کیا پھراتحاد ممکن ہے؟

قمراحمد

محفلین
کیا پھراتحاد ممکن ہے؟
علی سلمان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


پاکستان میں سیاست کی گاڑی ایک ایسے عجیب موڑ پر آن رکی ہے جہاں حکمران پارٹی اپوزیشن کو غیرمشروط طور پر اقتدار کا حصہ دینا چاہتی ہے جبکہ حزب اختلاف اس پیشکش سے جان چھڑانے کے راستے ڈھونڈ رہی ہے۔

اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ نون اقتدار میں شراکت کا بھاری پتھر چوم کر واپس رکھ چکی ہے اور اب اسے دوبارہ اٹھانے کو تیار نہیں ہے جبکہ حکمران پیپلز پارٹی چاہتی کہ موجودہ سنگین حالات میں مشکل یا غیر مقبول فیصلوں کا بارگراں مسلم لیگ نون اس کے ساتھ ملکر اٹھائے۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اوروزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے درمیان ملاقات اس وعدے پر ختم ہوئی ہے کہ بہت جلد نوازشریف سے مشاورت
کے بعد وفاقی کابینہ میں شمولیت کے بارے میں جواب دیا جائے گاحالانکہ نواز شریف انکار کی صورت میں یہ جواب ایک روز پہلے ہی رائے ونڈ میں پارٹی کارکنوں کے ایک اجتماع میں دے چکے تھے۔

اب نواز شریف دوبئی میں ہیں اور وہ لوٹیں گے تو بات آگے چلے گی۔ توقع ہے کہ آئندہ دو تین روز میں نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والے مسلم لیگ نون کے مجلس عاملہ کے اجلاس میں پارٹی ایک بار پھر اپنا فیصلہ سنائے گی۔

مسلم لیگ نون کی مجلس عاملہ کے بیشتر اراکین وفاقی حکومت میں شمولیت کے خلاف ہیں۔ مجلس عاملہ کے ایک رکن شفیق خان سے پوچھا گیا کہ آخر مسلم لیگ نون وفاق میں وزارتیں لینے سے کیوں کترا رہی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ صدر آصف زرداری اور ان کی ٹیم میں لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، امریکی حملوں اور شدت پسندی جیسے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت دکھائی نہیں دیتی۔ان کے بقول مسلم لیگ نون کو ان مسائل میں ناکامی کی بدنامی میں شراکت داری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
مسلم لیگی حلقوں کے مطابق وفاقی حکومت میں شامل ہونے کا دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ پیپلزپارٹی پنجاب کابینہ میں شریک ہوجائے گی جبکہ مسلم لیگ نون بلا شرکت غیرے پنجاب میں حکمرانی کے پانچ برس پورا کرنا چاہتی ہے۔

مسلم لیگیوں کا خیال ہے کہ ان پانچ سالوں کے بعد اگلے انتخابات میں صوبے کے علاوہ مرکز کی حکومت بھی ان کے ہاتھ آجائے گی اور یوں وہ حکمرانی کے طویل عرصے سے مستفید ہوسکیں گے۔

مسلم لیگیوں کا تجزیہ اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ایک طرف غیرمقبول فیصلے پیپلز پارٹی کو پاتال میں لے جاتے رہیں گے اور دوسری طرف شریف بردران بزور حکمرانی پنجاب میں تھانے کچہری سے متاثر ہونے والی دیہی سیاست پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرلیں گے۔

مسلم لیگ نون کی کوریج کرنے والے لاہور کے ایک اخبار نویس امجد محمود کا کہنا ہے کہ یہ پارٹی پھول چننا چاہتی ہے تاکہ کانٹے صرف پیپلز پارٹی کے حصے میں آئیں۔

پاکستان کے موجودہ حالات میں حکومت کرنا پل صراط پر سے گذرنے کے مترادف ہے۔ دہشت گردی اور اقتصادی بدحالی دو ایسے چلینج ہیں جن سے عہدہ براہ ہونا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔

نواز شریف اس بات کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ ملک ایسے نازک دور سے گذر رہا ہے جہاں پیپلز پارٹی سے تعاون ناگزیر ہے لیکن وفاقی کابینہ میں شامل ہونے کے لیے ساز گار حالات ان کی شرط ہے اور اس کے لیے سترہویں ترمیم کے خاتمے کا کڑوا گھونٹ پینا آصف زرداری کے لیے لازمی ہے۔

بعض سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ اب وفاقی کابینہ میں شامل نہ ہونے کے لیے شریف بردران کے پاس کوئی سیاسی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔ان مبصرین کے بقول نوازشریف نےججوں کی بحالی کے نکتے پرکابینہ سے علیحدگی اختیار کی تھی یہ اعتراض ختم ہوچکا اور عدالتی نااہلی کی معطلی اور پنجاب حکومت کی بحالی کے بعد مزید مطالبے پیش کرنا حجت بازی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

مسلم لیگ قاف کے سیکرٹری اطلاعات کامل علی آغا نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ نورا کشتی اور مفاہمت کے نام پر مفادات کی جنگ ہے اور بہت جلد دنوں پارٹیوں کی اصلیت کھل کر عوام کے سامنے آجائے گی۔

اب صورتحال یہ ہے کہ حکمران پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نون کے بازو پکڑ پکڑ کہہ رہی ہے کہ وفاقی کابینہ میں شامل ہوجاؤ اور مسلم لیگ نون آگے آگے بھاگ رہی ہے۔

سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے ہوسکتا ہے کہ عوام چودھری نثارعلی خان کی معیت میں چند مسلم لیگی وزیروں کو صدر آصف زرداری سے ٹی وی پر براہ راست حلف لیتے دیکھیں لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اول تو یہ منظر دکھائی دینا بہت مشکل ہے اوراگر ایسا ہوا بھی تو پھر یہ اتحاد صرف ٹوٹ جانے کے لیے بنے گا۔
 
Top