کیسے اس رنگ میں غزل کہو گے...برا ئے اصلاح

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک بے تکی غزل (جو واقعی بے تکی ہے) برائے اصلاح

زندگی کی عجب سزا ہو تم​
سزا یا دردِ لادوا ہو تم​
کیسے ہم دونوں ساتھ ساتھ رہیں گے​
مجھ کو لگتا ہے بے وفا ہو تم​
یا تو میں کچھ بھی سن نہیں سکتا​
یا ہو سکتا ہے بے نوا ہو تم​
سوچ لو! مجھ سے دُور مت جاؤ​
مری جاں! میرا آسرا ہو تم​
"تم ہو پہلو میں پر قرار نہیں" (یہ مصرع جون ایلیا کا ہے)
سمجھ آتا نہیں کہ کیا ہو تم​
کسی غنیمت سے کم نہیں ہو تم​
خواب، خوشبو، گُلِ صبا ہو تم​
تم میں خود کو نظر میں آتا ہوں​
دیکھ لو! میرا آئینہ ہو تم​
بے نشاں حسرتوں کی حسرت ہو​
اس کا مطلب ہے بے ریا ہو تم​
میری کشتی کو پار تم لگا دو​
میری کشتی کے نا خدا ہو تم​
کیسے اس رنگ میں غزل کہو گے​
کیا نئے جون ایلیا ہو تم​
 
کیسے ہم دونوں ساتھ ساتھ رہیں گے

بے وزن. "گے" زیادہ ہے.

یا ہو سکتا ہے بے نوا ہو تم

ہو سے واؤ گرنا غلط ہے. اس لئے بے وزن.

کسی غنیمت سے کم نہیں ہو تم

یہ بھی بے وزن.

خواب، خوشبو، گُلِ صبا ہو تم

گلِ صبا سے مراد سمجھ نہیں آئی.,


میری کشتی کو پار تم لگا دو

لگا کا الف گرنا بھی غلط ہے. اور اگر نہیں گرے تو مصرع وزن سے خارج.

آخری شعر میں بھی پہلا مصرع وزن سے خارج ہے. کیونکہ "کہو" سے واؤ گرنا بھی مجھے مناسب نہیں لگا. مزید انتظار کرلو اساتذہ کا.
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں بھی غلطی ہے، سزا کا الف کہاں جا رہا ہے؟ ساز تقطیع ہو رہا ہے بجائے سزا کے۔ یہ بر وزن فعو ہے، نہ کہ فعل۔ باقی بسمل نے لکھ ہی دیا ہے۔ مزید دیکھتا ہوں بعد میں
 
Top