ام اویس

محفلین
ننھی گلہری کا نام گلو تھا، وہ جنگل کے اس حصے میں رہتی تھی جہاں درخت خوب گھنے اور ہرے بھرے تھے۔ ایک دن یوں ہوا ، اس کی ماما نے گھر سے جاتے ہوئے کہا : ”گلو ! میں کھانے کی تلاش میں جا رہی ہوں ، تمہارے بابا دوسرے جنگل گئے ہیں ، میری غیر موجودگی میں گھر سے باہر نہ جانا، کیونکہ آج موسم کے آثار ٹھیک نہیں بارش اور تیز ہوا چلنے کا امکان ہے۔“

گلو نے اس وقت تو سر ہلا دیا لیکن ماما کے چلے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد اسے اپنی سہیلی منکی کا خیال آیا جو اس کے گھر سے کافی فاصلے پر رہتی تھی۔ منکی کا گھر جنگل کے بیچوں بیچ ایک بڑے سے ٹیلے کے دامن میں بنی سرنگ میں تھا۔گلو اور منکی کی مائیں دونوں سہیلیاں تھیں اور گلو کو اس کا لمبا سا زمینی گھر بہت پسند تھا ۔ وہ اپنی ماما کے ساتھ کئی بار ان کے گھر جا چکی تھی ۔ چنانچہ وہ اٹھی اور اپنی خوبصورت دُم کو سنوار کر منکی سے ملنے اکیلی ہی چل دی۔ آسمان پر بادل سورج سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے، تھوڑی ہی دیر میں سورج چاچا ہار گئے اور اپنامنہ چھپا لیا۔ ہر طرف سیاہ بادل چھا گئے، ابھی گلو آدھے راستے میں تھی کہ اچانک بجلی چمکی اور بادلوں نے جیت جانے کا زوردار نعرہ لگایا ۔ اچھلتی کودتی مزے سے ادھر ادھر دیکھ کر چلتی ، گلو بڑے زور سے ڈر ی اور تیزی سے بھاگنے لگی ۔ سامنے سے خرگوش میاں اپنے گھر کی طرف جاتے دکھائی دئیے۔ گلو کو بھاگتے دیکھ کر انہوں نے زور سے کہا: ”ادھر کہاں جا رہی ہو ؟ چلو واپس اپنے گھر چلی جاؤ ورنہ ہوا تمہیں اڑا لے جائے گی۔“
۔۔۔۔

گلو فورا کھڑی ہوگئی، سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو ایک شرارتی بادل نے اس پر کلی کر دی ، اسے دیکھ کر دوسرے بادل بھی پانی برسانے لگے۔ گلو گھبرا گئی اور واپس مڑ کر اپنے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ پانی سے اس کی دُم گیلی ہو کر بھاری ہوگئی اور قدم اٹھانے مشکل ہوگئے۔

خرگوش میاں ڈانٹ کر بولے: ”تمہیں کس نے کہا تھا کہ اس موسم میں گھر سے نکلو؟ اپنی کزن کی طرح تم اُڑن گلہری تو ہو نہیں ، اب تم کیچڑ میں پھسلو گی نیچے گرو گی ، تمہیں چوٹ لگے گی، گھر جانا مشکل ہو جائے گا۔“ گلو سورج کے چھپ جانے سے خوف زدہ تھی، بادلوں کا سیاہ رنگ دیکھ کر اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا، جونہی بجلی تیزی سے چمکی ،اس نے گھبراہٹ میں سامنے دیکھے بغیر چھلانگ لگائی اور اونچے درخت سے اس کا سر ٹکرایا۔ آہ ! درد کی ایک تیز لہر اٹھی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھا جس پر ایک بڑا سا گومڑ بن گیا تھا اور ہائے ہائے کرتی آگے بڑھی۔ خرگوش میاں بڑبڑائے ، ”اندھی ہو ، نظر نہیں آتا؟“

گلو تیزی سے دوسری طرف مڑی تو کانٹے دار جھاڑیوں میں پاؤں جا پڑا، اس کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی اور وہ لنگڑاتی ہوئی راستے کے درمیان میں چلنے لگی۔ نادان دوست ، خرگوش میاں کی تیز آواز اسے بوکھلا رہی تھی ، اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیسے گھر تک پہنچے ۔

بالآخر گرتی پڑتی وہ گھر پہنچ ہی گئی اسے چوٹ لگی تھی اور درد بھی ہو رہا تھا، گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر وہ رونے لگی اور روتے روتے سو گئی۔

۔۔۔۔

جب اس کی آنکھ کھلی تو بارش تھم گئی تھی، آسمان صاف ہو چکا تھا۔اس نے باہر جھانک کر دیکھا تو ماما واپس آتی دکھائی دیں۔ اسے ایک بار پھر رونا آگیا ، جونہی اس کی ماما اندر داخل ہوئیں وہ دوڑ کر ان سے لپٹ گئی۔ ماما نے اسے مٹی اور کیچڑ میں لت پت دیکھا تو پریشان ہوگئیں ، اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو گومڑ پر جا لگا ، گلو زور سے رونے لگی اور روتے روتے ماما کو سارا قصہ سنا دیا۔ ماما نے اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار کیا اسے تسلی دی ، اس کا منہ ہاتھ دھلا کر صاف کیا اور اس کے سر کی گرم کپڑے سے سکائی کی ۔ پھر اسے دودھ میں ہلدی ڈال کر پلائی اور تھپک کر سلا دیا۔ صبح تک گلو ٹھیک ہو چکی تھی اور سب کچھ بھول بھال کر پھر سے اچھل کود کر رہی تھی۔

۔۔۔۔۔

چند دنوں کے بعد اپنی فطرت کے مطابق وہ اس قصے کو بھول چکی تھی۔ ایک دن اس کی ماما نے گھر سے جاتے ہوئے کہا : ”گلو ! میں کھانے کی تلاش میں جا رہی ہوں ، تمہارے بابا دوسرے جنگل گئے ہیں ، میری غیر موجودگی میں گھر سے باہر نہ جانا، کیونکہ آج موسم کے آثار ٹھیک نہیں بارش اور تیز ہوا چلنے کا امکان ہے۔“

گلو نے اس وقت تو سر ہلا دیا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اس کا دل چاہا کہ وہ تالاب کے کنارے لگے اخروٹ کے درخت پر جا کر اخروٹ کھائے۔ وہ ان کا خاندانی درخت تھا کیونکہ اس کی دادو نے وہاں اخروٹ چھپائے تھے اور عادت کے مطابق بھول گئیں تھیں۔ انہیں اخروٹ کے بیجوں سے وہ پھوٹ کر نکلا تھا۔

گلو گھر سے نکلی، اچھلتی کودتی ، چھلانگیں لگاتی، دُم لہراتی ، وہ جنگل کے دوسرے کنارے بنے تالاب تک پہنچ گئی اور اخروٹ کے درخت سے نرم نرم اخروٹ ڈھونڈ کر کھانے لگی۔ واپسی پر اس نے دو اخروٹ ہاتھ میں پکڑ لیے، آتے ہوئے اسے ایک درخت میں کھوہ نظر آئی تھی ، وہ انہیں وہاں چھپانا چاہتی تھی تاکہ کچھ دن بعد نکال کر کھا لے۔ اکا دکا بادل اکھٹے ہو رہے تھے ، اس نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو سورج میاں منہ چھپاتے دکھائی دئیے۔ ہائے الله! آج پھر بارش ہوگی، اس نے سر پر ہاتھ مارا، گومڑ میں ہلکی سی درد ابھی باقی تھی۔

۔۔۔۔

مجھے فورا گھر چلے جانا چاہیے۔ اس نے سوچا، درخت سے نیچے اتری اور اپنے گھر کی طرف دوڑنے لگی، راستے میں کھوہ نظر آئی ، گلو نے جلدی جلدی اخروٹ اس میں چھپا دئیے اور چھلانگیں لگاتی آگے بڑھنے لگی، ابھی آدھے راستے میں تھی کہ بجلی چمکی ، بادلوں نے زور سے ڈھول بجایا اور اپنے اپنے فوارے کھول دئیے، پانی ٹپ ٹپ برسنے لگا۔ اس کی دُم بھیگ گئی ، چلنا مشکل ہو گیا، جلدی میں چلتے ہوئے ، راستے میں گڑے پتھر سے ٹھوکر لگی۔

اف! اس کے منہ سے نکلا، پاؤں میں شدید درد کی ٹھیس اٹھی، اسی وقت بارش سے بچنے کے لیے، درخت کی اوٹ میں بیٹھی بلی کی آواز سنائی دی: ”ڈرنے کی کوئی بات نہیں، ہمت کرو! سامنے دیکھ کر قدم بڑھاؤ اور اپنی دُم کو اٹھا کر سر پر رکھ لو،“ یہ سنتے ہی اس میں طاقت بھر گئی اس نے دم اٹھا کر سر پر رکھ لی، چوکنا ہوکر بی بلی کی طرف دیکھا اور اعتماد سے قدم بڑھانے لگی۔ ”شاباش ! ننھی گلہری! شاباش!“ اسے بلی کی آواز سنائی دی، وہ اور تیزی سے بھاگنے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ گھر پہنچ گئی، اگرچہ وہ ساری کی ساری بھیگ چکی تھی اور اس کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا، لیکن دانا دشمن کی حوصلہ افزائی نے اس کی ہمت بڑھا دی۔

گلو اطمینان سے بیٹھ کر اپنا زخم صاف کرنے لگی، گھر پہنچنے کی خوشی میں وہ ہر تکلیف بھول چکی تھی۔
۔۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
E719128-B-1362-41-E8-BFF6-FC9-ED85-E58-F4.jpg
 
Top