گنجا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جعفر بشیر

محفلین
بیٹھے بٹھائے لے لیا اِک روز مَیں نے پَنگا
گنجے سے کنگا میں نے جو ایک بار منگا

اکیلے ہی اپنی اب تو وہ برتھ ڈے منائے
تحفے میں دے کے جاتا تھا اُسے ہر کوئی کنگا

کچھا پہن لو سر پہ گر ٹوپی نہیں میّسر
پِھرتے ہو عورتوں میں سَر لے کے اپنا ننگا

او پَاء گل سُن ذرا تو جواباً حضور بولے
مُجھےکہہ دیا ہے پاگل ، کِیتا نہیں ہے چَنگا

کہا منچلے نے ہاتھ آنکھوں پہ رکھ کے یُوں
اُف لشکارا ٹِنڈ کا ، پردہ نہیں ہے ٹَنگا

ہے رَن وے تیّار اپنا تو جہاز لیجیے
فری مشورے پہ میرے شروع ہو گیا ہے دَنگا

پُوچھا یہ داڑھی انکل کیا پیچھے اُگ گئی
بچہ شرارتی جب گنجے کے پیچھے لَنگا

شُکر ہے جوؤں سے تیری جان چُھٹ گئی
خریدا خضاب کب سے نہ بالوں کو اپنے رنگا

جعفر بشیر جعفرؔ
 

شمشاد

لائبریرین
وہ تیرے پھوپھا گنجے والے
لے گئے تھے جو ادھار کنگھی
مہینہ ہونے کو ہے
نہ اس نے دتی نہ ہم نے منگی

خالد مسعود یاد آ گئے۔

بہت خوب جناب۔
 
Top