گیارہ اگست کی اصل تقریر کی ضیا اور لبرل ظلمت

جاسم محمد

محفلین
گیارہ اگست کی اصل تقریر کی ضیا اور لبرل ظلمت
11/08/2019 عدنان خان کاکڑ


آپ میں سے نہایت باریک بین افراد نے نوٹ کیا ہو گا کہ آج 11 اگست کا دن ہے۔ اور یہ بھی نوٹ کیا ہو گا کہ وطن عزیز کے بہت سے لبرل افراد اس دن کو اقلیتوں کا دن قرار دیتے ہوئے واویلا کرتے ہیں کہ قائداعظم نے 11 اگست کے دن دو قومی نظریے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے غیر مسلم شہریوں کو برابر کا شہری کہا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ ریاست کا اپنے شہریوں کے عقیدے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس بات کو یہ لبرل طبقہ اس دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے کہ یہ سیکولر ریاست کا اعلان تھا۔

آپ جانتے ہی ہوں گے کہ قائداعظم کی یہ تقریر کرنے کے فوراً بعد لبرل سیکولر بیوروکریسی نے اسے سینسر کرنے اور چھپانے کی کوشش کی تھی۔ خوش قسمتی سے آج ہم اس سازش کا توڑ کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور قائداعظم کی وہ اصلی تقریر حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جس کے بعد لبرلوں کی ظلمت کو ضیا کی عقیدت سے شکست فاش دی جائے گی۔ عظیم پاکستانی حکمران جنرل ضیا الحق کے دور میں مملکت خداداد کے شہریوں پر یہ انکشاف پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ قائداعظم کو اسماعیلی یا شیعہ مسلک سے متعلق قرار دینا غلط ہے کیونکہ وہ غیر مسلکی مسلمان تھے۔ اسی عظیم حکمران کے دور میں پہلی مرتبہ تاریخ کے تاریک تہ خانوں سے حضرت قائداعظم کی ڈائری بھی نکالی گئی تھی جس میں بیان کیے گئے اصولوں کے مطابق جنرل ضیا الحق نے مملکت خداداد کی سمت درست کی تھی۔ ضیا دور کے جس شخص نے یہ ڈائری دریافت کی تھی اور اسے لکھتے ہوئے اپنا قلم توڑ دیا تھا، اس کے پوتے نے آج ہمیں قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کا مسودہ دے دیا ہے۔

اب لبرل افراد قائداعظم کی ڈائری کی طرح اس پر بھی شبہات کا اظہار کریں گے کہ یہ جعلسازی ہے۔ مگر ہمارا مقصد تو اس تاریخ کو سامنے لانا ہے جو مطالعہ پاکستان میں لکھی جانی چاہیے۔ اگر کسی محقق کو اس پر اعتراض ہے تو خود 11 اگست کی تقریر لکھ کر لے آئے۔ تاریخ کو مطالعہ پاکستان سے پڑھے ہوئے طلبا دونوں کا تقابل کر کے بتا دیں گے کہ کون سی تقریر اصلی ہونی چاہیے۔

ہمارے پاس موجود اس مبینہ تقریر میں قائداعظم نے کہا:

اس مجلس کے پہلے فریضہ کے بارے میں اس وقت کسی سوچی سمجھی بات کا تو اعلان نہیں کرسکتا لیکن ایک دو چیزیں جو میرے ذہن میں آئیں گی آپ کے سامنے پیش کردوں گا۔ پہلی اور سب سے زیادہ اہم بات جو میں زور دے کر کہوں گا وہ یہ ہے، یاد رکھیے کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں ”سوائے ان اختیارات کے جن کو عدلیہ چھین لے“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یعنی آپ فیصلے کس طرح کرتے ہیں؟ پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایک حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان ومال اور مسلمانوں کے عقیدے اور ان دیگر عقائد کو تحفظ دے سکے ”جن کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا“۔

میں اس بات پر بہت زیادہ زور نہیں دے سکتا۔ ہمیں اس جذبہ کے ساتھ کام شروع کر دینا چاہیے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اکثریت اور اقلیت، وہ فرقہ ”جس کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا“ اور مسلمان فرقہ کے یہ چند در چند زاویے معدوم ہوجائیں گے۔ کیوں کہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان میں بھی تو پٹھان، پنجابی، شیعہ اور سنی وغیرہ وغیرہ موجود ہیں اس طرح ”ایک دیگر قوم جس کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا“ میں بھی برہمن، ویش، کھتری ہیں اور بنگالی اور مدراسی ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہی چیزیں ہندوستان کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہوگئے ہوتے۔

اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں: اپنی ان عبادت گاہوں میں جائیں ”جن کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا“، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ آج بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں ایک مخصوص فرقے سے امتیاز برتا جاتا ہے اور ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے ایسے حالات میں سفر کا آغاز نہیں کیا ہے۔ ہم اس زمانے میں یہ ابتدا کررہے ہیں جب اس طرح کی تفریق روا نہیں رکھی جاتی۔ دو فرقوں کے مابین کوئی امتیاز نہیں۔ مختلف ذاتوں اور عقائد میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کررہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے برابر کے شہری ہیں ”لیکن یاد رہے کہ کچھ شہری دوسروں سے زیادہ برابر ہیں“۔

میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ وہ ”جن کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا“، وہ رہے گا ”جن کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا“ نہ مسلمان، مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔ پس حضرات میں آپ کا مزید وقت لینا نہیں چاہتا اور ایک بار پھر اس اعزاز کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے آپ نے مجھے نوازا۔ میں ہمیشہ عدل اور انصاف کو مشعل راہ بناؤں گا اور جیسا کہ سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے تعصب یا بدنیتی دوسرے لفظوں میں جانبداری اور اقربا پروری کو راہ نہ پانے دوں گا اور ”کچھ شہریوں کو دوسروں سے زیادہ برابر سمجھوں گا“۔ عدل اور مکمل غیر جانبداری میرے رہنما اصول ہوں گے۔

لیکن یاد رہے کہ سر سید احمد خان نے دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو قومیں ہیں، ایک مسلمان اور ایک دیگر جن کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا۔ آپ بھی یہ بات یاد رکھیں۔ خاص طور پر پاکستان کی اس اسمبلی کے پہلے صدر، جوگندر ناتھ منڈل، جو ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ”جس کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا“، سر ظفر اللہ خان بھی ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ”جس کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا“، اور دیگر غیر مسلم عقائد کے حامل اراکین جن کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا، اب تیار رہیں۔ منڈل صاحب کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون و انصاف اور لیبر مقرر کر دیا جائے گا، سر ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ، مگر ان دونوں کے ”مذہب کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا“۔

آپ نے یہ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی ضیا سے آلودہ یہ تقریر پڑھی۔ ہم نے تو اب حجت تمام کر دی ہے۔ اگر کچھ لبرل افراد ابھی بھی بضد ہوں کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ غیر مسلم برابر کے شہری ہیں، تو ہم انہیں راہ راست پر لانے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنی پسند کی تقریر پڑھ لیں، ہم اپنی پسند کی تقریر لکھتے رہیں گے۔

ویسے یہ فضول کی بحث ہے۔ قائداعظم نے خواہ کچھ بھی کہا ہو، کر تو ہم وہی رہے ہیں جو ہم نے اس تقریر میں لکھا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
قائداعظمؒ کی 11اگست 1947ء کی تقریر-میثاقِ مدینہ کا پَرتو
منیر احمد منیر بدھ 14 اگست 2019
1776492-quaideazamphotofile-1565759871-981-640x480.jpg

قائداعظمؒ کی11 اگست 1947ء کی اس تقریر کے اس حصے کی طرف آئیں تو ہر چیز واضح ہو جاتی ہے۔ فوٹو : فائل

میثاقِ مدینہ اسلامی تاریخ کا ایک بڑا ہی اہم معاہدہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ کیا۔ مصری مورخ محمد حسنین ہیکل اپنی تالیف ’’حیاتِ محمدؐ ‘‘ میں لکھتے ہیں:-

’’یہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رُو سے جنابِ محمد (صلوٰت اللہ تعالیٰ علیہ) نے آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال قبل معاشرۂ انسانی میں ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور فرد کو اپنے اپنے عقیدہ میں آزادی کا حق حاصل ہوا۔ انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی۔ اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی…..‘‘ (اردو ترجمہ: ابویحییٰ امام خاں۔ بار سوم 1987ء۔ صفحہ:270 – پبلشر:ادارہ ثقافتِ اسلامیہ 2 کلب روڈ لاہور)۔

پاکستان میں ہر شخص کو اپنے اپنے عقیدہ میں حقِ آزادی، انسانی زندگی کی حرمت اور اموال وغیرہ کے تحفظ کی ضمانت قائداعظمؒ نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان دستور ساز اسمبلی میں واشگاف الفاظ میں دے دی تھی۔ اور ان کی یہ تقریر میثاقِ مدینہ پر ہی استوار ہے۔ مثلاً اس عالی شان میثاق کی مختلف شقوں میں درج ہے۔ شق نمبر 15:تمام مسلمان اس معاہدے پر متفق ہیں اور وہ اس میں سے کسی دفعہ کا انکار نہیں کر سکتے۔ جس مسلمان نے اس معاہدے کا اقرار کرلیا، وہ خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے۔

18۔ اگر مسلمان جہاد میں اپنا مال خرچ کریں تو یہود کو بھی ان کے ساتھ اپنا مال خرچ کرنا ہو گا۔

19۔ قبیلہ بنی عوف کے یہود بھی اس معاہدے میں شامل ہیں۔ اگرچہ مسلمان اور یہودی ہر ایک اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا مستحق ہو گا، لیکن مشترکہ مقاصد میں دونوں ایک جماعت کے حکم میں داخل ہوں گے۔

32۔ اگر مدینہ پر کوئی قوم حملہ کرے تو دشمن کی مدافعت میں سب کو مل کر حصہ لینا ہو گا۔

میثاق مدینہ کی ان شقوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے قائداعظمؒ کی11 اگست 1947ء کی اس تقریر کے اس حصے کی طرف آئیں تو ہر چیز واضح ہو جاتی ہے:’’…..تم میں سے ہر ایک چاہے تمہارا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو، چاہے تمہارا رنگ، ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو، اول بھی اس ریاست کا باشندہ ہو گا، دوئم بھی اور آخر میں بھی۔ تمہارے حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں برابر ہوں گی…..حکومت پاکستان میں آپ کو اپنے مندروں اور پرستش گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ آپ کسی بھی مذہب کے مقلد ہوں یا آپ کی ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو، اس سے پاکستان کی حکومت کو کوئی تعلق نہیں…..ہم اس بنیادی اصول کے ماتحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں(پُرجوش تالیاں)۔ ہمیں اس اصول کو اپنا مطمح نظر بنا لینا چاہئے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ ان کے مذہب مٹ جائیں گے، کیونکہ مذہب کو ماننا ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے۔ میرا مطلب سیاسی تمیز سے ہے کہ وہ سب ایک قوم کے افراد ہو جائیں گے‘‘۔

یہی میثاقِ مدینہ کہتا ہے’’…..اگرچہ مسلمان اور یہودی ہر ایک اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا مستحق ہو گا، لیکن مشترکہ مقاصدمیں دونوں ایک جماعت کے حکم میں داخل ہوں گے‘‘۔ اور یہ بھی کہ’’اگر مدینہ پر کوئی قوم حملہ کرے تو دشمن کی مدافعت میں سب کو مل کر حصہ لینا ہوگا‘‘۔

میثاقِ مدینہ کے متعلق مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی اپنی تالیف ’’پیغمبر ِ انسانیتؐ ‘‘ میں لکھتے ہیں:-

’’یہ بڑا اہم واقعہ اس لئے ہے کہ:

1۔ ایک اسلامی ریاست کی بنیاد پڑنے کی نشان دہی اسی معاہدے سے ہوتی ہے۔

2۔ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو بین الاقوامی معاہدوں کی اساس ہے۔

3۔ اس معاہدے میں بڑی اعلیٰ اقدار ہیں…..دنیا کو پہلی بار درس ملا کہ احترامِ انسانیت کی بنیاد اور اعلیٰ مقاصد کو بروئے کار لانے میں کس طرح تعاون کیا جاتا ہے اور دوسری قوموں کو مذہب و ضمیر کی کتنی فراخ دلانہ آزادی دی جاتی ہے۔

4۔ فراخ دلی اور رواداری کے ساتھ اس معاہدے میں یہ حقیقت بھی مستور ہے کہ دین جبر سے نہیں پھیلایا جاتا اور دوسرے انسانوں سے مذہب کی بنیاد پر اتنی نفرت و عصبیت نہ برتنی چاہئے کہ اعلیٰ اقدار میں تعاون نہ ہو سکے.

پاکستان وجود میں آیا تو یہاں کئی مذاہب کے پیروکار تھے۔ انہیں مذہب و ضمیر کی فراخدلانہ آزادی، رواداری اور نفرت و عصبیت سے پاک ماحول چاہئے تھا۔ جس وقت میثاقِ مدینہ وجود میں آیا، اسی سے ملتے جلتے حالات تھے۔ تو قائداعظمؒ نے ان سے عہدہ برآ ہونے کیلئے میثاقِ مدینہ پر اپنی تقریر استوار کی۔ یہ پہلا موقع نہ تھا۔ جب بھی کوئی اہم مرحلہ اور فیصلہ کن صورت حال پیدا ہوئی، تحقیق بتاتی ہے، قائداعظمؒنے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا۔

مثلاً:- تقسیمِ ہند کا جو پلان دیا گیا اس میں وہ پاکستان نہیں تھا جس کے لئے برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی قیادت میں سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ دینے والے کٹا پھٹا پاکستان دینے پر ہی مصر تھے۔ اس کے لئے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کے مطابق آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی منظوری ضروری تھی۔ بڑی لے دے ہوئی۔ جب قائداعظمؒ نے آخر میں اپنی تقریر میںصلح حدیبیہ کو نشانِ راہ قرار دیا تو کونسل نے اس کی منظوری دے دی۔ پاکستان وجود میں آگیا تو قائداعظمؒ نے بانی پاکستان، فادر آف دی نیشن اور پاکستان دستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے 11 اگست 1947ء کو جو میگنا کارٹا دیا وہ تاریخی میثاقِ مدینہ کا پر تو ہے۔

یہ اسی سوچ، رویے اور پروگرام کا نتیجہ تھا کہ قیامِ پاکستان کے موقع پر جب سرکاری ملازمین سے پاکستان یا بھارت میں خدمات انجام دینے کا آپشن مانگا گیا تو کئی مسیحی افسران نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح دی۔ ان میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس اے آر کارنیلئس بھی تھے:بہ قول ان کے:

’’میں ملازم تھا برٹش گورنمنٹ کا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان کو آپٹ کریں گے یاانڈیا کو۔ میرا سارا خاندان رہنے والا تھا شملہ کا۔ مجھے سب نے کہا:آپ کے سارے رشتہ دار وہاں ہیں۔ آپ یہاں رہ کر کیا کریں گے۔ میں نے انہیں کہا:دیکھیں، جو ہسٹری ہے، صحیح ہسٹری اسلام کی یہ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔ مجھے بڑی امید ہے، اگر میں رہا پاکستان میں تومجھے کسی نے بھی ٹچ نہیں کرنا۔ میرا جو حق ہے وہ مجھے ملے گا۔ میں نے (فارم) بھر دیا کہ I opt for Pakistan۔ اور دیکھو، قدرت کا نظام، میں اسی ملک میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان بنا۔ میرا decision(فیصلہ) جو تھا، صحیح تھا۔‘‘(حوالہ:دی گریٹ لیڈر۔ جلد سوم)۔

قائداعظمؒ نے اپنے ایک قریبی ساتھی، جن کا تفصیلی انٹرویو قائداعظمؒ پر اردو میں لکھی میری کتاب’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کی تیسری جلد میں آرہا ہے، سے قیامِ پاکستان کے موقع پر کہا تھا:’’میں چاہتا ہوں کہ آپ احادیث،خاص طور پر میثاقِ مدینہ پڑھیں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ رسولِ پاکؐ نے جب مملکت مدینہ قائم کی تو مسائل کو کس طرح حل کیا‘‘۔
 

آصف اثر

معطل
قائداعظمؒ کی 11اگست 1947ء کی تقریر-میثاقِ مدینہ کا پَرتو
منیر احمد منیر بدھ 14 اگست 2019

قائداعظمؒ کی11 اگست 1947ء کی اس تقریر کے اس حصے کی طرف آئیں تو ہر چیز واضح ہو جاتی ہے۔ فوٹو : فائل

میثاقِ مدینہ اسلامی تاریخ کا ایک بڑا ہی اہم معاہدہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ کیا۔ مصری مورخ محمد حسنین ہیکل اپنی تالیف ’’حیاتِ محمدؐ ‘‘ میں لکھتے ہیں:-

’’یہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رُو سے جنابِ محمد (صلوٰت اللہ تعالیٰ علیہ) نے آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال قبل معاشرۂ انسانی میں ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور فرد کو اپنے اپنے عقیدہ میں آزادی کا حق حاصل ہوا۔ انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی۔ اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی…..‘‘ (اردو ترجمہ: ابویحییٰ امام خاں۔ بار سوم 1987ء۔ صفحہ:270 – پبلشر:ادارہ ثقافتِ اسلامیہ 2 کلب روڈ لاہور)۔

پاکستان میں ہر شخص کو اپنے اپنے عقیدہ میں حقِ آزادی، انسانی زندگی کی حرمت اور اموال وغیرہ کے تحفظ کی ضمانت قائداعظمؒ نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان دستور ساز اسمبلی میں واشگاف الفاظ میں دے دی تھی۔ اور ان کی یہ تقریر میثاقِ مدینہ پر ہی استوار ہے۔ مثلاً اس عالی شان میثاق کی مختلف شقوں میں درج ہے۔ شق نمبر 15:تمام مسلمان اس معاہدے پر متفق ہیں اور وہ اس میں سے کسی دفعہ کا انکار نہیں کر سکتے۔ جس مسلمان نے اس معاہدے کا اقرار کرلیا، وہ خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے۔

18۔ اگر مسلمان جہاد میں اپنا مال خرچ کریں تو یہود کو بھی ان کے ساتھ اپنا مال خرچ کرنا ہو گا۔

19۔ قبیلہ بنی عوف کے یہود بھی اس معاہدے میں شامل ہیں۔ اگرچہ مسلمان اور یہودی ہر ایک اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا مستحق ہو گا، لیکن مشترکہ مقاصد میں دونوں ایک جماعت کے حکم میں داخل ہوں گے۔

32۔ اگر مدینہ پر کوئی قوم حملہ کرے تو دشمن کی مدافعت میں سب کو مل کر حصہ لینا ہو گا۔

میثاق مدینہ کی ان شقوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے قائداعظمؒ کی11 اگست 1947ء کی اس تقریر کے اس حصے کی طرف آئیں تو ہر چیز واضح ہو جاتی ہے:’’…..تم میں سے ہر ایک چاہے تمہارا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو، چاہے تمہارا رنگ، ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو، اول بھی اس ریاست کا باشندہ ہو گا، دوئم بھی اور آخر میں بھی۔ تمہارے حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں برابر ہوں گی…..حکومت پاکستان میں آپ کو اپنے مندروں اور پرستش گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ آپ کسی بھی مذہب کے مقلد ہوں یا آپ کی ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو، اس سے پاکستان کی حکومت کو کوئی تعلق نہیں…..ہم اس بنیادی اصول کے ماتحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں(پُرجوش تالیاں)۔ ہمیں اس اصول کو اپنا مطمح نظر بنا لینا چاہئے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ ان کے مذہب مٹ جائیں گے، کیونکہ مذہب کو ماننا ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے۔ میرا مطلب سیاسی تمیز سے ہے کہ وہ سب ایک قوم کے افراد ہو جائیں گے‘‘۔

یہی میثاقِ مدینہ کہتا ہے’’…..اگرچہ مسلمان اور یہودی ہر ایک اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا مستحق ہو گا، لیکن مشترکہ مقاصدمیں دونوں ایک جماعت کے حکم میں داخل ہوں گے‘‘۔ اور یہ بھی کہ’’اگر مدینہ پر کوئی قوم حملہ کرے تو دشمن کی مدافعت میں سب کو مل کر حصہ لینا ہوگا‘‘۔

میثاقِ مدینہ کے متعلق مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی اپنی تالیف ’’پیغمبر ِ انسانیتؐ ‘‘ میں لکھتے ہیں:-

’’یہ بڑا اہم واقعہ اس لئے ہے کہ:

1۔ ایک اسلامی ریاست کی بنیاد پڑنے کی نشان دہی اسی معاہدے سے ہوتی ہے۔

2۔ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو بین الاقوامی معاہدوں کی اساس ہے۔

3۔ اس معاہدے میں بڑی اعلیٰ اقدار ہیں…..دنیا کو پہلی بار درس ملا کہ احترامِ انسانیت کی بنیاد اور اعلیٰ مقاصد کو بروئے کار لانے میں کس طرح تعاون کیا جاتا ہے اور دوسری قوموں کو مذہب و ضمیر کی کتنی فراخ دلانہ آزادی دی جاتی ہے۔

4۔ فراخ دلی اور رواداری کے ساتھ اس معاہدے میں یہ حقیقت بھی مستور ہے کہ دین جبر سے نہیں پھیلایا جاتا اور دوسرے انسانوں سے مذہب کی بنیاد پر اتنی نفرت و عصبیت نہ برتنی چاہئے کہ اعلیٰ اقدار میں تعاون نہ ہو سکے.

پاکستان وجود میں آیا تو یہاں کئی مذاہب کے پیروکار تھے۔ انہیں مذہب و ضمیر کی فراخدلانہ آزادی، رواداری اور نفرت و عصبیت سے پاک ماحول چاہئے تھا۔ جس وقت میثاقِ مدینہ وجود میں آیا، اسی سے ملتے جلتے حالات تھے۔ تو قائداعظمؒ نے ان سے عہدہ برآ ہونے کیلئے میثاقِ مدینہ پر اپنی تقریر استوار کی۔ یہ پہلا موقع نہ تھا۔ جب بھی کوئی اہم مرحلہ اور فیصلہ کن صورت حال پیدا ہوئی، تحقیق بتاتی ہے، قائداعظمؒنے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا۔

مثلاً:- تقسیمِ ہند کا جو پلان دیا گیا اس میں وہ پاکستان نہیں تھا جس کے لئے برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی قیادت میں سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ دینے والے کٹا پھٹا پاکستان دینے پر ہی مصر تھے۔ اس کے لئے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کے مطابق آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی منظوری ضروری تھی۔ بڑی لے دے ہوئی۔ جب قائداعظمؒ نے آخر میں اپنی تقریر میںصلح حدیبیہ کو نشانِ راہ قرار دیا تو کونسل نے اس کی منظوری دے دی۔ پاکستان وجود میں آگیا تو قائداعظمؒ نے بانی پاکستان، فادر آف دی نیشن اور پاکستان دستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے 11 اگست 1947ء کو جو میگنا کارٹا دیا وہ تاریخی میثاقِ مدینہ کا پر تو ہے۔

یہ اسی سوچ، رویے اور پروگرام کا نتیجہ تھا کہ قیامِ پاکستان کے موقع پر جب سرکاری ملازمین سے پاکستان یا بھارت میں خدمات انجام دینے کا آپشن مانگا گیا تو کئی مسیحی افسران نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح دی۔ ان میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس اے آر کارنیلئس بھی تھے:بہ قول ان کے:

’’میں ملازم تھا برٹش گورنمنٹ کا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان کو آپٹ کریں گے یاانڈیا کو۔ میرا سارا خاندان رہنے والا تھا شملہ کا۔ مجھے سب نے کہا:آپ کے سارے رشتہ دار وہاں ہیں۔ آپ یہاں رہ کر کیا کریں گے۔ میں نے انہیں کہا:دیکھیں، جو ہسٹری ہے، صحیح ہسٹری اسلام کی یہ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔ مجھے بڑی امید ہے، اگر میں رہا پاکستان میں تومجھے کسی نے بھی ٹچ نہیں کرنا۔ میرا جو حق ہے وہ مجھے ملے گا۔ میں نے (فارم) بھر دیا کہ I opt for Pakistan۔ اور دیکھو، قدرت کا نظام، میں اسی ملک میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان بنا۔ میرا decision(فیصلہ) جو تھا، صحیح تھا۔‘‘(حوالہ:دی گریٹ لیڈر۔ جلد سوم)۔

قائداعظمؒ نے اپنے ایک قریبی ساتھی، جن کا تفصیلی انٹرویو قائداعظمؒ پر اردو میں لکھی میری کتاب’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کی تیسری جلد میں آرہا ہے، سے قیامِ پاکستان کے موقع پر کہا تھا:’’میں چاہتا ہوں کہ آپ احادیث،خاص طور پر میثاقِ مدینہ پڑھیں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ رسولِ پاکؐ نے جب مملکت مدینہ قائم کی تو مسائل کو کس طرح حل کیا‘‘۔
جب ”یہودیوں“ نے میثاقِ مدینہ سے غداری کی تھی پھر کیا ہوا تھا؟
 

جاسم محمد

محفلین
جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر
16/08/2019 ڈاکٹر توصیف احمد خان

’’آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے۔آپ کو اپنی مسجدوں میں جانے کی آزادی ہے۔ پاکستان کی اس ریاست میں اب کسی بھی دوسری عبادت گاہ میں جا سکتے ہیں۔آپ کا تعلق کسی مذہب ، ذات یا عقیدے سے ہو امور مملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم ایسے دورکا آغاز کر رہے ہیں جس میں کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔مختلف قوموں اور برادریوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا۔ ہم سب ایک ہی ریاست کے شہری ہیں۔ برابرکے شہری ہیں اور اب میرا خیال ہے کہ آپ کو یہ بات آدرش کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنی چاہیے اور آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصہ بعد ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں اس ریاست کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘

11 اگست 1947 کو کراچی میں آئین ساز اسمبلی کے اجلاس کے دوسرے دن پاکستان کے بانی اور مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح نے اپنی پالیسی تقریر میں ایک مکمل جمہوری ریاست کے آئین کے خدوخال واضح کردیے۔ محمد علی جناح کی یہ تقریر جمہوری نظام کے دنیا میں ارتقاء کے تناظر میں تھی۔ جناح جمہوریت پر یقین رکھتے تھے۔انھوں نے ساری زندگی جمہوری جدوجہد میں وقف کی اور نئے ملک کے آئین کے لیے ایک سیکیولر اور جمہوری آئین کا نظریہ پیش کیا۔

اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ پہلی آئین ساز اسمبلی ملک کا آئین بنانے میں ناکام رہی۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ملک کے بانی محمدعلی جناح کے وژن سے انحراف کرتے ہوئے قرارداد مقاصد اسمبلی سے منظورکرائی، یوں ریاست کا تشخص خراب ہوا۔ پھر 1956 میں پہلا آئین بنا۔ پاکستان برطانوی نوآبادی سے آئینی طور پر علیحدہ ہوا مگر 1958 میں فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے ماشل لاء نافذ کیا اور 1956کے آئین کو منسوخ کیا۔ ایک ایسا آئین نافذکیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ لائل پور کے گھنٹہ گھر کی طرح تمام راستے صدر ریاست کے گرد گھومتے ہیں۔

جنرل ایوب خان کے دور میں صرف کراچی اور لاہور میں ترقی ہوئی، مشرقی پاکستان پسماندہ رہا۔ مشرقی پاکستان کے رہنماؤں نے کہنا شروع کیا کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ 1968 میں عوامی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان رخصت ہوئے اور جنرل یحییٰ خان اقتدار میں آگئے، عام انتخابات ہوئے۔ جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اور مخالف رہنماؤں غوث بخش بزنجو، خان ولی خان، مفتی محمود، پروفیسر غفور، مولانا شاہ احمد نورانی اور شیر باز خان مزاری کی کوششوں سے 1973کا آئین تیار ہوا۔ اس آئین نے وفاق کو مضبوط کیا مگر جنرل ضیاء الحق نے 10 سال اور جنرل پرویز مشرف نے 4 سال تک مکمل طور پر آئین کو معطل رکھا جس سے کئی آئینی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ سندھ اور پھر بلوچستان میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں 6 مرتبہ فوجی آپریشن ہوا۔

ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے سربراہوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ اس میثاق کے تحت 2010 میں آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی۔ صوبوں کو وہ حقوق حاصل ہوگئے جس کا ذکر 23 مارچ 1940 کی قرارداد میں کیا گیا تھا مگر جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی کی بناء پر مذہبی انتہاپسندی نے شدت اختیار کی اور یہ دہشت گردی میں تبدیل ہوگئی۔ کابل میں لڑی جانے والی لڑائی پشاور اور کوئٹہ سے ہوتی ہوئی کراچی تک پہنچ گئی۔ دہشت گردی کی اس لڑائی میں اقلیتی فرقوں کے ماننے والوں کا قتل ہوا۔ دہشت گردوں نے خودکش حملوں کا ہتھیار استعمال کیا ۔قبائلی علاقوں میں خودکش حملہ آور بنانے کی فیکٹریاں قائم ہوئیں۔

سوات تباہ ہوا،کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری کی نسل کشی ہوئی۔ مسلح افواج اور پولیس کے ہزاروں جوان اور افسران دہشت گردوں کے خاتمے کے آپریشن کو کامیاب بناتے ہوئے شہید ہوئے۔ 18ویں ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کو جو حقوق ملے تھے، مقتدر حلقوں کو یہ صورتحال قبول نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ صوبوں کے حقوق کے خلاف ایک منظم جدوجہد شروع ہوئی۔ چھوٹے صوبوں کے نمایندوں کی مزاحمت کی بناء پر مقتدر قوتیں اپنے مقاصد کو پورا نہیں کرسکیں مگر 18 ویں ترمیم کا خاتمہ ایک چیلنج کی صورت میں موجود ہے۔

کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں نیشنل کانگریس کے رہنما شیخ عبداﷲ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے ڈوگر راج کے خاتمے کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ شیخ عبداﷲ کشمیر کی مکمل آزادی کے خواہاں تھے مگر مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں بھارت نے وادئ کشمیر ، جموں اور لداخ پر قبضہ کرلیا۔

جدید بھارت کے بانی پنڈت جواہر لعل نہرو اور شیخ عبداﷲ کے درمیان معاہدہ ہوا، جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے شق 370 کی منظوری دی۔ اس شق کو بھارت کے آئین کا حصہ بنایا گیا، اس شق کے تحت کشمیرکو خصوصی حیثیت دی گئی۔کشمیر سے باہر سے آنے والے افراد کے ووٹ ڈالنے اور جائیداد خریدنے کے حق پر پابندی لگادی گئی۔کشمیر میں ملازمتوں کو صرف کشمیریوں کے لیے وقف کیا گیا۔اس طرح پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں میں کشمیری طالب علموں کے لیے نشستیں مختص کردی گئیں۔

نئی دہلی کی حکومت ضروری اشیاء کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے زر تلافی ادا کرنے کی پابند قرار پائی ۔ اس شق کے تحت اگر کشمیری فرد کسی غیر کشمیری لڑکی سے شادی کرلے تو یہ لڑکی پھر بھی کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتی۔ اس شق سے کشمیریوں کو اس کے معاشی اور سیاسی معاملات میں مکمل تحفظ حاصل ہوا۔ نئی دہلی میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ غیر کشمیریوں کو کشمیر میں جائیداد خریدنے کا حق مل جائے مگر کشمیری عوام کے احتجاج پر یہ کوشش ناکام ہوگئی۔

اس صدی کے آغاز سے وادئ کشمیر میں شدید بے چینی ہے۔ نوجوان کشمیر کی آزادی کے لیے جانیں دے رہے ہیں۔ بھارت کے ہزاروں فوجی کشمیر میں تعینات ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہندو توا کے نعرے پر برسر اقتدار آئی ہے۔ ہندو توا کا مطلب ہندو مت کا راج قائم کرنا ہے۔ یہ صورتحال مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو دوسرے درجے کا شہری بناتی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس مذہبی انتہا پسندی کی پالیسی کے خلاف کانگریس، کمیونسٹ پارٹیاں اور سول سوسائٹی زبردست مزاحمت کررہی ہیں۔ وزیر اعظم مودی حکومت نے بھارت کے آئین کی شق 370 کو منسوخ کرکے بھارتی ریاست کے سیکیولرکردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی دانشور اور سوشل ایکٹوسٹ ارون دتی رائے نے ہمیشہ کشمیر میں بھارتی فوجی آپریشن کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ ارون دتی رائے کے خیالات کی بناء پر وہ ہمیشہ معتوب قرار پائے۔ اس کے خلاف ایک عدالت نے ایف آئی آر درج کرانے کا حکم دیا ہے۔

ارون دتی رائے کا کہنا ہے کہ یہ ایف آئی آر ان کے علاوہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کے خلاف درج کی جائے جن کے وژن کی بناء پر کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت حاصل ہوئی۔کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی سے مذہبی انتہاپسندی کو تقویت ملے گی اور بھارت کے وفاق کو نقصان پہنچے گا۔

14 اور 15 اگست 1947 کو آزاد ہونے والے دونوں ممالک آج مذہبی انتہاپسندی اور وفاقی کے بحران کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے جدوجہد کریں تو یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اس بحران کا حل محمد علی جناح کی 11 اگست 1947کی تقریر پر عملدرآمد میں ہی مضمر ہے۔

بشکریہ: ایکسپریس
 
Top