فاخر
محفلین

گوگل’’ عمر خیام‘‘ کو یاد کرر ہا ہے
عمرخیام کی پیدائش جیسا کہ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے:کہ ان کی پیدائش 408 ھ یا 410 ھ میں ہوئی ۔ ایک اندازے کے مطابق اس نے 526ھ میں وفات پائی‘‘۔ یہ بھی عمر خیام کے مناقب میں شمار ہوتے ہیں کہ وہ (عمر خیام ) علم ہیئت ، ریاضی ، نجوم ، فلسفہ میں بھی کافی دسترس کا حامل تھا،حتیٰ کہ موسیقی میں بھی اس نے فن کا جادو کا بکھیرا ہے ۔ محمد علی فروضی ’’:رباعیات عمر خیام ‘‘، مطبوعہ ایران کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ : ’’ از تاریخ ولادت عمر خیام ہیچ نمی دانم ، جز ایں کہ در یکے از سالہائے نیمۂ اول سدۂ پنجم ہجری و اقع شدہ است ۔ سال وفات او ہم بہ درستی معلوم نیست و لیکن می دانیم کہ از پانصد و بیست ہجری چندان دور نبودہ است۔ ‘‘ اب مجھے یہ نہیں علم کہ گوگل نے عمر خیام کی درست تاریخ پیدائش کہاں سے ڈھونڈنکالی۔ ممکن ہے کہ اس کے پاس وسیع وسائل ہیں ، لیکن ’’رباعیات عمر خیام کا پیش لفظ لکھنے والا مقدمہ نگار اپنی لاعلمی کا اظہار کرتا ہے‘ ۔محمدعلی فروضی اپنے اسی مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ :’رباعیات خیام از دیر گاہی مرغوب و پسندیدہ آمدہ ،و حکیم نیشاپور سرآمد رباعی سرایان شناختہ بود۔ و گاہے می گفتند چناں کہ فردوسی رزم سازی ، و سعدیؔ در غزل سرائی‘‘۔ علاوہ ازیں رباعیات عمرخیام کے اردو زبان میں بھی ترجمے ہوئے ۔ شوکت ؔ بلگرامی، آغاشاعر قزلباش دہلوی، میراجی ؔ اور شاکر القادری نے بھی کیا ہے ۔ شائقین اس کی طرف مراجعت کرسکتے ہیں ۔ عمرخیام کے مکمل حالات اس لنک پر جا کر پڑھ سکتے ہیں ۔
عمر خیام | ریختہ
اپنی طبیعت کے موافق دو چاررباعی آغا شاعر کی ترجمہ والی رباعی کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ کئی اور لوگوں نے بھی ترجمہ کیا ہے ،جن میں شوکت ؔ بلگرامی ، شاکر القادری، میراجی ؔ وغیرہ کے تراجم مشہور و معروف ہیں۔ علاوہ ازیں اسی فورم میں شاکر القادری کی رباعی ترجمہ بھی پیش کی گئی ہے۔
رباعی عمرخیام:
’’ساقی قدحے کہ ہست عالم ظلمات
جز روئے تو نیست درجہاں آب حیات
از جان و جہاں وہرچہ در عالم ہست
مقصود توئی و بر محمدﷺ صلوات ‘‘
’’ساقی قدحے کہ ہست عالم ظلمات
جز روئے تو نیست درجہاں آب حیات
از جان و جہاں وہرچہ در عالم ہست
مقصود توئی و بر محمدﷺ صلوات ‘‘
اردو ترجمہ : رباعی آغاؔ شاعرقزلباش ( خم کدۂ خیام )
لا ساقیا! ساغر ! یہ جہاں ہے ظلمات
جز چہرۂ پرنور ، کہاں آب ِ حیات
یہ جان وجہاں اور جہاں کا سب کچھ
مقصود تو ہی ہے ، بر محمد ﷺ صلوات
لا ساقیا! ساغر ! یہ جہاں ہے ظلمات
جز چہرۂ پرنور ، کہاں آب ِ حیات
یہ جان وجہاں اور جہاں کا سب کچھ
مقصود تو ہی ہے ، بر محمد ﷺ صلوات
رباعی عمر خیام:
من در رمضان روزہ اگر می خوردم
تا ظن نہ بری کہ بے خبر می خوردم
از محنت روزہ ، روزش من چوں شب بود
پنداشتہ بودم کہ سحر می خوردم
من در رمضان روزہ اگر می خوردم
تا ظن نہ بری کہ بے خبر می خوردم
از محنت روزہ ، روزش من چوں شب بود
پنداشتہ بودم کہ سحر می خوردم
ترجمہ : آغا شاعر قزلباش ( خم کدۂ خیام )
رمضان میں جو میں نے غذاکی بھائی
ہرگز نہ سمجھنایہ کہ غفلت چھائی
تکلیف سے روزے کی ، یہ دن تھا تاریک
میں سمجھا کہ شب ہے ، میں نے سحری کھائی!
تاہم اصل اصل ہے تراجم میں وہ کیف نہیں،جو کیف عمر خیام کی رباعی میں ہے۔رمضان میں جو میں نے غذاکی بھائی
ہرگز نہ سمجھنایہ کہ غفلت چھائی
تکلیف سے روزے کی ، یہ دن تھا تاریک
میں سمجھا کہ شب ہے ، میں نے سحری کھائی!
٭٭٭
مدیر کی آخری تدوین: