گل پھینکتے ہیں

زبیر مرزا

محفلین
لاہور میں ایک شخص نے اپنی کمسن بچی کو دریا بُرد کیا - فیصل آباد میں ایک خاتون دوسالہ بچی کو
بس میں ایک شخص کے حوالے کرکے یہ کہہ کر غائب ہوگئیں کہ بچی کے لیے کھانے کو کچھ لاتی ہیں
یہ تواتر سے آتی خبریں سانس روکتی ہیں اور سینے کا بوجھ بڑھارہی ہیں اور ضمیر کا بھی-
ہم اُس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں موبائل کا نیا موڈل اولین ترجیح ہے اور شہر میں لوگ بھوک سے
غربت سے تنگ اپنی اولاد پھینکتے ہیں وہ قابل نفرت ہیں ، مجرم ہیں ---- اور ہم؟
بے حسی جرم نہیں تو کیا ہے
ہم کسی اور عذاب سے دوچار ہیں یا نہیں لیکن یہ طے ہے کہ ہم سماجی اجتماعی بے حسی کے
عذاب میں ضرور مبتلا ہیں-
ہم بچپن میں درسی کتابوں میں انسانی ہمدردی ، ہمسائیوں کے حقوق اور صفائی
نصف ایمان ہے جیسے موضوعات پر کہانیاں پڑھتے ہیں ، متاثر ہوتے ہیں اور
جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتے ہیں یہ سب بھول کر خود غرضی میں مبتلا ہوتے جاتے ہیں
ہمارے شہر میں لوگ بھوک سے ، افلاس سے تنگ خودکشی کرتے ، بچے بیچتے ہیں اور'
ہم اپنی موج میں مست رہتے ہیں - یہ لحمہ فکریہ ہے لیکن ہم ایسی خبریں کو سننے اور سن
کر بھول جانے کے عادی ہوتے جارہے ہیں -
 
آخری تدوین:

زبیر مرزا

محفلین
سما ٹی وی پر بلال قطب اس بارے میں پروگرام کررہے ہیں - دوسری بیٹی کی پیدائش پر بڑی بیٹی کو دریا میں
پھینک دیا - اذیت اس معصوم بچی کی اور سفاکی اس شخص کی - جی چاہ رہا با آواز بلند رونے کو
 

نایاب

لائبریرین
محترم زبیر بھائی ابھی محترم حاتم بھائی کی تحریر کی تلخی کم نہ ہونے پائی تھی کہ آپ کی تحریر نے جیسے " تلخی کو دو آتشہ کر دیا ۔ آنکھ کے ساتھ دل بھی بھر آیا ۔۔۔
میرے بھائی افسوس صد افسوس کہ میرے وطن میری سوہنی دھرتی کا نظام بد نیتوں کے ہاتھ میں ۔ تعلیم کا نظام جاہلوں کے ہاتھ میں ۔ قانون کا نظام با اثر اور پیسے والوں کا غلام ۔ اس بندر بانت اور کرپٹ ترین اجارہ داری میں عوام کے کس دکھ کس درد کی بات کریں ۔ وہ عوام جو حالات کی چکی میں پستے اپنی انا و رضا کہیں بھول چکے ہیں ۔ اسلام کے نام پر آزاد ہوئے اس ملک میں سوائے اسلام کے نام پر بپا " بحث و مباحثہ " اور " متشدد تبلیغ کے کہاں اسلام اپنی جھلک دکھاتا ہے ۔۔۔۔؟
وہ مذہب اسلام جس کا ماننے والا اک جلیل القدر خلیفہ فرات کے کنارے اک کتے کے پیاسا مر جانے پر خود کو جواب دہ سمجھتا ہو اب اس اسلام میں ۔۔۔ انسانیت اور مواخات کے ایسے علمبردار آج کہاں دکھتے ہیں ۔ ؟
اب تو اس مذہب کے ماننے والے با اختیار و بے اختیار اک ہی صف میں کھڑے اپنے ہی جیسوں کو سڑکوں کے کناروں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر تڑپتے اور مرتے ہوئے دیکھ کر سکون سے گزر گھر جا سو جاتے ہیں۔
اور بھول جاتے ہیں کہ رب ذوالجلال و الاکرام کی ذات پاک نے بھی تو حدیں مقرر کر رکھی ہیں، جب کوئی حد پھلانگ جاتا ہے تو اس کی رسی کاٹ دی جاتی ہے۔
جب ہم انسانیت اور مواخات کو ہی بھول چکے تو ہم سے قائم ہم سے رواں یہ معاشرہ کیسے انسانیت کی معراج پا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔
یہ رونا یہ کرلانا بے حسی کی تاریکی کو کیسے مٹا پائے گا ۔۔۔۔۔؟
فرد کو اب سدھرنا ہی ہوگا ورنہ یہ معاشرہ اب عذاب الہی کا حقدار دکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،…
بہت دعائیں
 

شمشاد

لائبریرین
نایاب بھائی ابھی بھی عذاب الہٰی کا انتظار ہے۔

یہ عذاب الہٰی ہی ہے جو موجودہ حکمرانوں کی صورت میں پاکستانی عوام پر مسلط ہے۔

ابھی پرسوں والا سنبل کا واقعہ لے لیں۔ درندے بھی ایسا سلوک نہیں کرتے۔ یہ تو درندوں سے بدتر ہیں۔
 
Top