ناسخ کیوں نہ خاموشی خوش آوے بلبلِ تصویر کی - امام بخش ناسخ

حسان خان

لائبریرین
کیوں نہ خاموشی خوش آوے بلبلِ تصویر کی
لطف کیا میری طرح گر آہِ بے تاثیر کی
عاشقوں سے ہے کڑی بات اُس بتِ بے پیر کی
کاکلِ پیچاں سے آتی ہے صدا زنجیر کی
جوئے خوں جاری کرے خواہش ہے یہ تقدیر کی
کوہکن کیوں تو نے جوئے شِیر کی تدبیر کی
بہرِ روزی ہے عبث گردش جوان و پیر کی
کس نے طفلی میں بھلا تدبیر کی تھی شِیر کی
دم میں تیرے پنجۂ سیمیں کو زریں کر دیا
اب حنا کے سامنے ہے خاک قدر اکسیر کی
تو نے پائی زلفِ مشکیں شمع نے پایا دھواں
تجھ کو ہے مقراض کی حاجت اُسے گلگیر کی
پیشتر آنے سے باہر جاؤں مارے شوق کے
روزِ وعدہ اس لیے آنے میں کچھ تاخیر کی
اس قدر جوشِ جنوں نے مجھ کو لاغر کر دیا
ہتکڑی کے بدلے کافی ہے کڑی زنجیر کی
کر دیا غم نے لہو پی پی کے اس درجہ سپید
سادے کاغذ میں شباہت ہے مری تصویر کی
خواب اس غفلت کدے میں اب جو آتے ہیں نظر
فکر کرنی ہے لحد میں ایک دن تعبیر کی
آج بارے جا پڑی تیری نگہ، پائی مراد
آرزو مدت سے تھی قوسِ قزح کو تیر کی
لگ چلے گلشن میں گر اُس سروِ سیم اندام سے
ہو چمک موجِ ہوا میں نقرئی زنجیر کی
خاکِ راہِ یار جیتے جی ملے ممکن نہیں
خاک میں مجھ کو ملا دے گی ہوس اکسیر کی
تیرے ابروئے خمیدہ سے کہاں او نوجواں
جھک گئی ہے کہنہ ہونے سے کمر شمشیر کی
گر چھڑانا ہے تجھے پھاہا ہمارے داغ کا
پہلے کر لے فکر اے جراح آتش گیر کی
سوزِ غم سے اس قدر جلتا ہوں میں ہنگامِ قتل
پڑ گئے چھالے، جلی خوں سے زباں شمشیر کی
طاقِ ابروئے صنم جس دم نظر آیا مجھے
ایک مسجد بس وہیں راہِ خدا تعمیر کی
دانت تیرے دیکھتے ہی ہو گیا ناسخ شہید
ہائے کیا ان موتیوں میں آب ہے شمشیر کی
(امام بخش ناسخ)
 

طارق شاہ

محفلین
بہرِ روزی، ہے عبث گردِش جوان و پیر کی !
کِس نے طِفلی میں بَھلا تدبِیر کی تھی شِیر کی
پیشتر آنے سے، باہر جاؤں مارے شوق کے!
روزِ وعدہ اِس لیے آنے میں کچھ تاخیر کی
کیا کہنے!
شکّرشیئرکرنےپر ، بہت خوش رہیں
 
Top