کیا ضیا الحق واقعی مر چکا ہے؟

جاسم محمد

محفلین
کیا ضیا الحق واقعی مر چکا ہے؟
05/07/2020 سید مجاہد علی



اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے سوال پر اٹھنے والے تنازع کی روشنی میں فطری طور سے پوچھا جانا چاہئے کہ ضیا الحق کیا واقعی وفات پاچکے ہیں۔ کسی شخص کے جسد خاکی کے مٹی میں ملنے سے شاید کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ انسانی بنیاد پر ایسا کوئی بھی سانحہ قابل افسوس ہے۔ البتہ 5 جولائی کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے والے ضیا الحق نے ملک پر گیارہ برس حکومت کے دوران جو سیاسی اور سماجی مزاج استوار کیا تھا، وہ بدستور زندہ ہے اور اہل پاکستان کے حقوق سلب کرنے کی بنیاد بنا ہؤا ہے۔

ضیا الحق کی فوجی آمر یت کا سلسلہ 5 جولائی 1977 کو شروع ہؤا اور ایک فرد کے طور پر وہ 17 اگست 1988 کو طیارہ حادثہ میں جان سے گئے۔ تاہم ان گیارہ برس کے دوران شروع کی گئی مذہبی انتہا پسندی کا عروج اور سیاست میں عسکری اداروں کی بالادستی یا بلا شرکت غیرے دسترس سے ملک میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں، انہوں نے ضیاالحق کی سوچ اور طریقہ کار کو بدستور زندہ رکھا ہے۔ 33 سال پہلے ضیا الحق کا جہاز ایک دھماکہ میں تباہ ہؤا۔ مسافروں کے جسم ریزہ ریزہ ہوکر دور دور تک بکھر گئے۔ یہ ایک فرد کی حکمرانی کا خاتمہ تو ضرور تھا لیکن مذہبی استحصال اور سیاسی مقاصد کے لئے عوام کے عقائد کو بروئے کار لانے کے طریقہ کو اس کے بعد تناور درخت کی صورت حاصل ہوگئی ۔ اب اقلیتوں کے حقوق مسترد کرنا ہوں، احمدیوں کی معاشرہ میں کم تر حیثیت کو جائز سمجھنا ہو، سیاسی منظر نامہ پر تبدیلی کے لئے ختم نبوت کے نام پر دھرنا دینا ہو یا توہین مذہب کے نام پر ذاتی انتقام کے لئے متعصبانہ قانونی شقات کا استعمال کرنا ہو، ضیا الحق کے نظریات پوری قوت سے حاوی ہونے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ناجائز طور سے دی گئی پھانسی کو عزیمت سے قبول کرکے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنا نام امر کروا لیا۔ پھانسی کی سزا کے بارے میں اس بنچ میں شامل جج بھی شبہات کا اظہار کرچکے ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی متفقہ قرار داد میں بھٹو کو دی گئی سزائے موت کو انصاف کا قتل قرار دے چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں سپریم کورٹ میں اس مقدمہ پر نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کی جاچکی ہے لیکن ایک دہائی سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود ملک کی آزاد عدلیہ اس کلنک کو اپنے اور قوم کے ماتھے سے دھونے کا اہتمام نہیں کرسکی۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ صرف یہ کہ جنرل ضیا الحق کا جسم پرزے پرزے ہو کر فضا میں ضرور بکھر گیا لیکن آئین کو نظر انداز کرنے اور قانون کو سیاسی مقاصد کاہتھکنڈا بنانے کے بارے میں ان کا تصور آج بھی زندہ ہے۔

نئے پاکستان کی خود مختار اور آزاد عدلیہ نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کے باوجود ماورائے آئین اقدامات کو پرکھنے یا طاقت کے زور پر کروائے گئے فیصلوں کو مسترد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی یا اس کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ ایسا نہیں ہے کہ بھٹو کیس پر نظر ثانی کی درخواست کے ذریعے اہل پاکستان کوئی انوکھی خواہش سامنے لارہے ہیں ۔ دنیا بھر سے ایسی درجنوں مثالیں تلاش کی جاسکتی ہیں کہ عدالتوں نے سال ہا سال کے بعد کسی سزا کے بارے میں نئے شواہد کو پرکھا اور سزا یافتہ کو بے قصور قرار دیتے ہوئے اس کے نام پر لگے ہوئے دھبے کو دھونے کی کوشش کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی سزائے موت سے صرف ایک فرد کے حقوق مجروح نہیں ہوئے بلکہ طاقت کے زور پر ججوں سے مرضی کا فیصلہ لے کر پورے عدالتی نظام کو یرغمال بنایا گیا۔ ہمارے جج من پسند معاملات میں سو موٹو نوٹس لیتے ہوئے اسے بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ قرار دیتے ہیں اور پھر سماعت کے دوران ریمارکس کی صورت میں بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ فیض آباد دھرنے کی صورت میں اگر وردی پوش، منتخب حکومت کے خلاف سازش کا ارتکاب کریں اور ایک جج حوصلہ کرکے اس طریقہ کو ملکی آئین کے خلاف قرار دینے کا اعلان کردے تو اسے خود کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے دس ججوں نے جو مختصر فیصلہ صادر کیا ہے اس میں فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دینے کے باوجود جوابدہی کی ذمہ داری ان کے خاندان پر ڈالی گئی ہے۔ گویا مسز قاضی فائز عیسیٰ سے ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے کہا گیا ہے جو ججوں کے اپنے حکم کے مطابق صدر مملکت کو بھی پوچھنے کا حق نہیں تھا ۔ قانون دان کہتے ہیں کہ ملکی قانون کے مطابق کوئی عدالت ایسا حکم جاری نہیں کرسکتی ۔ تاہم پاکستان میں لاقانونیت ہی بظاہر قومی مفاد کی حفاظت کا واحد طریقہ بن چکی ہے۔ اسی طریقہ کو سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے بھی اختیار کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی بوالعجبی کو قانون فطرت بنانے کا سہرا جنرل ضیا الحق کے سر باندھا جاسکتا ہے۔ وہ آئین کو کاغذوں کا ایسا پلندہ قرار دیتے تھے جسے وہ لمحہ بھر میں پھاڑ کر پھینک سکتے تھے۔ یہی طریقہ اس وقت ملکی انتظام میں رہنما اصول بن چکا ہے اور خود مختار عدلیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

ملک میں نام کی حد تک جمہوری حکومت ہے۔ 2018 کے انتخابات اور اس کے بعد آزاد ارکان اور چھوٹی پارٹیوں کو جس طرح گھیر کر عمران خان کی حمایت میں لانے کا اہتمام کیا گیا ، وہ کسی کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔ موجودہ حکومت اور وزیر اعظم پر ’نامزد‘ کی پھبتی کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ جن اداروں پر یہ کارنامہ سرانجام دینے کا الزام عائد ہوتا ہے ، وہ اس کی تردید کرنے یا اس طریقہ کو ترک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ گویا عدالت عظمیٰ میں جس آئینی بالادستی کا غلغلہ سننے میں آتا ہے ، اس کی حیثیت بس اتنی ہے کسی جے آئی ٹی کی ہدایت پر منتخب وزیر اعظم کو معزول کرنا ہو تو قانون و آئین کو افسانوی کرداروں کی مثال دیتے ہوئے بالادست قرار دیا جائے۔ یا کسی مشکوک کردار کے لیڈر کے لئے امانت و صداقت کا سرٹیفکیٹ جاری کرنا ہو تو اس پر سپریم کورٹ کا ٹھپہ لگا دیا جائے۔ کیوں کہ اس لیڈر کو قوم کا مسیحا بنا کر پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ قومی احیا کے ایسے منصوبے بنانے والوں کے پاس آئین کی موشگافیاں جاننے کی فرصت نہیں ہوتی اور جس عدلیہ کو آئین کی تشریح کرنا ہے، وہ ماضی کے سایے میں ہی سانس لے سکتی ہے۔ ضیا الحق کا بھوت تاریکی عام کرنے والے اس عمیق سایے کا جواز ہے۔

ضیا الحق نے ملک کو دو تحفے دیے۔ آج تک امانت سمجھ کر ان تحائف کی حفاظت کی گئی ہے۔ پھر ضیا کیسے مر سکتا ہے۔ پہلا تحفہ مذہب کے نام پر سیاست اور انتہائی جذبات کو فروغ دینا ہے۔ تیس برس تک دہشت گردی کا سامنا کرنے کے باوجود یہ نظام اور اس نظام کے رکھوالے ضیا کے اس تحفہ کو دفن کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ بھارت میں مودی حکومت کے سخت گیر رویہ اور افغانستان میں امن کے لئے امریکی ضرورت کے ماحول میں انتہاپسندی کے کچھ ہتھیاروں کو مال خانے میں ضرور جمع کروایا گیا ہے لیکن سیاست دان یا مذہبی لیڈر سیاست میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کو بظاہر موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج کی وجہ بنایا جارہا ہے لیکن اس کی بنیاد میں ضیا ڈاکٹرائن ہی کارفرما ہے۔ یہ وہی رویہ ہے جو توہین مذہب کے قانون کو اقلیتوں کے خلاف تشدد کے لئے استعمال کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے یا ذاتی انتقام کا مقصد پورا کرتا ہے۔

ضیا الحق کا دوسرا تحفہ آئین شکنی ہے۔ انہوں نے پاکستانی آئین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ، آج تک اس سے گریز کا کوئی راستہ تلاش نہیں کیا جاسکا۔ یہ طریقہ عوامی انتخاب کی بجائے ’قومی ضرورت‘ کو ترجیح دینے کا اصول ہے۔ پاکستان میں اس وقت اسی اصول کو بالادستی حاصل ہے۔ آئین کو تبصرے کرنے، تقریر کا موضوع بنانے یا نعرہ لگانے کی حد تک استعمال کرنا جائز ہے لیکن اس پر عمل درآمد کی بات کرنا ملکی مفاد سے غداری قرار دی جاتی ہے۔ اسی لئے پشتون تحفظ موومنٹ ہو یا بلوچستان میں حقوق کی بات کرنے والے گروہ یا لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے کا مطالبہ، قومی مفاد کے خلاف قرار دے کر ان سب آوازوں کا راستہ روکنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کوئی قانون یا عدالت آئینی حق مانگنے والے مظلوموں کی داد رسی نہیں کرسکتی۔

ضیا الحق نے جو رویہ جونیجو حکومت کے ساتھ اختیار کیا تھا ، آج کے بالادست عمران خان کو اسی کا مستحق مانتے ہیں۔ پہلے انگلی پکڑ کر انہیں اقتدار دیا گیا پھر انہیں تقریروں پر لگا کر اختیارات پر کل تصرف حاصل کرلیا گیا۔ آج کی پارلیمنٹ ضیا کے دور میں قائم کی گئی مجلس شوریٰ سے زیادہ بااختیار نہیں ہے۔ آج بھی ایوان میں وہی خاندان بالادست ہیں جو اپنی وفاداریوں کی قیمت وصول کرکے تابعداری کا اعلان کرتے ہیں۔ قیمت آنکنے اور ادا کرنے میں فراخدلی کا مظاہرہ بھی پہلے جیسا ہی ہے۔ حتی کہ کابینہ میں کرسیوں کی رونق بڑھانے والے بھی وہی یا ان کی اولادیں ہیں جنہوں نے ضیا کے بعد پرویز مشرف سے آئین کو قومی مفاد کا اسیر کرنے کا طریقہ سیکھا اور اسے ذاتی سرخروئی کا سبب بنا لیا۔

ضیا الحق نے 5 جولائی 1977 کو صرف چار سال قبل نافذ کئے 1973 کے آئین کو منسوخ کیا تھا ۔ آئین آج بھی سنگینوں کے سائے میں محو استراحت ہے۔ جب تک ملک میں آئینی بالادستی قائم نہیں ہوتی، ضیا الحق زندہ رہے گا۔
 
Top