گالی۔۔۔۔۔نظم برائے اصلاح

شیرازخان

محفلین
گالی

ہم سوچ کر یہ رک گئے
یوں رونگٹے بھی اٹھ گئے
ہم بولتے ہیں جانے انجانے میں جنہیں
جو گالیاں سب عام ہیں ، سوچا کبھی؟
اللہ کرے ان کا نہ کوئی ترجمہ ہی کر سکے
وہ ایک عورت جس کو ہم نے ماں کہا
میٹھی زباں سے دیکھیے جس نے سکھایا بولنا
ماں بہن، بیٹی اور پھر بیوی ہو کر
ہر روپ میں عورت وہی رحمت بنی
ہم ظالموں نے کیا کیا
جن سے زباں بھی کانپنے لگ جائے وہ
ہر طرح کی سب گالیاں
ایجاد ہیں جتنی بھی کیِں
توہین سب میں اس کی ہے۔۔۔۔۔
منسوب ساری اس سے کیں۔۔۔۔


@ الف عین
 

الف عین

لائبریرین
خیال خوب ہے۔ اور یہ خوشی ہوئی کہ اب مختلف تعداد کے اراکین لے رہے ہو۔
یوں رونگٹے بھی اٹھ گئے
۔۔رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں، اٹھتے بیٹھتے نہیں

ہم بولتے ہیں جانے انجانے میں جنہیں
۔۔۔جنہیں میں ہ یا ھ کی تقطیع نہیں ہوتی۔ یہاں ’جن کو‘ کہا جائے۔
وہ ایک عورت جس کو ہم نے ماں کہا
میٹھی زباں سے دیکھیے جس نے سکھایا بولنا
ماں بہن، بیٹی اور پھر بیوی ہو کر
÷÷بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ ’ایک عورت‘ میں ایک بھرتی کا ہے، اور اگلے مصرع میں ’دیکھے‘ بھی
تیسرے مصرع کے اراکین گڑبڑ ہیں، ماں کا ذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے، زمانی طور پر بیوی پہلے ہونی چاہئے اور بیٹی بعد میں

ہر طرح کی سب گالیاں
ایجاد ہیں جتنی بھی کیِں
توہین سب میں اس کی ہے۔۔۔ ۔۔
منسوب ساری اس سے کیں۔۔۔ ۔

یوں کہو تو بہتر ہے

وہ ہر طرح کی گالیاں
ایجاد جو بھی کی گئیں
منسوب ساری اس سے ہیں
توہین اس کی سب میں ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
ماں بہن، بیٹی اور پھر بیوی ہو کر

پھر سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ عورت کے مختلف روپ میں دی گئی ترتیب ہے ماں بہن اور بیٹی ہونے کے بعد پھر بیوی ہوتی ہے؟؟؟
 
Top