کیا سائنس بتا سکتی ہے؟

دیوان

محفلین
1) میں سوچتا ہوں کہ کیا سائنس نے کائنات کے بارے میں ہر چیز معلوم کرلی ہے؟ اگر ہاں کہوں تو پھر کیا اب سائنس میں مزید ترقی نہیں ہوسکتی؟ اگر کہوں نہیں تو پھر ایک نامکمل معلومات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنا عقلمندی کیسے ہے؟ میں سوچتا ہوں۔
2) میں سوچتا ہوں کہ کیا سائنس کائنات میں جاری قوانین بتاتی ہے یا بناتی ہے؟ سائنس تو صرف بتاتی ہے تو کیا سائنس ایک ادھورا، ناکافی علم ہے؟ میں سوچتا ہوں۔
3) میں سوچتا ہوں کہ سائنس یہ تو بتاسکتی ہے کہ آج بارش ہوگی یا نہیں لیکن کیا سائنس برستی بارش روک سکتی ہے؟ کیا سائنس سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال سکتی ہے؟ کیا سائنس ناکافی علم ہے؟ میں سوچتا ہوں۔
4) میں سوچتا ہوں کہ اس دنیا میں میرے وجود کے ہونے میں میرا کوئی دخل و اختیار نہیں اور میرے خاتمے میں بھی میرا کوئی دخل و اختیار نہیں تو سائنس بتا سکتی ہے کہ ان دو بے اختیاریوں کے درمیان کی زندگی میں اختیار کہاں سے آگیا؟ پھر اس اختیار کے ہوتے ہوئے بھی میں کئی بار بے اختیار ہوجاتا ہوں ایسا کیوں ہے، سائنس بتا سکتی ہے؟ میں سوچتا ہوں۔
5) پاکستان میں پیدا ہونے والا پاکستانی کیوں اور امریکہ میں پیدا ہونے والا امریکی کیوں جب کہ کون کہاں پیدا ہوتا ہے وہ اس کے اختیار سے باہر ہے۔ آخر ایک غیراختیاری عمل کو انسانوں کی تقسیم کی بنیاد کیوں بنایا جائے؟ کیا سائنس اس کی وضاحت کرسکتی ہے؟ میں سوچتا ہوں۔
6) کیا سائنس بتا سکتی ہے کہ (survival of the fittest) بقائے اصلح کا قانون (بقا صرف فائدہ مند یا طاقتور کے لیے) انصاف پر مبنی ہے یا ظلم پر؟ انصاف پر کیسے کہوں جب کہ کمزور کا فنا ہونا لازمی ہے! میں سوچتا ہوں۔
7) کیا سائنس بتاسکتی ہے کہ زندگی کا نظام انصاف پر مبنی ہے یا ظلم پر؟ اگر کہوں کہ انصاف پر تو ہر طرف ناانصافیاں کیوں ہیں؟ اگر کہوں کہ ظلم پر تو پھر قانون بقائے اصلح (survival of the fittest) (بقا صرف فائدہ مند کے لیے) نے کیوں ظلم کو آگے بڑھایا جب کہ انسانوں کا فائدہ انصاف میں ہے؟ میں سوچتا ہوں۔
۸) کیا سائنس بتا سکتی ہے کہ اس دنیا میں شر (ظلم، زیادتی، قتل و غارت، بیماریاں، آفات وغیرہ) کیوں ہیں؟ میں سوچتا ہوں۔
9) میں سوچتا ہوں کہ کیا ایجاد کے لیے زندگی ضروری نہیں ہے؟ پھر میں سوچتا ہوں کہ کیا ایجاد کے لیے عقل و شعور ضروری نہیں ہے؟ اگر جواب میں کہوں ہاں دونوں ضروری ہیں تو پھر وہ ’’اتفاق‘‘ جس کے نتیجے میں زندگی جیسی پے چیدہ (complex) چیز ایجاد ہوگئی تو کیا وہ ’’اتفاق‘‘ زندگی سے مزین تھا، عقل و شعور رکھتا تھا؟ اگر کہوں نہیں تو پھر زندگی جیسی پے چیدہ چیز؛ بے جان اور بے عقل و بے شعور ’’اتفاق‘‘ سے کیسے وجود میں آگئی؟ کیا سائنس بتاسکتی ہے، میں سوچتا ہوں۔
10) کیا سائنس بتا سکتی ہے کہ اس دنیا میں تدریج کیوں ہے؟ آخر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ادھر بیج ڈالا ادھر درخت اگا ادھر پھل آگیا؟ میں سوچتا ہوں۔
11) میں سوچتا ہوں کہ کیا سائنس بتا سکتی ہے کہ خود قانون ارتقاء (Theory of Evolution) عقلمند اور باشعور (intelligent) ہے یا غیرعقلمند، بے شعور؟ اگر کہوں کہ غیر عقلمند بے شعور تو پھر انسان جیسی عقل و شعور رکھنے والی چیز ایک بے عقل بے شعور عمل سے کیسے وجود میں آگئی؟ اگر کہوں کہ عقلمند تو پھر یہ انسانوں میں سمجھ و عقل کے اعتبار سے فرق کیوں ہے، ایک کو دوسرے پر فوقیت کیوں حاصل ہوتی ہے، ایک باپ اور ماں کے دو بیٹے ہر اعتبار سے بالکل مختلف کیوں ہوتے ہیں؟ عقل کا تقاضا ہے کہ سب برابر ہوں۔
12) کیا سائنس بتاسکتی ہے کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ آتی جاتی سانس زندگی نہیں یہ تو زندگی کی علامت ہے نہ کہ زندگی کی حقیقت۔ میں سوچتا ہوں۔
13) کیا سائنس بتا سکتی ہے کہ موت کی حقیقت کیا ہے؟ آدمی کی سانس نہ چلے تو یہ موت ہے لیکن سانس کا نہ ہونا موت کی علامت ہے نہ کہ موت کی حقیقت۔ میں سوچتا ہوں۔
14) کیا سائنس بتا سکتی ہے کہ کوئی انسان نیکی کیوں کرے برائی سے کیوں بچے؟ میں سوچتا ہوں۔
15) کیا سائنس بتا سکتی ہے کہ اچھائی کیا ہے، برائی کیا ہے؟ اچھائی کا پیمانہ کیا ہے، برائی کا پیمانہ کیا ہے؟ میں سوچتا ہوں۔
16) میں سوچتا ہوں کہ اچھا انسان کون ہے اس کا پیمانہ کیا ہے؟ اچھا انسان ہونا کیوں ضروری ہے؟ کیا سائنس بتا سکتی ہے میں سوچتا ہوں۔
17) اچھا کام کرکے انسان خوش کیوں ہوتا ہے اور برائی کر کے ضمیر کی خلش کیوں محسوس کرتا ہے۔ کیا سائنس بتا سکتی ہے میں سوچتا ہوں۔
1۸ ) ضمیر جیسی باشعور چیز کس طرح میرے وجود کا حصہ بنی جب کہ میں ایک بے عقل و بے شعور ’’اتفاق‘‘ کا نتیجہ ہوں؟ پھر میں سوچتا ہوں۔
19) میں سوچتا ہوں کہ میرے وجود کا کوئی مقصد ہے؟ اگر کہوں کوئی مقصد نہیں تو میں سوچتا ہوں کہ میرے جسم کا ہر حصہ ایک مقصد اور ذمہ داری لیے ہوئے تو پھر میرے کل وجود کا مقصد کیوں نہیں ہے؟ اگر کہوں کہ میرے وجود کا مقصد ہے تو کیا سائنس اس مقصد کو بتاسکتی ہے؟ میں سوچتا ہوں۔
20) کیا سائنس بتا سکتی ہے کہ خود انسان اس دنیا میں کیوں ہے؟ میں سوچتا ہوں۔
21) میں سوچتا ہوں کہ نسل پروری کے لیےدو مختلف وجود کیوں ضروری ہیں ایک ہی کافی کیوں نہیں ہے؟ اگر کہوں دو مختلف وجود ضروری ہیں تو کیا پھر ہر وجود کا اپنا ایک مخصوص کام ہے کیا دونوں ایک سے نہیں ہیں، برابر نہیں ہیں، تو پھر کیوں کہا جاتا ہے کہ دونوں برابر ہیں؟ میں سوچتا ہوں۔ اگر کہوں دو جود ضروری نہیں تو پھر دو وج
22) سائنس تو محسوسات ہی کو پرکھ سکتی ہے، ناپ سکتی ہے، ذائقہ بتاسکتی ہے، رنگ بتا سکتی ہے، لیکن کیا سائنس خواب کو ناپ سکتی ہے، ان کو پرکھ سکتی ہے؟ اگر کہوں نہیں، تو کیا خواب کچھ نہیں ؟ اگر کہوں ہاں تو کیا یہ حقیقت کو جھٹلانا نہیں ہوگا؟ تو کیا ایسی چیزیں بھی ہیں جو سائنس کی حدود سے باہر ہیں؟
 

حسرت جاوید

محفلین
سائنس کا اس میں کوئی قصور نہیں اور نہ ہی سائنس نے ایسا کوئی دعوی کیا ہے۔ تجسس انسان کی جبلت میں ہے اور شروع سے انسان دنیا میں ہونے والے مظاہر کے جواب چاہتا ہے۔ موجودہ سائنسی مشاہدات نے در حقیقت ان فرسودہ تاویلات کے بت توڑے جو مذہبی لوگوں نے معاشرے کو عرصہ دراز سے دے رکھی تھیں۔ ایسی صورت میں دو شدت پسند طبقات وجود میں آئے۔ ان میں سے ایک وہ جو سائنسی مشاہدات سے متاثر ہو کر مذہبی تاویلات کے خلاف ابھرے اور دوسرے وہ جو مذہب کے دفاع میں کھڑے ہوئے۔ سائنسی مشاہدات بروئے کار لا کر مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے نہ ہی مذہب پر چلنا۔ لیکن ایک کو کل سمجھ کر دوسرے کو یکسر نظر انداز کرنا میری رائے میں شدت پسندی تصور ہو گی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سائنس علم کا ایک سب سیٹ ہے
جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ اضافہ انسانی تجسس اور مسائل پر غور و فکر کے نتیجے میں انسانی دماغ میں مسائل کے حل کا آئیڈیا (خیال) آنے سے ممکن ہوتا ہے۔ اس میں بنیادی چیز تفکر ہے۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دماغ میں تفکر کے نتیجے میں خیال کہاں سے آتا ہے؟
اس سوال کو یہیں چھوڑتے ہیں اور تفکر کی بات کرتے ہیں
تفکر کا درس قرآن مجید میں کئی مقامات پر ملتا ہے۔ یتفکرون فی خلق السموات و الارض

اب آجائیے علم کی طرف:
اگر علم کا ایک یونیورسل سیٹ ہو تو یہ بات یقینی ہے کہ ہم اس کا کچھ حصہ ہی جان پاتے ہیں اور اس وقت علم کا جتنا حصہ نوع انسان کو معلوم ہے (جو تمام انسانی نسلوں کی مشترکہ فکری کاوش کا نتیجہ ہے) اُس میں علم کی کسی خاص برانچ کے ایک حصے کے بارے میں عام لوگوں سے زیادہ جاننے والا کوئی ایک شخص عالم کہلاتا ہے۔
اس کے باوجود ہم کوئی ایک ایسا شخص تلاش نہیں کر سکتے جو دنیا میں موجود معلوم علم کا احاطہ کرتا ہو یعنی یہ نوع انسانی کی علمی محدودیت کی ایک مثال ہے۔ مثلا آپ کوئی ایک شخص نہیں بتا سکتے جو دنیا میں موجود تمام درختوں کے پتوں کے ڈیزائن کا علم رکھتا ہو۔

اب علم کے دو حصے یا سیٹ بن گئے
معلوم علم (مشاہدہ و حواس خمسہ سے حاصل کردہ) اور نامعلوم علم (غیب) ان دونوں کے یونین کا نام کل علم ہے

انسان جزوی علم رکھتا ہے (نوع انسانی کے مشاہدہ میں موجود علم کی ایک برانچ کا علم رکھتا ہے)
جو چیز انسان کے مشاہدہ میں آ سکتی ہے انسان اس کی ایک برانچ کا عالم ہے کیوں کہ یہ سپیشلائزیشن کا دور ہے
جب کہ
جو ذات کل علم کا احاطہ کرتی ہے اس کو عالم الغیب و الشھادة کہتے ہیں اسی لیے وہ کبیر المتعال ہے
عالم الغیب و الشھادة الکبیر المتعال
 
آخری تدوین:

حسرت جاوید

محفلین
اس میں کوئی شک نہیں کہ رب کی ذات کل علم رکھتی ہے لیکن یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس کے کلام سے قیاس آرائی کرنا ایک انسانی فعل ہے جو حالات و واقعات و مشاہدات سے لازما متاثر ہے۔ مذہبی تاویلات جیسے زمین ساکن ہے، زمینی دنیا کائنات کا مرکز ہے اور دیگر اس طرح کی قیاس آرائیاں انسان نے خود سے رب کے کلام سے قیاس کی ہیں۔ انسان کی سوچ کی اتنی وسعت نہیں کہ وہ غیب کے علم کا ادارک کر سکے اس لیے وہ واقعہ ہو جانے کے بعد اس کا سبب قیاس کرتا ہے، اسی سبب دلیل کا بذات خود کوئی حتمی (ابسلوٹ) وجود نہیں، یہ سوشلی کنسٹرکٹڈ عنصر ہے اور اسی وجہ سے 'اختلاف' کا وجود تا قیامت قائم رہے گا۔ سائنسی مشاہدے سے جو چیزیں ظاہری طور پر سامنے آئیں وہ ان مذہبی تاویلات سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں، اب یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ وہ مشاہدات رب کے علم کی نفی کرتے ہیں بلکہ وہ ان مذہبی تاویلات کی نفی کرتے ہیں جو انسان نے خود رب کے کلام سے قیاس کی ہیں۔ یہ اختلاف در اصل انسان اور انسان کے مابین ہے لیکن 'مذہبی شدت پسند گروہ' نے رب کو اپنی پشت پہ کھڑا کر کے اپنی تاویلات کا دفاع کیا اور 'سائنسی شدت پسند گروہ' نے 'انسانی' مخالفت کو خدا سے جا تعبیر کیا۔
 

دیوان

محفلین
سائنس کا اس میں کوئی قصور نہیں اور نہ ہی سائنس نے ایسا کوئی دعوی کیا ہے۔ تجسس انسان کی جبلت میں ہے اور شروع سے انسان دنیا میں ہونے والے مظاہر کے جواب چاہتا ہے۔ موجودہ سائنسی مشاہدات نے در حقیقت ان فرسودہ تاویلات کے بت توڑے جو مذہبی لوگوں نے معاشرے کو عرصہ دراز سے دے رکھی تھیں۔ ایسی صورت میں دو شدت پسند طبقات وجود میں آئے۔ ان میں سے ایک وہ جو سائنسی مشاہدات سے متاثر ہو کر مذہبی تاویلات کے خلاف ابھرے اور دوسرے وہ جو مذہب کے دفاع میں کھڑے ہوئے۔ سائنسی مشاہدات بروئے کار لا کر مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے نہ ہی مذہب پر چلنا۔ لیکن ایک کو کل سمجھ کر دوسرے کو یکسر نظر انداز کرنا میری رائے میں شدت پسندی تصور ہو گی۔
بندے نے بھی اسی پہلو کو سامنے رکھ یہ لکھا ہے۔
 
Top