بہزاد لکھنوی گھِر گھِر آئے بادر کارے - برسے آکر اُن کے دُوارے - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
گھِر گھِر آئے بادر کارے - برسے آکر اُن کے دُوارے
بارد نے آنسو برسائے
بھید محبت کے سمجھائے
ان سے کئے خاموش اشارے
گھِر گھِر آئے بادر کارے

پانی کی ہر بوند اک دل تھی
ان کے جلوؤں کی محفل تھی
ان تک آئے اُن کے مارے
گھِر گھِر آئے بادر کارے

بادل گرجا بجلی چمکی
بن گئی صورت اس جیون کی
جو جیتا ہے اُن کے سہارے
گھِر گھِر آئے بادر کارے

آنکھوں میں بھی بادل آیا
ساتھ میں لاکھوں آنسو لایا
برسیں گے اب پریم کے دھارے
گھِر گھِر آئے بادر کارے

ہم بھی اے بہزادِ مضطر
دیکھ کے روئے کارے بادر
عاجز ہیں ہم دل کے مارے
گھِر گھِر آئے بادر کارے
 
Top