گلگت بلتستان: پی ڈی ایم کے بیانیہ کی شکست

جاسم محمد

محفلین
گلگت بلتستان: پی ڈی ایم کے بیانیہ کی شکست
16/11/2020 ارشاد محمود

گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کو غیرمعمولی انتخابی کامیابی ملی ہے۔ سابق وزرائے اعلیٰ مہدی شاہ اور جناب حفظ الرحمان کی شکست اس امر کی دلیل ہے کہ لوگوں کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ امیدیں قائم اور دائم ہیں اور وہ کسی اور کے رنگ میں رنگنے کو تیار نہیں۔

1۔ پاکستان تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں نے بھرپور الیکشن مہم چلائی۔ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ سیکورٹی خطرات کے باوجود انہیں انتظامیہ نے ہر ممکن سہولت پہنچائی۔ لوگ بھی ان کے جلسوں میں نہ صرف آئے بلکہ اپوزیشن جماعتوں کو زندہ کر گئے۔

2۔ گلگت بلتستان کا الیکشن نیشنل الیکشن کی طرح کا معرکہ بن گیا تھا جہاں دو بیانیہ باہم دست و گریباں تھے۔ ایک ووٹ کو عزت دو کے نام پر ریاستی اداروں اور منتخب حکومت پر ضرب لگانے کا بیانیہ اور دوسرا کرپشن فری پاکستان، جہاں ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں رہ کر ملک اور قوم کی خدمت کرے۔

لوگوں نے سب کے جلسے سنے۔ نعروں اور دعووں کو پرکھا۔ خوب جانچا اور آخر میں ٹھپا پی ٹی آئی کے پلے پر لگایا کیونکہ وہ بلے کی کامیابی کا مطلب پاکستان کو مستحکم کرو کے مترادف جو ٹھہرا۔

3۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو تحمل سے اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے۔ ٹرمپ کی طرح ضد نہیں کرنی چاہیے۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے دل بڑا کرنا چاہیے۔

4۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ گیلپ سروے پہلے ہی بتا چکا ہے۔ اب گلگت بلتستان کی فتح نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ انشا اللہ مارچ میں سینٹ میں بھی اسے برتری حاصل ہو جائے گی۔ اور اگلے برس جولائی میں مظفرآباد کے تحت پر وہ براجمان ہوگی۔

5۔ تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ خان نیازی نے تمام تر مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود میرٹ پر پارٹی کے رہنماؤں اور دوسری جماعتوں سے مستعفی ہو کر آنے والوں کو ٹکٹ دیے۔ مضبوط اعصاب کے ساتھ اندر اور باہر کے دباؤ کا مقابلہ کیا۔ گلگت بلتستان میں کامیابی اور کامرانی کا سہرا ان کے سر جاتا ہے ۔ انہوں نے ایک بہترین منتظم کا لوہا منوایا ہے۔

سیف اللہ خان پارٹی کو نچلی سطح پر منظم کرنے کے کامیاب تجربہ کے بعد پہلی بار الیکشن کے معرکے میں اترے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں سرخ رو کیا۔ انشا اللہ ان کی لیڈرشپ میں پارٹی میں مزید کامیابیاں حاصل کرے گی۔ علی امین گنڈا پور اور زلفی بخاری نے بھی خوب محنت کی۔

7۔ اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ اقتدار کوئی منزل نہیں بلکہ منزل تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ منزل گلگت بلتستان میں انصاف اور عدل کا نظام قائم کرنا ہے جہاں شہریوں کو ان کے حقوق ان کی دہلیز پر ملیں۔ امید ہے کہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ گلگت بلتستان کو پورے ملک کے لیے ایک اچھی تجربہ گاہ بنائے گی۔

8۔ پی ڈی ایم اور خاص کر نون لیگ کو سوچنا چاہیے کہ لوگ ان کے بیانیہ کو قبول نہیں کر رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ملک کے دفاعی ادارے قومی سلامتی کے لیے ناگزیر ہیں۔ انہیں کمزور کرنے کی کوششوں کو عوام نے نہ پہلے پذیرائی بخشی اور نہ اب بخشنے والے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی سیاسی فکر کی اصلاح کریں ورنہ رفتہ رفتہ ان کا سیاسی خیمہ اجڑ جائے گا۔
 

سیما علی

لائبریرین
پی ڈی ایم اور خاص کر نون لیگ کو سوچنا چاہیے کہ لوگ ان کے بیانیہ کو قبول نہیں کر رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ملک کے دفاعی ادارے قومی سلامتی کے لیے ناگزیر ہیں۔ انہیں کمزور کرنے کی کوششوں کو عوام نے نہ پہلے پذیرائی بخشی اور نہ اب بخشنے والے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی سیاسی فکر کی اصلاح کریں ورنہ رفتہ رفتہ ان کا سیاسی خیمہ اجڑ جائے گا۔
اب گھنٹی کس کے گلے میں بندھے گی اس شکستِ فاش کے بعد۔۔۔ووٹ کو عزت دو:):)
 

سیما علی

لائبریرین
جب تک ن لیگ میں تحریک انصاف کی سفیر مریم نواز موجود ہے، اس پارٹی کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہئے :)
گلگت بلتستان الیکشن 2020: گلگت بلتستان میں تیر چلے گا، شیر دھاڑے گا یا پھر بلا سب پر بھاری رہے گا
گلگت بلتستان کے سفر کے دوران ہمارے ساتھ دلچسپ شخصیت ہماری گاڑی کے ڈرائیور اقبال کی رہی۔ وہ یہاں کے مقامی باشندے ہیں اور ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ اُن کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بار وہ مقامی مولوی کی باتوں میں آ کر ’جہاد‘ کرنے افغانستان پہنچے تاہم کچھ دن بعد غلطی کا احساس ہوا تو بھاگ کر واپس پاکستان آ گئے۔

ایک بار انھوں نے جنات اور پریوں کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے چلہ کاٹنے کی کوشش کی اور اُن کے مطابق پہلے ہی دن قبرستان میں انھیں ’بلائیں‘ نظر آئیں اور وہ وہاں سے بھاگ نکلے۔ یوں افغانستان میں جہاد کی طرح اُن کا پریوں پر قابو پانے کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
گلگت بلتستان میں تیر چلے گا، شیر دھاڑے گا یا بلا سب پر بھاری
ہوگا؟ - BBC News اردو


آخر کار بلا ہی بھاری رہا ۔۔۔
مزیدار کالم ہے اس مد میں ۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top