گومگو کی کیفیت - جمیل خان

dilemma-670.jpg

عام لوگوں کا حق غصب کرکے جمع کی جانے والی دولت میں سے اپنا ’بہتّہ‘ نذرانوں، ہدیوں، چندوں اور امداد کے نام پر وصول کرنے والی مذہبی و سیاسی اشرافیہ کے بیشتر افراد اپنے اور اپنی اولادوں کے لیے تو ایسی لگژری لائف حاصل کرلیتے ہیں، ہمارے معاشرے کا متمول ترین فرد بھی جس کا تصور نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد نہایت سکون اور اطمینان قلب کے ساتھ ظلم ، ناانصافی، حق تلفی، فکری و معاشی استحصال کی چکی کے ان گنت پاٹوں کے درمیان دن رات پسنے والے عام لوگوں کو گمراہ، گنہگار اور جہنمی تک کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
السٹریشن — جمیل خان


جس طرح کسی بھی انسان کا اپنے وطن، مذہب ، قوم اور رنگ ونسل سے ایک گہرا جذباتی تعلق ہوتا ہے بالکل اسی طرح میرا بھی اپنے وطن، مذہب، قوم اورکلچر کے ساتھ گہرا جذباتی تعلق قائم ہے۔
آپ سب کی طرح میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں اپنی قوم ، اپنے مذہب اور اپنے وطن پر ناصرف فخر کروں بلکہ اس فخر کا بھرپور طریقے سے اظہار بھی کرسکوں۔​
میرا خیال ہے کہ شاید انسان کا یہ ایک جبلی تقاضہ بھی ہے۔​
جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی دیکھتا آیا ہوں کہ علم و دانش پر اجارہ داری کا دعویٰ کرنے والے طبقے کے لوگ مختلف زاویوں سے یہی سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ فخر کرنے کے لیے ہمارا ماضی ہی بہت ہے۔​
چنانچہ ایک عرصے تک میں بھی اسی روش پر ہی چلتا رہا، لیکن جب مطالعہ نصابی اور اس طرز کی کتب کے دائرے سے آگے بڑھا تو حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔​
عقل و شعور سر بہ گریباں ہوگئے۔​
ذہن مفلوج ہوگیا۔​
آسمانوں کی وسعتوں میں سر اٹھائے ہوئے درجنوں بت دیکھتے ہی دیکھتے زمیں بوس ہوگئے۔​
ذہن سوالات کی گتھیوں میں الجھتا چلا گیا ۔​
سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ ہمارے اسلاف میں شامل ان لوگوں نے جن کی پرستش کی حد تک تقلید کی جاتی ہے، ہمارے لیے کوئی ایسی چیز بھی ورثے میں چھوڑی ہے، جو اس جدید ترقی یافتہ دورمیں فخر کے قابل سمجھی جاسکے اور اگر یہ ’لوگ‘ واقعی ایسے ہی تھے جیسا کہ مشرکانہ انداز کے قصیدہ نما تذکروں میں ان کی شخصیت کا نقشہ کھینچا جاتا ہے۔​
یا دوسرے الفاظ میں اگر اسلاف پرستوں کے کہے کو سچ مان لیا جائے اور ان کی تقلید میں یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ہمارے اکابر علمائے دین کے تبحر علمی کا یہ عالم تھا کہ ان کے قد و کاٹھ جیسا نہ پہلے کوئی تھا، نہ آئندہ کوئی پیدا ہوسکے گا اور ہمارے روحانی بزرگوں کاتو یہ درجہ تھا کہ کائنات ان کی مٹھی میں تھی اور مشیّت ایزدی گویا ان کے اشارے کی منتظر رہتی تھی، تو پھر ایسا کیوں ہے کہ آج ہم زندگی کے ہر معاملے میں غیر مسلموں کے محتاج ہیں؟​
ہماری حیثیت یہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کے دسترخوانوں پر بچ جانے والے ٹکڑوں سے ہم اپنی معاشی، علمی اور شعوری تشنگی دور کرنے کا سامان کرتے ہیں۔​
سوئی اور Nail Cutter سے لے کر دیو ہیکل مشینوں اور ہیوی انڈسٹریز انہی غیر مسلم اقوام سے حاصل کرنے پر مجبور ہیں جن کی سازشوں اور چیرہ دستیوں کا ہم دن رات رونا بھی روتے رہتے ہیں۔​
ہر نماز جمعہ کے بعد مانگی جانے والی طویل بے روح دعاؤں میں ہم انہی غیر مسلم اقوام کی تباہی کی فریادیں کرتے ہیں جو ہمارے ہاں وبائی امراض کے خاتمے کے لیے مفت ویکسین فراہم کرتی ہیں۔​
یہ اور ایسے دیگر سوالات کے جواب کے لیے میں نے ہر اس مرکز کے دروازے پر دستک دی جس کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ اس مرکز کے تحت اُمّت مسلمہ کی اجتماعی فلاح کا کام کیا جاتا ہے۔​
مختلف گروہوں نے میرے سوالات کے جوابات گو کہ لفظی اعتبار سے مختلف انداز میں دیے، لیکن گہرے تفکر کے ساتھ مفہوم پر غور کیا تو سب کا جواب ایک ہی محسوس ہوا ۔​
مذہبی علماء کا کہنا تھا کہ لوگ شریعت سے دور ہوگئے ہیں، فسق وفجور میں مبتلا ہیں۔​
مشائخ طریقت کی اکثریت نے یہ جواب دیا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد عرفان نفس سے غافل ہے، زبان و دل ذکر الٰہی سے محروم ہیں۔​
سیاسی راہنماؤں کی سوچ یہ تھی کہ ہم نے تو بہت جدوجہد کی لیکن لوگ بدلنا ہی نہیں چاہتے، ان کے خیال میں اگر لوگوں کی بڑی تعداد ان کا ساتھ دے تو وہ ملّت کی تقدیر بدل کر رکھ دیں ۔​
چندے مانگ مانگ کر خدمت خلق کا دعویٰ کرنے والوں نے شکایت کی کہ لوگ دولت پرست ہوگئے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں ، اگر لوگ ان کا ساتھ دیں تو وہ قوم کی تقدیر بدل ڈالیں ۔​
قارئین کرام!​
آپ نے نوٹ کیا، سب کی سوچ میں ایک نکتۂ مشترک موجود ہے، یعنی لوگ خراب ہیں ، گم کردہ راہ ہیں ، گناہ گار ہیں ، کافروں کی پیروی کررہے ہیں، بے عمل ہیں، جاہل ہیں، سست ہیں، کٹھن راہوں سے گزرنے کی ہمت نہیں، تعیش پسند ہیں، دنیا کے پیچھے اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔​
جبکہ حقیقت، یا درست الفاظ میں انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے عام لوگ انتہائی مجبور اور بے کس ہیں۔​
ویسے بھی عام لوگ کسی بھی معاشرے کے ہوں، ان کی مثال ہجوم کی سی ہوتی ہے کہ ہجوم میں چند افراد ایک جانب اچانک دوڑنا شروع کردیں تو اکثریت بے سوچے سمجھے ان کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ ہجوم میں کوئی فرد بوکھلا کر ’سانپ، سانپ‘ چیخنا شروع کردے تو بھگدڑ مچ جائے گی اور ممکن ہے بہت سے لوگ پیروں تلے کچلے جائیں کچلے جائیں۔​
ان مثالوں کا مقصد یہ واضح کرناہے کہ اقلیت ہی اکثریت کے لیے فکری و عملی راستے متعین کرتی ہے اور جب معاشرے کی اقلیت یعنی فکری اشرافیہ اپنے نفس کی تسکین کے لیے اپنے شوق یا اپنی ضد پوری کرنے میں مصروف ہو تو لامحالہ عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنی بساط اور اپنی استعداد کے مطابق انہی راستوں پر چل پڑتی ہے۔ عام لوگوں کا حق غصب کرکے جمع کی جانے والی دولت میں سے اپنا ’بہتّہ‘ نذرانوں، ہدیوں، چندوں اور امداد کے نام پر وصول کرنے والی مذہبی و سیاسی اشرافیہ کے بیشتر افراد اپنے اور اپنی اولادوں کے لیے تو ایسی لگژری لائف حاصل کرلیتے ہیں، ہمارے معاشرے کا متمول ترین فرد بھی جس کا تصور نہیں کرسکتا۔​
اس کے بعد نہایت سکون اور اطمینان قلب کے ساتھ ظلم ، ناانصافی، حق تلفی، فکری و معاشی استحصال کی چکی کے ان گنت پاٹوں کے درمیان دن رات پسنے والے عام لوگوں کو گمراہ، گنہگار اور جہنمی تک کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔​
بحر حال! ہم بات کررہے تھے انسان کے اس جبلی تقاضے کی جس کی بناء پر وہ مجبور ہے کہ اپنے مذہب ، قوم اور ثقافت پر فخر کرے، لیکن میرے لیے وہ انتہائی اذیت ناک لمحات تھے کہ میں ایک مسلمان بھائی، اے آر رحمان کو گولڈن گلوب ایوارڈ ملنے اور آسکر ایوارڈ میں تین الگ الگ شعبوں میں نامزدگیوں پر اظہار فخر و شکر نہیں کرسکا۔​
اس حوالے سے میں کھل کراپنے قلبی جذبات کا اظہار نہیں کرسکتا تھا۔​
اوّل یہ کہ، اے آر رحمان ہندوستان کے شہری ہیں، اور وہ ہمارا ’ازلی دشمن‘ ہے۔​
دوم پاکستان میں ’’مروجہ‘‘ اسلام کے تحت موسیقی حرام ہے۔​
میں اس ’اسلامی‘ ملک میں، میں یہ دلیل بھی نہیں پیش کرسکا کہ اللہ کے ایک نبی حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب ’زبور‘ دراصل الہامی گیتوں کا مجموعہ ہے، جسے حضرت دائود علیہ السلام سُر اور ساز کے ساتھ گایا کرتے تھے ۔​
اے آر رحمان نو مسلم ہیں، 1989ء میں ان کے پورے خاندان نے اسلام قبول کیا تھا، پہلے ان کا نام دلیپ کمار تھا، قبول اسلام کے بعد مسلم نام اللہ رکھا رحمان رکھا گیا۔​
اے آر رحمان کو ہمارے معاشرے کے مسلمانوں پر اس لحاظ سے برتری حاصل ہے کہ انہوں نے فکری اور ذہنی انقلاب کے بعد اسلام قبول کیا، جبکہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں۔​
کیا ہم اس قدر ظرف اور برداشت کے حامل ہیں کہ کوئی مسلمان فرد اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرلے پھر ہم اسے اتنی ترقی کرنے اجازت بھی دیں کہ وہ ملک و قوم کے لیے باعث فخر بن سکے۔ جیساکہ ہمارے کچھ لوگ ہندوؤں کو ’ہندو جنونی‘ کا لقب دیتے ہیں، ان کے ملک انڈیا میں اے آررحمان کو اجازت دی گئی ۔​
میرا خیال ہے کہ یہاں ترقی تو کیا ایسے کسی انتہائی اقدام کے بعد اسے چند لمحے جینے کی اجازت ملنا بھی مشکل ہے۔​
یاد نہیں، ہم نے واحد نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟​
ڈاکٹر عبدالسلام جن مذہبی نظریات پر یقین رکھتے تھے، ان نظریات سے مجھے بھی اختلاف ہے، لیکن کیا عقائد سے اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ انسانیت کا جامہ ہی اتار دیا جائے اور ’درندہ نما حیوانیت‘ کو کھلا چھوڑ دیا جائے؟​
لکھاری:جمیل خان​
 
Top