ لو مجھ کو تو ہوجاؤ معطّر تم بھی
لوگ ہوتےہی اذاں اپنےسفر پر نکلے
جاگ بھی جاؤ، سمیٹو ذرا بستہ تم بھی
میں نےرو رو کےکیا اپنےلہو کو پانی
آگ میں اپنی ہی جلتےرہےنشتر تم بھی

***
 
Top