حسان خان
لائبریرین
کیا کہیے کہ ہے سوزشِ داغِ جگر ایسی
سنتا نہیں وہ غیرتِ شمس و قمر ایسی
کوشش کا ارادہ ہے رہِ مہر و وفا میں
پھر کھل نہ سکے باندھیے کس کر کمر ایسی
پیری میں جلاتا ہے جو دل داغِ جوانی
پنبے سے بھی گرمی نہیں کرتا شرر ایسی
نازک ہے رگِ گل سے فزوں، بال سے باریک
دیکھی نہیں البتہ سنی ہے کمر ایسی
مشکل ہوئی ہے روح کو قالب سے جدائی
چھٹتی ہی نہیں لپٹی ہے گردِ سفر ایسی
کیونکر نہ مرا شعر ہو عالم کی زباں زد
مشہور بہت ہوتی ہے جھوٹی خبر ایسی
بیدار ہوں منہ دیکھ کے اُس مہر لقا کا
وہ شام کہاں ہے جو دکھائے سحر ایسی
ہووے نہ صفا میں ترے دانتوں کے مقابل
پیدا تو کرے قدر و شرافت گہر ایسی
کیا سینہ اُس ابرو سے بچا سکتا ہے دل کو
شمشیرِ قضا روکے نہیں ہے سپر ایسی
زلفوں کی طرح تا کمرِ یار پہونچتی
اے کاش رسا ہوتی یہ عقلِ بشر ایسی
محبوب نہیں باغِ جہاں میں کوئی تجھ سا
بو رکھتا ہے گل ایسی نہ لذت ثمر ایسی
تیرے لبِ لعلیں کا نہیں سہل پرکھنا
وہ جوہری ہے جس کو خدا دے نظر ایسی
دنیا کی نہ ہے فکر نہ عقبیٰ کا تردد
آتش کہو آئی ہے طبیعت کدھر ایسی
(خواجہ حیدر علی آتش)
× ایک نسخے میں چوتھے شعر کا مصرعِ اول یوں درج ہے:
باریک رگِ گل سے فزوں، بال سے نازک