گمشدہ محبت

گمشدہ محبت: Afsana
By: Jameel Akhtar
15 جون 1988.
.
" میں نے اسے آخری بار دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔ "
.
وقت کیسے پر لگا کے اڑتا ہے خبر بھی نہیں ہوتی ، ابھی کل کی بات لگتی ہے جب ہم سب بچے ساتھ میں کھیل رہے تھے، ہم نے جانے کیسے صدیوں کا سفر دنوں میں طے کرلیا اور ہم بڑے ہو گئے۔۔۔۔
,
میں وثوق سے کچھ کہہ نہیں سکتا کہ مجھے اس سے محبت کب ہوئی تھی، کچھ باتوں کے بارے میں آپ کبھی بھی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔۔۔۔
,
چاچا احمد نواز گاوں کے گورنمنٹ سکول میں استاد تھے جانے کیا سوجھی کہ بیٹھے بٹھائے لاہور میں تبادلہ کرانے کو دوڑدھوپ شروع کردی ، اور یہ دوڑ تبادلہ کرا چکنے پہ ختم ہوئی۔۔۔ کہتے تھے دنیا بہت ترقی کر گئی ہے، کب تک چھوٹے سے گاوں میں رہیں اور اپنی سوچ کو محدود رکھیں۔بچوں کے مستقبل کے لئیے لاہور جانا ہی ہوگا۔۔۔ انہیں کون سمجھاتا کہ شہر چھوڑنے سے سوچیں نہیں بدلتیں، بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی سوچ کہ لوگ بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔. . ان کے دو بچے تھے، نمرہ اور سلمان، نمرہ نے بی اے کیا تھا اس سال، سلمان ابھی میٹرک میں تھا۔۔۔۔
.
کیا تم لوگ واقعی جا رہے ہو؟؟؟؟؟ میں نے آخری دن اس سے پوچھا تھا۔۔۔۔کہ مجھے اب تک یقین نہ آتا تھا کہ یہ لوگ واقعی یہاں سے چلے جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔
" ہاں تو اور کیا ابا مذاق کر رہے ہیں کیا۔۔۔۔ تم بھی کسی بڑے شہر میں جائو تبھی ترقی کروگے۔ میں تو گورنمنٹ کالج میں ایڈمیشں لوں گی۔۔۔۔ تم نے نام تو سن رکھا ہوگا۔۔۔۔
"ہاں سنا ہے۔۔۔۔ تھرڈائیر میں کالج کا ٹرپ گیا تھا لاہور تو دیکھا بھی تھا۔۔۔۔۔ "
"۔ تو کیسا تھا، عمارت کیسی تھی۔۔۔۔ "
.
۔" تم لوگ وہاں جا کر ہمیں بھول تو نہ جائو گے۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
"۔ نہیں اب ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔۔۔ گاوں میں ۲۰ سال گزارے ہیں زندگی کے بھلا کیسے بھول سکتے ہیں۔۔۔۔ لیکں ترقی بھی تو کرنی ہے ، زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے کچھ نہ کچھ قربانی تو دینی پڑتی ہے۔۔۔۔"
" . اچھا تو تمہیں یاد رہے گا یہ سب، یہ گلیاں ، یہ لوگ، یہ گلی کے سرے پہ کھڑا درخت، اور اور میں۔۔۔۔ ۔۔ ہاں کیوں نہیں میری یاداشت ایسی بھی کمزور نہیں ہوئی ابھی۔۔۔"
,
۔اور ہنسی کا ایک طوفان تھا کہ تھمتا ہی نہ تھا۔۔۔۔میں چاہ کہ بھی ہنس نہ سکا،،،،، جانے بعض دفعہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ آپ کوشش کے باوجود بھی ہنستے لوگوں کے ساتھ ہنس نہیں سکتے۔۔۔۔۔ ،
,
" اچھا ٹھیک ہے تم باقاعدگی سے مجھے خط لکھنا، ہر روز۔۔۔۔
"، ہر روز؟؟؟؟
اچھا ہر ہفتے۔۔۔۔میں نے کہا۔۔۔
"، ہر ہفتے ؟؟؟؟؟ ،
"اچھا ہر ماہ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔"
اچھا یہ ٹھیک ہے۔۔۔"
، اور بھولنا مت۔۔۔۔ "
.
دن کیسے ھفتوں میں اور ہفتے کیسے مہینوں میں ڈھل گئے۔۔۔۔کوئی خط نہ آیا۔۔۔۔۔ بڑے شہر میں رہ کہ ایسی چھوٹی حرکت کون کرتا۔۔۔چاچا احمد نواز کا ابا کے نام کبھی کبھار خیریت کا خط آجاتا۔۔۔میں کئی کئی بار لفافہ کھولتا، کہ شاید اس کے ساتھ بھی کوئی صفحہ میرے لئے ہو۔۔۔۔ چاچے کے خطوط کے مطابق نمرہ اکنامکس میں ماسٹرز کر رہی تھی۔۔۔۔ ، تین سال گزر گئے، نمو کو گائوں کی گلیاں ، لوگ ، درخت اور میں یاد نہ آسکے۔۔۔۔۔ ۔
شاید کچھ مجبوری ہو۔۔۔سوچا لاہور خود جاتا ہوں۔۔۔۔ میں لاہور جاتے ہوئے راستے میں سوچ رہا تھا کہ تین سال بعد نمو مجھے دیکھ کہ کیسی خوش ہوگی۔ بیچاری کیسی مجبور ہوگی کہ خط لکھنے تک کی فرصت نہ مل پائی۔۔۔۔...........................................................................................
.
13اکتوبر ۱۹۹۱۔.
.
میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔۔۔۔
.
۔ یہ چک ۳۶ کی نمو نہیں ، یہ لاہور کی نمرہ احمد تھی۔۔۔۔ اکنامکس میں ماسٹرز کر کے ایک این جی او میں آفیسر۔ لباس سے لے کہ خیال تک کچھ بھی پرانا نہیں تھا۔۔۔۔
آباد رہو بڑے شہرو، کہ تم انسان کی ترقی ہو۔۔۔۔ ۔
.
"نمو۔۔۔"میں نے اسے بلایا۔۔۔ .
"excuse me, i am Nimra ahmed" ,
.
Sorry
, "وہ بچپن میں ہم گاوں میں سب تمہیں نمو کہتے تھے"۔۔۔۔
,
۔ ہاں اب بچپن نہیں رہا۔۔۔اور یہ گاوں بھی نہیں۔۔۔ نمرہ نے کہا۔۔۔ ،
ہاں اب بچپن نہیں رہا۔ گاوں نہیں رہا، اب وہ زمانہ نہیں رہا۔۔۔شاید ، شاید اب کچھ بھی ویسا نہیں رہا۔۔۔ ۔ تم نے بھی خط نہیں لکھا نمرہ۔۔۔ ،???
.
" یہاں زندگی بہت مصروف ہوتی ہے ایسے کاموں کے لئے وقت نہیں ملتا۔۔۔ ،"
"
"تمہیں یاد ہے گاوں کی گلیاں، لوگ، اور گلی کے سرے کا پیڑ ، ۔۔۔۔۔۔؟؟؟ ،
"ٹھیک ہے وہ اچھا وقت تھا لیکن اب جو گزر گیا اسے کیا یاد رکھنا۔۔۔"
.
، وہ گلی کے سرے پر جو پیڑتھا جس کے نیچے ہم کھیلتے تھے سوکھ گیاتھا، سو لوگوں نے کاٹ دیا۔۔۔۔میں نے اسے بتایا۔۔۔۔کہ اس نے سب کچھ یاد رکھنا تھا۔۔۔اس نے کہا تو تھا۔۔ ،
تو میں کیا کروں؟؟؟؟ نمرہ احمد نے کہا۔۔ ،
"ہاں یہ بھی ہے۔۔۔۔تم کیا کر سکتی ہو۔۔ ، بھیا کی ۲ ماہ پہلے شادی ہو گئی آپ لوگوں کو بلایا تھا۔۔۔پر صرف چاچا احمد آئے تھے۔۔۔ "
"، ہاں مجھے چھٹی نہ مل سکی۔۔۔۔ ،"
میں سمجھ رہا تھا اس کے پاس گاوں کے بارے پوچھنے کو کیئ سوال ہونگے، کہ لوگ کیسے ہیں، گلیاں کیسی ہیں، میں کیا کرتا ہوں سارا دن۔۔۔ مجھے کون یاد ہے میں سارا دن کس کا انتظار کرتا ہوں۔۔۔ کیوں میں پچھلے تین سال سے ہر روز ڈاکیے سےایک ہی سوال کرتا ہوں۔۔۔۔۔لیکن اس کے پاس کوئی سوال نہیں تھا۔۔۔۔ .
.
ترقی کی نئی منزلیں طے کر لی گئی تھیں، کہ پرانا سب کچھ بھلا دیا گیا تھا۔۔۔۔۔ ..........
.........................................................................................
. ۱۳ جولائی ۲۰۱۳۔
.
کوئی صاحب ریلوے سٹیشن پر ایک بیگ بھول گئے تھے۔ کسی شخص کی نظر پڑی تو بیگ اٹھا کہ کے میرے دفتر لے آیا کہ میں اس اسٹیشن پہ اسٹیشن ماسٹر تعینات تھا ان دنوں۔۔۔ بیگ کی تلاشی لی تو دو جوڑے کپڑوں کے اور چند خطوط جو پوسٹ نہ ہو سکے اور اور ایک ڈائری۔۔۔۔۔ کسی کی ڈائری پڑھنا اچھی بات نہیں ہوتی ، میں نے یہ سوچ کرکھولی کہ شاید بیگ کے مالک کا پتہ درج ہو۔۔۔کہ بعض لوگ ڈائری پتے درج کرنے کے لیئے بھی استعمال کرتے ہیں۔۔۔ یہ ۱۹۸۸ کی ڈائری تھی ۔ساری خالی تھی۔۔۔۔ سوائے ۲ تاریخوں کے۔۔۔۔ ۱۵ جون ۱۹۸۸ اور پھر ۱۳ اکتوبر ۔۔۔۔ ۱۹۸۸ کو مٹا کر ۱۹۹۱ کر دیا گیا تھا۔۔۔۔ میں نے گمشدہ بیگ کھولا تھا اور اس میں گمشدہ محبت پڑی تھی۔۔۔۔بالکل چپ چاپ۔۔ زمانے کی ترقی کو پہ چیختی چلاتی۔۔۔
ختم شد
 

loneliness4ever

محفلین
بہترین انداز ۔۔۔ بہترین تحریر

خوش آمدید

امید ہے یہ سلسلہ مستقل رہے گا
اور محفلین کو آپ اپنی تحاریر پڑھنے کا موقع فراہم کرتے رہیں گے

اللہ آباد و کامران رکھے آپکو ۔۔۔ آمین

س ن مخمور
 
بہترین انداز ۔۔۔ بہترین تحریر

خوش آمدید

امید ہے یہ سلسلہ مستقل رہے گا
اور محفلین کو آپ اپنی تحاریر پڑھنے کا موقع فراہم کرتے رہیں گے

اللہ آباد و کامران رکھے آپکو ۔۔۔ آمین

س ن مخمور
بہت شکریہ مخمور صاحب، خوش رہیں آباد رہیں
 
Top