گلگت بلتستان کے مستقبل کا فیصلہ

ایس ایم شاہ

محفلین
گلگت بلتستان –مستقبل کا فیصلہ
تحریر: ایس ایم شاہ
مایوسی سرطان کی مانند ہے۔ اگر ایک بچے کو شروع سے یہ باور کرا دیا جائے کہ تم کو ایک مزدور کے علاوہ کچھ بننا ہی نہیں، تب آہستہ آہستہ اس کی ذہنیت ہی کچھ ایسی بن جائے گی، یہاں تک کہ وہ اس سے آگے کی طرف سوچنے کا تصور بھی کھو دے گا۔ اگر اسی نہج پر بہت سارے افراد کی تربیت کی جائے تو احساس کمتری کا شکار ایک گروہ پیدا ہوگا اور اسی گروہ سے معاشرہ تشکیل پائے گا۔ جب پورا معاشرہ ہی محرومی کا شکار ہوجائے، تب حقوق کا حصول خواب بن کر رہ جائے گا۔ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ 68 سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ آئینی حقوق تمہاری تقدیر میں ہی نہیں، لہذا اس کے لئے قدم اٹھانا تمہاری بھول ہے۔ درمیان میں بعض چھوٹے گروہوں نے سر اٹھانے کی کوشش کی تو ان کی آواز کو دبا دیا گیا۔ بعض افراد کو زندانوں کی زینت بنا دیا گیا تو بعض دوسرے افراد کو مختلف طریقوں سے سرکوب کیا گیا۔ یوں آئینی حقوق کا حصول ناممکن سا دکھائی دینے لگا اور احساس محرومی ہمارے پورے معاشرے پر حاکم ہوگیا۔ اس بے حسی سے فائدہ اٹھا کر حکمران یکے بعد دیگرے سبز باغ دکھا کر اس علاقے کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھاتے رہے۔
اچانک ہمارے ہمسایہ ملک چین سے "اقتصادی راہداری"کے عنوان سے ایک جامع معاہدہ ہوا۔ یہاں آکر چین نے اس طویل المدت اور کثیر المقاصد پروگرام کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے مشروط قرار دے دیا۔﴿1﴾ اب آکر ایوان اقتدار پر براجمان حکمران تحیر کی وادی میں سرگرداں ہوگئے۔ گلگت بلتستان کو آئینی حق دیں گے تو ان کو دوسرے صوبوں کی مانند پارلیمنٹ اور سینیٹ سمیت تمام قومی اداروں میں نمائندگی دینا پڑے گا۔ یوں یہ لوگ دوسرے پاکستانیوں کی مانند اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے قابل ہوجائیں گے۔ اگر ان کو سابقہ حالت پر باقی رکھا جائے تو 46 ارب ڈالر کا معاہدہ بے ثمر ہوجائے گا۔ اس طرح اس بحث نے ایک نئی سمت اختیار کر لی ہے۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس کمیٹی میں بھی گلگت بلتستان کو کوئی نمائندگی نہیں دی گئی اور نہ ہی اقتصادی راہداری میں ان کا کوئی حصہ معین ہوا۔ بعدازاں کافی بحث و تمحیص کے بعد آئینی حقوق سے متعلق کچھ امید افزا باتیں بھی سامنے آنے لگیں۔
یکایک مظفر آباد اسمبلی سے اجتماعی طور پر اس علاقے کو صوبہ بنانے کی بھرپور مخالفت سامنے آگئی اور اس کوشش کو کشمیر ایشو کی کمزوری کا سبب ہونے سے تعبیر کیا جانے لگا۔﴿2﴾ ادھر سرحد پار ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے حریت لیڈر سید علی گیلانی نے واویلا کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے برملا کہا کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا مصمم ارادہ کرچکی تھی، لیکن ہم نے اس کی سختی سے مخالفت کی، لہذا اب یہ علاقہ صوبہ نہیں بنے گا۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنا کر کشمیر کو متنازعہ نہ بنایا جا رہا ہے۔﴿3﴾ میری دانست میں کشمیریوں کو حقوق دینے کے حوالے سے دسیوں سال گزرنے کے باوجود آج تک گلگت بلتستان کے کسی لیڈر نے کوئی مخالفت نہیں کی، لیکن گلگت بلتستان کے حقوق کی جب بھی کوئی بات چلتی ہے، اس وقت کشمیری لابی آڑے آجاتی ہے۔
گیلانی صاحب کو اتنا بھی علم نہیں تھا کہ 67 سال ہوگئے گلگت بلتستان کو آئینی حقوق نہیں دیئے گئے، کیا کشمیر کی متنازعہ حیثیت اس سے ختم ہوگئی۔؟ کیا عرصہ دراز سے اس علاقے کو اپنے آئینی حقوق سے محروم رکھنے سے کشمیر کاز کو کوئی تقویت مل گئی ہے؟ کیا کشمیر ہمیشہ کے لئے متنازعہ رہے تو گلگت بلتستان کو بھی تاابد اسی حالت میں رکھنا ممکن ہے۔؟ کیا اس وقت گلگت بلتستان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے کشمیری بھائیوں نے گذشتہ 67 سالوں میں کسی بھی ایوان میں ان کے حق میں ایک بات بھی کرنے کی زحمت گورا کی ہے؟ کیا ابھی تک کشمیر اسمبلی میں گلگت بلتستان کے عوام کی محرومیوں کے خلاف ایک بل پیش کرنے کی توفیق آپ لوگوں کو ہوئی ہے؟ پاکستانی فیصلے ہمارے پارلیمنٹ اور سینیٹ میں ہوتے ہیں یا بیروں ملک، علی گیلانی جیسوں کے خیالات پر مبتنی ہے؟ یہ الگ بحث ہے کہ ایسی باتیں کشمیریوں نے خود سے کی ہیں یا ایک پالیسی کے تحت ان سے کہلوائی گئی ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ آزاد کشمیر میں انتخابات کے دن قریب آتے گئے۔ یوں حکمرانوں نے سوچا کہ اگر ان کی باتوں پر کان دھرے بغیر گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین کیا گیا تو ان انتخابات میں ہم خاطر خواہ سیٹیں لینے سے رہ جائیں گے۔ یوں ذاتی مصلحت غالب آگئی اور مدت مدید گزر جانے کے باوجود ابھی تک حکومتی ایوانوں میں سکوت کی فضا غالب ہے۔ علاوہ ازیں بعض حکومتی اہلکاروں کے بیانات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ موجودہ حکومت اب پھر سے ایک مختصر سیٹ اپ کے ذریعے یہاں کے عوام کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔﴿۴﴾ دوسری طرف سے آئینی مسئلے کو سلجھانے کی بجائے یہاں کے عوام کو الجھانے اور لوگوں کے ردعمل کا اندازہ لگانے کی خاطر ٹیکس کے نفاذ کی بات کو پروان چڑھایا گیا اور ساتھ ہی جلال آباد اور بعض دوسرے علاقوں کے افراد کے ذریعے مقپون داس پر چڑھائی کی گئی، جہاں عرصہ ڈیڑھ سال سے ہراموش کے عوام فیملی سمیت زندگی گزار رہے تھے۔ ساتھ ہی عدالت کا فیصلہ بھی ان کے حق میں ہے۔ چند دنوں کے بعد پولیس کے ذریعے جلال آباد اور دوسرے علاقوں کے افراد کو ہراموش کے بعض افراد سمیت وہاں سے نکال دیا گیا۔ مختصر مدت گزر جانے کے بعد راتوں رات فوج اور پولیس سمیت سرکاری انتظامیہ نے وہاں پر شب خوں مار کر لوگوں کے مکانات کو ملیامیٹ کرکے ہراموش کے عوام کو بے دخل کر دیا۔ یوں ایک اور صبر آزما مسئلے کا اضافہ ہوگیا۔
اب گلگت بلتستان کے عوام نے دیکھا کہ حقوق دینے کی کوئی امید کی کرن نظر نہیں آرہی بلکہ حکومت مختلف وسیلوں سے ہمیں سرکوب کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے۔ یوں اس آئینی مسئلے کے مطرح ہونے کے بعد تشکیل پانے والی "عوامی ایکشن کمیٹی" کا ایجنڈا عوامی امنگوں کے عین مطابق ہونے کے باعث یہاں کے عوام میں ان کو کافی پذیرائی مل گئی۔ اس کمیٹی نے بروقت اقدام کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے آئینی حقوق اور اقتصادی راہداری میں اس علاقے کے حصے کے تعین کی خاطر احتجاج کی کال دی۔ جس پر تمام پارٹیوں کے سربراہوں سمیت عوام کی کثیر تعداد اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان میں اتر آئی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم کٹ مریں گے، لیکن آئینی حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔﴿5﴾ صوبائی حکومت کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ اور زمینی حقائق سے کوسوں دور بیانات سامنے آئے۔ جس سے عوام میں ان کی مقبولیت کی بجائے نفرت میں مزید اضافہ ہوا اور ان کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آگیا۔ تعصب کی عینک سے انھیں ہزاروں کا مجمع دسیوں اور سب کا اجتماعی چارٹر آف ڈیمانڈ ناقابل مطالعہ دکھائی دینے لگا۔﴿6﴾ درحقیقت ان کے اپنے اختیارات بھی اخباری بیانات سے زیادہ نہیں۔ لہذا وہ اپنی بے بسی کو چھپانے کی خاطر ایسی فاترالعقل بیان بازیوں کا سہارا لیتے ہیں۔
اب لوگوں میں ایسی بیداری پیدا ہوگئی ہے، جس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں۔ حکومت اور ایوان اقتدار پر براجمان دوسرے عہدے داروں کو اس حقیقت کا اعتراف ہونا چاہیے کہ گلگت بلتستان کی قوم نے دوسرے صوبوں سے زیادہ پاکستان کی سالمیت اور اس کے دفاع کے لئے بھرپور قربانیاں دی ہیں۔ فوج، پولیس اور دوسرے سرکاری محکموں میں ہزاروں جوان اب بھی اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اپنے کو ملکی سالمیت کے لئے سپر بنائے ہوئے ہیں۔ ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ ہو یا 1971 کی وار، ہر مرحلے پر یہاں کے جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا ہے۔ 1999ء کی کارگل وار میں بیٹوں کی شہادت پر ان کے والدین نے سجدہ شکر بجا لاکر ملکی دفاع میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔
یہاں کے عوام 68 سالوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستانی باسی اور وفادار ہیں، لیکن ابھی تک حکمرانوں کو ان کی وفاداری پر اعتماد نہیں آیا، جبکہ مقبوضہ کشمیر والے اتنے ہی عرصے سے علم بغاوت بلند کرکے ہندوستانی فوج کے گلے میں خار بنے ہوئے ہیں، لیکن پھر بھی بھارتی حکومت ان کو اپنا ہی مانتی ہے اور ان کو ملک کے دوسرے حصوں سے زیادہ حقوق دے رکھی ہے۔ اب ظاہر حال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عوام کسی مختصر سیٹ اپ پر اکتفا کرنے کو کسی صورت تیار نہیں۔ لہذا حکومت وقت کو یا آئین میں ترمیم کے ذریعے گلگت بلتستان کو مستقل صوبہ بنانا ہوگا یا اقوام متحدہ کے چارٹر آف ڈیمانڈ کو قابل عمل بنا کر یہاں کے عوام کو محرومیت سے نجات دلاکر ان کے مستقبل کا تعین کرنا ہوگا۔ کیونکہ کسی کو اس کے حق سے محروم رکھنا ظلم کا بارز مصداق ہے۔ یاد رکھیے حکومت کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔
حوالہ جات:
1۔ Dawn News>tv<News
2۔ 12.12.2015 com.taingbDaily
3۔ اردو پوائنٹ۔ 15 جنوری 2016
4۔ ایضاً
5۔ ڈیلی کے ٹو، 19 مارچ 2016
6۔ ایضاً
خبر کا کوڈ: 529002
خوشحالی سب کے لیے
تحریر: ایس ایم شاہ
اسلام ہر ایک کو خوشحال اور متمول
 
Top