گِدھ: ڈکلوفینک کا خطرہ برقرار

تحریر: احمد رضا شیخ
ماحول دوست پرندے گدھ کی پاکستان میں نسل کشی کا مبینہ طور پر سبب بننے والی دوا حکومتی پابندی کے باوجود عام دستیاب ہے۔
مویشیوں میں جوڑوں کے درد کو کم کرنے کے لیے ایک دوا ’ڈکلوفینک‘ کا عام استعمال کیا جاتا ہے۔ قدرتی ماحول اور پرندوں کی ناپید ہوتی ہوئی نسلوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بعض ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے تحقیق کے بعد ڈکلوفینک کو پاکستان، بھارت اور نیپال میں گِدھوں کی تعداد میں تشویشناک کمی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مویشیوں میں اس کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔
اس تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے پہلے نیپال اور بھارت اور پھر پاکستان نے گزشتہ سال ستمبر میں جانوروں میں ڈکلوفینک کے استعمال پر پابندی لگا دی تھی۔
گِدھوں کی آبادی میں غیر معمولی کمی کا نوٹس لیتے ہوئے پرندوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے سائنسدانوں نے مردہ گِدھوں کے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد نتیجہ نکالا تھا کہ ان میں سے اکثریت کی اموات گردے ناکارہ ہونے سے ہوئی تھی۔
جن گِدھوں کی اموات گردے ناکارہ ہونے سے واقع ہوئی تھی ان میں ڈکلوفینک کے اثرات پائے گئے تھے۔ مزید تحقیق پر یہ بات سامنے آئی کہ ان گِدھوں نے ایسے مردار جانوروں کا گوشت کھایا تھا جن کا مرنے سے پہلے ڈکلوفینک کے ذریعے علاج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
جانوروں کے استعمال کے برانڈ پر پابندی لگنے کے بعد پاکستان میں انسانی استعمال کے لیے تیار کی گئی ڈکلوفینک اب جانوروں میں بھی استعمال کی جا رہی ہے۔
کراچی میں جانوروں کی ادویات کے ایک تھوک فروش عبدالرحیم اسماعیل نے بتایا کہ جانوروں والی ڈکلوفینک پر پابندی کے بعد مویشی مالکان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے لیے تیار ہونے والی ڈکلوفینک
t.gif

انسانوں کی دوا جانوروں میں استعمال
800_right_quote.gif
جانوروں کے استعمال کے برانڈ پر پابندی لگنے کے بعد پاکستان میں انسانی استعمال کے لیے تیار کی گئی ڈکلوفینک اب جانوروں میں بھی استعمال کی جا رہی ہے
800_left_quote.gif


خریدیں کیونکہ ایک تو اس دوا کا مارکیٹ میں کوئی متبادل نہیں ہے دوسرا ویٹرنری ڈاکٹرز اب بھی یہ دوا تجویز کر رہے ہیں۔
پاکستان کیمسٹس اینڈ ڈرگسٹس ایسوسی ایشن کراچی کے رہنما اقبال سومرو کہتے ہیں کہ انسانی استعمال کے لیے تیار ہونے والی ڈکلوفینک کے جانوروں میں استعمال کو روکنا حکومت کا کام ہے۔ ان کا کہنا تھا ’اس میں بے چارہ کیمسٹ کیا کرسکتا ہے، ہمارا تو کام یہ ہے کہ جو چیز رجسٹرڈ ہے وہ بیچیں گے جب پریکٹیشنرز (ڈاکٹر) انسانوں والی دوا جانوروں کو لگا رہے ہیں تو اس کی روک تھام کا کوئی تو طریقہ ہونا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ ویٹرنری ڈکلوفینک کا مارکیٹ میں کوئی متبادل ہے، البتہ عالمی ادارہِ صحت نے ایک سالٹ کو اس کے متبادل کے طور پر متعارف کرانے کی سفارش کی تھی جو کہ ڈھائی گنا مہنگا تھا اور دوا ساز کمپنیاں اسی بناء پر اسکی پیداوار پر آمادہ نہیں ہوئیں۔
سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے شعبہ ویٹرنری کے ایک پروفیسر اور جانوروں کے ڈاکٹر محمد عرس سموں ویٹرنری ڈکلوفینک پر سرکاری پابندی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسی کسی پابندی کے بارے میں نہیں سنا اور اب بھی ویٹرنری ڈاکٹر یہ دوا بیمار جانوروں کے لیے تجویز کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سموں نے یہ بھی کہا کہ کاشتکار ازخود بھی یہ دوا بہت زیادہ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ یہ بیمار جانوروں کے علاج میں بڑی مفید ثابت ہوتی ہے‘۔
وزارت صحت حکومت پاکستان کی فیڈرل ڈرگ کنٹرولر ڈاکٹر فرناز ملک کہتی ہیں کہ اس دوا کے استعمال کو روکنے کے لیے حکومت نے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ویٹرنری ڈکلوفینک پر پابندی کی انہوں نے اخبارات کے ذریعے تشہیر کی اور تمام وفاقی و صوبائی حکام کے علاوہ ویٹرنری پریکٹیشنرز کی تنظیموں کو بھی لکھا ہے۔
t.gif

20070409124927vultures.jpg

تیزی سے ختم ہوتے گِدھوں کو بچانے کے لیے لوگوں میں گِدھوں کی اہمیت کا شعور اجاگر کرنا ضروری ہے
ان کا کہنا ہے کہ انسانی استعمال والے برانڈز پر وہ پابندی عائد نہیں کرسکتے کیونکہ دنیا میں کہیں بھی اس پر پابندی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جانوروں میں اس کے استعمال کے روک تھام کے لیے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینی پڑے گی۔
فرناز ملک نے کہا کہ انہوں نے ڈرگ انسپکٹرز کو اس دوا کی فروخت کی نگرانی کرنے کا بھی حکم دے رکھا ہے۔
جنگلی حیات کے ماہر ڈاکٹر نجم خورشید کہتے ہیں کہ جب تک اس دوا کے مویشیوں میں استعمال کو نہیں روکا جاتا یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ گدھوں کی باقی ماندہ نسلیں محفوظ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تیزی سے ختم ہوتے گدھوں کو بچانے کے لیے ملک کے دیہی اور دور دراز علاقوں میں لوگوں میں اس دوا کے نقصانات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ
بی بی سی
 

عسکری

معطل
یہ لعنتی پرندے ہیں مجھے ان سے نفرت ہے اونچا اڑنے والے یہ پرندے ہمارے جہازوں کے دشمن ہیں ہر سال کوئی نا کوئی چاند چڑھاتے ہیں یہ :cautious:10 سال میں آدھا سکواڈرن کھا گئے ہین جن میں سے ایک ایف سولہ بھی تھا :angry:
 
انکل جییی ییی ییی ییی ییی ییی ییی ییی ییی ییی ییی یی کیا میں کبھی ایسا کرتا ہوں کسی کے ساتھ مجھے نہیں پتا اس لیے پوچھا تھا :( تو چیلیں کیوں نہیں مرتی وہ بھی تو وہی کھاتی ہوں گے
چیلیں مردار نہیں کھاتیں
اور گدھ کی کوراک ہی مردار جانور ہیں
 

سید ذیشان

محفلین
گدھ اور دیگر پرندے زمین پر لاکھوں سالوں سے رہ رہے ہیں۔ اگر کسی کو دوسرے کو جگہ دینی چائیے تو وہ جہاز ہیں نا کہ گدھ۔ ذرا سوچیئے!
 
Top