گوریلا جنگ شروع کالم زبیر احمد ظہیر

امکانات

محفلین
گوریلا جنگ کا آغاز


زبیرا حمد ظہیر



کیانواز شریف کا سیاسی مستقبل ختم ہو گیا ؟یہ وہ سوال ہے جو انکی نااہلی کے فیصلے کے بعد عوام کے ذہنوںمیں پیدا ہونے لگاہے ۔ ایک بات تو طے ہے کہ میاں نواز شریف تیسری باروزیراعظم نہیں بن سکتے ۔تیسری بار وزیر اعظم کی آئینی پابندی کے خاتمے میں پی پی کی دلچسپی بے نظیر بھٹو کے انتقال کے باعث ختم ہو گئی ہے اس لیے پی پی اس کے خاتمے کی کوشش نہیں کرے گی اور ن لیگ کو پارلیمنٹ میں اتنی عددی برتری حاصل نہیں کہ وہ ترمیم کرواسکے، آئینی ترمیم کے لیے دوتہائی ووٹوں کی ضرورت ہے لہذا کہا جاسکتا ہے کہ وزارت عظمی سے میاں نواز شریف دن بدن دور ہوتے جارہے ہیں

وزیراعظم ہاؤس سے میاں نواز شریف کی دوری پر سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے نے تصدیق کی مہر ثبت کر دی ہے جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف اب الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہے ۔اس تناظر میں یہ میاں نواز شریف کا ناقابل تلافی سیاسی نقصان ہے ۔طیارہ سازش کیس میں میاں نواز شریف کے معافی کے عمل نے وقتی طورپر اس معاملے کو دباد یا تھا مگر عدالتوں کی معافی سے جرم ختم نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ اسی ٹیکنیکل پہلو کو لیے ہوئے ہے ۔

پی پی کے قانونی دماغوں کو میاں نواز شریف کی اس قانونی کمزوری کا بخوبی علم تھا اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے اس کمزوری کو منظر عام پر لاکھڑا کردیاہے ۔فیصلے کے اثرات جو بھی ہوں ن لیگ پنجاب حکومت چھوڑنے کی بجائے نئے قائد ایوان کو سامنے لائے گئی ۔ یہ ہی وجہ سے ن لیگ نے جلد ازجلد پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلوانے کی کو شش شروع کردی تاہم گورنر راج کے نفاذ کی جلدبازی نے پی پی کی پنجاب میں حکومت سازی کی لالچ نمایاں کردی ہے ۔ ن لیگ پنجاب کے محاذ کو پی پی کے لیے کھلا نہیں چھوڑ سکتی ۔اس لیے اب پنجاب کا اپوزیشن کا مرکز بننا طے ہوگیاہے۔

وکلاء تحریک کو نئی صورت حال سے نئی طاقت ملی ہے اور اب ن لیگ مزید کھل کر سامنے آئے گی جس سے وکلاء تحریک کو منظم افرادی قوت میسر آئے گی۔ سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے نے وکلاء تحریک کے پی سی اوججز کے الزام میں جان پیدا کردی ہے جس سے اس تحریک کو مزید عوامی ہمدردی میسر آگئی ہے ،دوسری جانب اپوزیشن جو اس انتظار میں بیٹھی تھی وہ وکلاء تحریک کو سیاسی مدد دے گی اور یوں وکلاء کا ایشو ایک بار شدت سے اٹھے گا اور اس سارے احتجاج کا فائدہ نواز شریف کو ملے گا ۔

پاکستان کا سیاسی کلچر ایسا ہے کہ یہاں دوجماعتی سیاسی نظام رائج ہے ،سابق صدرمشرف نواز شریف سے اقتدار چھین کر بھی پاکستان کے سیاسی نظام کو دوجماعتی نظام کے گرداب سے نکال نہیں سکے۔ ن لیگ اگر مشرف دور میں ختم نہیں ہوئی تو یہ اب بھی ختم نہیں ہو سکتی، سیاسی جماعتوں کی اصل طاقت عوام ہے اس طاقت کو عدالت کے فیصلے ختم نہیں کر سکتے۔ اگر نواز شریف مشرف کے قتل (طیارہ سازش) کیس سے بچ سکتے ہیں توکوئی ایساسبب نہیں کہ وہ اس مشکل سے بھی نہ نکل سکیں۔

نواز شریف کی سیاست نئی حکومت کے قیام اورصدرزرداری کی وعدہ خلافیوں سے اب تک ساری عوام کے ترجمان کی سی رہی ہے اور میاں نواز شریف نے کھل کر بھی اور عمل سے بھی ثابت کیا تھا کہ وہ حکومت گرانے کی کوشش نہیں کریں گے ۔پاکستان کی سیاسی جماعتی روایت کے تحت مشرف کے بعد پی پی کی حکومت آنی تھی کیونکہ مشرف دراصل پی پی کا حق مار گئے تھے اور یوں پی پی کو اقتدار سے باہر ہوئے ایک عشرہ ہو گیا تھا اس لیے ن لیگ یہ تسلیم کرتی تھی کہ مشرف کے بعد پی پی کی حکومت ہو گی اس سیاسی روایت کو دیکھاجائے تو پی پی محترمہ بے نظیر کی حادثاتی اور مظلومانہ موت سے پیدا ہونے والی عوامی ہمدردی سے خاطر خواہ عوامی حمایت حاصل نہیں کر سکی ورنہ پی پی کو اکثریت حاصل ہوتی ہے اس سارے قضیے سے ثابت ہو تا ہے کہ میاں نواز شریف پی پی کی حکومت کو توڑنے کے درپے نہ تھے مگر صدرزرداری نے وعدے پورے نہ کیے اور ن لیگ حکومت سے باہر آگئی ،ن لیگ کاحکومت میں شامل ہونا وزنی دلیل ہے کہ ن لیگ نے سیاسی روایت کے تحت پی پی کے حق کوتسلیم کر لیا تھا مگر صدر زرداری کی مجبوریوں نے دن بدن سیاسی ماحول کو سوگوار بنانا شروع کردیا اور آج سیاسی صورت حال ماتم جیسی ہے ۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے شریف برادران کو ہیرو بناکر امر کر دیا ہے اگر پہلے میاں نواز شریف 5سال انتظار کر لیتے مگر اب میاں نواز شریف کی جنگ گوریلا ہوگئی ہے کہ جس میں گوریلا اپنی جیت کی فکر نہیں کرتا وہ اپنی شکست کو طویل اور دشمن کی جیت کوموخرکرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے آسانی سے جیتنے نہیں دیتا لہٰذا اگر کل تک میاں نواز شریف عوامی اضطراب کو حکومت مخالف ماحول کی ابتداء سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے مگراب ایسا نہیں کریں گے اس فیصلے سے پہلے تو پی پی کی حکومت جتنی محفوظ تھی اب اتنی ہی زیادہ غیر محفوظ شمار کی جائے گی، حکومت اس فیصلے کولاکھ میرٹ پر کہہ دے اور حکومت کے حامی وکلاء اس پر دلائل کا انبار لگا دیں مگر عوام آج اسے سیاسی کہہ رہے ہیں۔

کہتے ہیں زبانِ خلق نقارہ خدا ہوتی ہے ،رائے عامہ کا جمہوری نظام میں اہم کردار ہوتاہے اور اس تناظر میں ساری طاقت ساکھ کی ہوتی ہے ،آج میاں نواز شریف سیاسی مستقبل ایک عدالتی فیصلے میں گنواکر بھی عوامی ساکھ کے لحاظ سے اس بلندی پر ہیں جہاں صدر زرداری ایوان صدر میںبیٹھ کر اور ساری طاقت سمیٹ کر نہیں پہنچ سکے ،وہ سیاست دان جو عوامی ساکھ کھو بیٹھے واپس نہیں لاسکتا اس کی مثال سابق صدر مشرف ہیں یہ لاکھ کوشش کریں وہ عوام میں اپنی ساکھ دوبارہ بحال نہیں کر سکتے ۔

شریف برادران نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست گنوادی ہے عوامی ساکھ نہیں گنوائی بلکہ اس عوامی ساکھ میں اضافہ کروالیاہے اور کسی سیاست دان کی ساری طاقت اس کی ساکھ ہوا کرتی ہے لہٰذا شریف برادران کا سیاسی مستقبل ختم نہیںہوا اس میں اضافے کا آغاز ہوا ہے ۔
 
Top