کیا روشنی سے ڈرتے ہو؟ وجاہت مسعود


تحریر: وجاہت مسعود

سنہ 71 کا سال تھا۔ نو اور دس دسمبر کی درمیانی شب تھی۔ ڈھاکہ چھاؤنی کے ایک بلند و بالا دفتر کی خوشگوار حرارت میں تین پُروقار چہرے چند کاغذ سامنے رکھے گہرے غوروفکر میں مصروف تھے۔
ان میں ایک لیفٹننٹ جنرل عبداللہ نیازی تھے جن کے کندھوں پر پورے مشرقی محاذ کی ذمہ داری تھی۔ دوسرے صاحب میجر جنرل راؤ فرمان تھے جو بظاہر گورنر مالک کے سیاسی مشیر تھے مگر عملی طور پر صوبے کے انتظامی سربراہ سمجھے جاتے تھے۔ تیسرے افسر میجر جنرل جمشید تھے جو ڈھاکہ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔ کمرے میں دبے پاؤں چائے کے برتن لانے والے عملے کا خیال تھا کہ صاحب لوگ جنگ کی گمبھیر صورتِ حال پر مغز پاشی کر رہے ہیں۔ مگر ان اصحاب کے پیشِ نظر تو کہیں زیادہ اہم امور تھے۔ اس اجلاس میں بنگالی دانشوروں کی اس فہرست پر غور ہو رہا تھا جنہیں جنگ کا منطقی نتیجہ سامنے آنے سے پہلے ختم کرنا ضروری تھا۔ ہجرتی گھر چھوڑنے کے بھی کوئی آداب ہوتے ہیں۔​
دسمبر کا مہینہ سرد ہوتا ہے۔ 1971 کے برس میں یہ مہینہ معمول سے کچھ زیادہ ہی سرد تھا۔ پاکستان کے مشرقی حصےمیں نو مہینے سے خانہ جنگی جاری تھی۔ لاکھوں شہری مارے جا چکے تھے۔ ایک کروڑ مہاجر سرحد پار کر کے بھارت جا بیٹھے تھے۔ عورتوں، بچوں، کسانوں اور تاجروں میں سے جس کے پاس لٹانے کو جو تھا، لٹ چکا تھا۔ گاؤں جل چکے تھے۔ شہر اور قصبے ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔​
تین دسمبر سے پاکستان اور بھارت میں شروع ہونے والی کھلی جنگ اختتامی مرحلے میں تھی۔ مشرقی حصے کے عوام میں متحدہ پاکستان سے بدظنی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ چکی تھی۔ مغربی پاکستان دادو لوہار کے خطبات اور ملکہ ترنم کے جوشیلے ترانوں میں مگن تھا۔ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ناکافی ہتھیاروں، نیم دِلانہ قیادت، ناقص منصوبہ بندی اور غضب آلود عوام سے چومُکھی لڑائی لڑتے پاکستانی فوجی قدم بہ قدم پیچھے ہٹتے بالآخر ڈھاکہ تک محدود ہو چکے تھے۔ جنرل ناگرہ بوڑھی گنگا کے میر پور پُل پر آن بیٹھا تھا۔​
یہ سوال دلچسپ ہے کہ ایسے میں جب جنرلوں کو ڈھاکہ کے دفاع کی فکر ہونا چاہیے تھی وہ اساتذہ، سائنسدانوں، صحافیوں، تاریخ دانوں، شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کے قتل کی فکر میں تھے۔ تاہم اس کا جواب کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ ایوب خان نے بھی تو رائٹرز گلڈ بنائی تھی جس کے طفیل شاعروں، ادیبوں کو سلہٹ کا سبزہ اور چٹاگانگ کی پہاڑیاں دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ ضیاالحق بھی تو دانشوروں کو سیم اور تھور قرار دے کر ان پر پانی،ہوا اور چاندنی حرام کرنے کی وعید سنایا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو انہوں نے روز نامہ’ ڈان‘ کے مدیر کو چہار چشمے کا خطاب دیا تھا۔​
فوج جب کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے تو اس کا مقصد عوام کے امکان کو بیدار کر کے ترقی کی راہیں کھولنا نہیں ہوتا۔ ہر فوجی حکمران کا خواب ایک ایسی چراگاہ ہے جہاں عوام کے نام پر بہت سی بھیڑ بکریاں اس کے دماغِ عالی پر اترنے والی ہر پھلجھڑی کو حکمِ خداوندی سمجھیں۔ دانشور وہ آوازہِ انکار ہے جو آمر کا خواب کِرکِرا کر دیتا ہے۔​
آمر بڑی عرق ریزی سے اور اپنے چنیدہ حواریوں کی شبانہ روز محنت سے ایک آئین گھڑتا ہے ادھر کوئی بے ننگ و نام حبیب جالب پکار اٹھتا ہے ’ایسے دستور کو میں نہیں مانتا‘۔ حکمران صدارتی نظام کے حق میں قائد اعظم کی ڈائریاں ایجاد کرتا ہے تو ڈاکٹر مبارک علی نامی کوئی مورخ قلم گھسیٹ گھسیٹ کر قوم کو بتانے لگتا ہے کہ قائد اعظم نے تو کبھی ڈائری لکھی ہی نہیں تھی۔
حکمران اخبار والوں کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر وسیع تر قومی مفاد میں نظریہ پاکستان گھڑتا ہے تو ڈاکٹر مہدی حسن نامی کوئی استاد اپنی پاٹ دار آواز میں قائداعظم کی کوئی گمنام تقریر دہرانے لگتا ہے جو انہوں نے کہیں 11 اگست 1947 کو کی تھی۔​

رشید تالکدار​
دانشور کو اس کے علم کا کیڑا، تحقیق کی عادت اور بصیرت کا تقاضا کاٹتا رہتا ہے۔ اس کی دلیل بازی کی عادت سے فوجی حکمران کی جان ضیق میں آ جاتی ہے۔ ہر عہد میں الطاف گوہر، ابن الحسن، نوابزادہ شیر علی خاں، راجہ ظفرالحق، جام صادق اور شیرا فگن جیسے محبِ وطن جابر سلطان کو یہ کلمہ حق سناتے رہتے ہیں کہ اگر مٹھی بھر دانشوروں کا ٹینٹوا دبا دیا جائے۔ صحافیوں کو گرمی میں میانوالی اور سردی میں مظفرآباد کی سیر کرائی جائے، شاعروں کی شراب بند کر دی جائے، یونیورسٹیوں کو حوالداروں کے حوالے کر دیا جائے تو عوام بہتر طور پر برکاتِ حکومتِ خود آرا سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ منعم خان اور امیر محمد خان جیسے شہریاروں کا نسخہ یہ ہوتا ہے کہ حالات درست کرنے کی بجائے حالات کی خرابی کی نشاندہی کرنے والوں کا منہ بند کر دیا جائے۔ ان خیر اندیشوں کی تقریِر پُر تاثیر میں ایسی لذت ہوتی ہے کہ رفتہ رفتہ خود حکمران کو بھی یقین ہونے لگتا ہے کہ دانشور ملک دشمن، بد اندیش نیز خونی پیچش میں مبتلا کسی گروہ کا نام ہے جس کی بیخ کنی ہی میں قوم کی فلاح ہے۔​
متحدہ پاکستان میں اردو، اسلام اور بھارت دشمنی کی تین پہیوں والی سائیکل چلانے والے ہمیشہ یہی کہتے اور سمجھتے رہے کہ مشرقی پاکستان کی بے گانگی کا اصل سبب معاشی ناہمواری اور سیاسی استحصال نہیں بلکہ وہاں کا دانشور طبقہ بالخصوص ہندو اساتذہ ہیں جو عوام میں الٹی سیدھی باتیں پھیلاتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ بنگالی عوام کے سیاسی شعور کی بیداری میں وہاں کے روشن خیال اور جمہوریت پسند دانشوروں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا اور یہ امر راؤ فرمان جیسے فوجی افسروں سے مخفی نہیں تھا جو قریب ایک عشرے سے مشرقی پاکستان کے جملہ امور چلا رہے تھے۔​
ربع صدی کی سیاسی کشمکش کے بعد جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی نوشتہ دیوار نظر آنے لگی تو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران نے خالص جاگیردارانہ انداز میں ’دشمنی‘ کو آخری دم تک نبھانے کا فیصلہ کیا۔ منتخب یونیورسٹی اساتذہ کے قتل کا سلسلہ تو 1969 ہی سے شروع ہو چکا تھا۔ جب راجشاہی یونیورسٹی میں کیمسٹری کے استاد شمس الضحٰی کو دِن دھاڑے قتل کیا گیا تھا۔ 25 مارچ 1971 کی قیامت خیز رات کے مقتولوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے متعدد اساتذہ بھی شامل تھے۔​
عوامی لیگ کی منتخب قیادت کے بھارت جانے کے بعد منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی فوجی قیادت کے بہت قریب آ گئی۔ یوں بھی جماعت اسلامی کے لیے عوامی لیگ کی غیر مذہبی سیاست بدیہی طور پر ناقابلِ برداشت تھی۔ مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی انتظامیہ نے جماعت اسلامی کو اپنا مسلح بازو تشکیل دینے کی ترغیب دی۔ ابتدائی طور پر تو اسے البدر ہی کا نام دیا گیا (30 برس بعد کشمیر جہاد میں بھی جماعت اسلامی نے اپنی پروردہ جہادی تنظیم کے لیے البدر ہی کا نام چنا) تاہم صدیق سالک لکھتے ہیں کہ بعد ازاں اسی تنظیم کو الشمس بھی کہا جانے لگا تا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی وسیع مخالفت کا تاثر پیدا کیا جا سکے ۔ جماعت اسلامی کے رضاکار مکتی باہنی جیسی مسلح تنظیم کا کیا مقابلہ کرتے جس کے ارکان بھارت سے باقاعدہ فوجی تربیت پا چکے تھے۔ البتہ البدر اور الشمس کے ارکان کو غیر مسلح مگر روشن خیال دانشوروں پر دل کے ارمان نکالنے کا اچھا موقع ہاتھ آیا۔​
البدر کے رہنماؤں میں مولوی غلام اعظم، مولوی عبدالمنان اور طالبعلم اشرف الزماں کے نام نمایاں ہیں۔ البدر کو فوجی تربیت کے لیے باقاعدہ سرکاری تعلیمی ادارے مہیا کیے گئے۔ سیکولر دانشوروں کو جسمانی طور پر ختم کرنے کے اس سلسلے کا ہولناک ترین واقعہ پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے سے صرف دو روز قبل 14 دسمبر کو پیش آیا۔واقعات کے مطابق البدر کے ارکان نے ایک باقاعدہ فہرست کے مطابق آدھی رات کو ڈھاکہ کے دو درجن سے زیادہ چیدہ چیدہ دانشوروں کو اغوا کیا۔ ان میں سے بیشتر اساتذہ یا تو اپنے شعبوں کے سربراہ تھے یا علمی اور ادبی حلقوں میں نہایت نمایاں مقام رکھتے تھے۔ انہیں مختلف مقامات پر رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر ریئر بازار اور میرپور نامی دو مقامات پر انہیں بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ 17 دسمبر کو ان کی مسخ شدہ لاشیں کچے بند کے قریب پایاب پانی سے برآمد ہوئیں۔ ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ پشت پر بندھے تھے اور سر میں گولی کا نشان تھا۔ ممتاز ماہرِ امراض چشم ڈاکٹر فضل ربی کی آنکھیں نکالی جا چکی تھیں۔​
اس موقع پر جب جنگ کا حتمی نتیجہ سامنے آ چکا تھا، متحدہ پاکستان کی حمایت یا مخالفت بے معنی ہو چکی تھیں۔ اس مرحلے پر کسی سیاسی مخالف کو قتل کرنے سے کوئی سیاسی یا جنگی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ حمود الرحمٰن کمیشن کے سامنے لیفٹننٹ جنرل عبداللہ نیازی، میجر جنرل راؤ فرمان اور میجر جنرل جمشید تینوں نے اس نوعیت کی فہرست سازی کا اقرار ضرور کیا مگر فوج کے اس کارروائی میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔ شواہد سے بڑی حد تک اس مؤقف کی تصدیق ہوتی مگر جنگ کے بعد بھارتی فوج کو جنرل فرمان کے میز سے ایک ڈائری ملی جس میں خود جنرل فرمان کے ہاتھ سے ناموں کی ایک فہرست تحریر تھی۔ ان ناموں میں سے چودہ افراد 14 دسمبر کی رات مارے گئے۔ الطاف گوہر راوی تھے کہ انہوں نے ایک مشترکہ دوست کے توسط سے راؤ فرمان کو اپنے عزیز دوست ثناالحق کی جان بخشی کی سفارش کی تھی۔ راؤ فرمان کی فہرست میں ثناالحق واحد خوش نصیب تھے جو 14 دسمبر کے بعد بھی زندہ رہِے۔​
امریکی ہفت روزے ٹائم نے 19 دسمبر 1971 کی اشاعت میں پہلی بار اس واقعے سے پردہ اٹھایا۔ لیکن نرمل کمیشن سے لے کر حکومتی تحقیق تک اس واقعے پر کوئی قانونی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ مولوی غلام اعظم 1978 میں پاکستان سے بنگلہ دیش واپس چلے گئے تھے اور1991 سے وہاں جماعت اسلامی کے امیر ہیں ۔مولوی عبدالمنان دانش کے اس قتل میں ذاتی طور پر شریک تھے، وہ ایک سے زیادہ مرتبہ وزیر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ اشرف الزماں کی ڈائری میں 14 دسمبر کے آٹھ مقتول دانشوروں کے نام پتے درج تھے۔ اشرف اب امریکہ میں ایک اسلامی مرکز چلاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ البدر کے بیشتر سابق ارکان آجکل برطانیہ میں مسجدوں کے پیش امام ہیں۔​
بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد متعدد مواقع پر اپنی مخصوص گھن گرج کے ساتھ انصاف کے بلند بانگ دعوے کرنے والے مجیب الرحمٰن نے 1973 میں تمام بنگالی نژاد جنگی مجرموں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ بنگلہ بندھو کی اس قلابازی کے متعدد پہلو ہیں۔ بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی میں مرنے والے قریب قریب تمام دانشور روشن خیال ہونے کے علاوہ بائیں بازو کے رجحانات بھی رکھتے تھے۔ عوامی لیگ کے آئندہ طرزِ حکومت میں بلند آہنگ اور عوام دوست دانشوروں کے لیے کہاں جگہ تھی؟ دوسرے بھارت کو یہ کب پسند تھا کہ بنگلہ دیش کے حریت پسندوں سے نکسل باڑی تحریک تقویت پائے۔ اور تیسرے یہ کہ امریکی حکام کو پیکنگ نواز دانشور کیسے ہضم ہوتے۔ سو یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا۔​
(وجاہت مسعود انسانی حقوق، صحافت اور تعلیم کے شعبوں میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ ادبی اور سیاسی موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔)​
 
کہیں تو روشنی کا دیا جلے
اندھیروں سے ڈر لگتا ہے
کیسی الجھن ہے
کیوں ہر پل بے چین یہ دل ہے
کیسی یہ چاہت ہے
کیا ڈھوڈھتا ہے
کیوں زندگی کو ترس گیاہے
ہر رنگ پھیلا ہے
پھر بھی نہیں اجالا ہے
دل کی گہرائیوں سے بھی
اندھیرا گھنا
یہ کیسا سایہ ہے
کوئی تو چمکتا ستارہ نظر آئے
دم گھٹنے لگا ہے ابھی
تھوڑی سی ہی سہی
پر تازی ہوا ملے
انجانے سے
اس پیاس کو جو بجھا سکے
کوئی تو آب حیات کا ذریعہ ملے
 

nazar haffi

محفلین
روشنی انسان کی تمنّا بھی ہے ،محبت بھی اور ضرورت بھی ۔انسان ساری زندگی روشنی سے محبت کرتا ہے اور روشنی کی تلاش میں رہتاہے۔ ہر شب ,ہر انسان کےدل ودماغ میں فرشتوں کے قدموں کی چاپ ایسے ہی سنائی دیتی ہے جیسےرات کے سینے میں کوئی جگنو رینگ رہاہو،روشنی جو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے، اس کی ہزار شکلیں ہیں ہزار جنم ہیں اور ہزار جسم ہیں۔
کسی غریب کی کٹیا میں جس سے اجالا ہے وہ بھی روشنی ہے اور شاہجہان کے محل میں جو چمک رہی ہے وہ بھی روشنی ہے،مسافر کی لالٹین سے روشنی پھوٹتی ہے اور اسٹریٹ لائٹ سے بھی روشنی۔
روشنی مدھم بھی ہے ،روشنی تیز بھی ،روشنی سرخ بھی ہے،روشنی سفید بھی ،جو آئینے اور پانی میں منعکس ہے وہ بھی ہے روشنی اور جو آتش پاروں میں جھلکتی ہے وہ بھی ہے روشنی۔
سورج کی شعاعوں ،چاند کی کرنوں اورآبشار کے قطروں سےہر طرف روشنی ہی روشنی پھوٹتی ہے۔
جیسی روشنی عالم آفاق میں ہے ویسی ہی روشنی عالم نفوس میں بھی ہے۔
چراغ بھی روشنی ہے،امید بھی روشنی ہے،قلم بھی روشنی ہے،کتاب بھی روشنی ۔
روشنی شہیدوں کے لہو سے بھی پھوٹتی ہے،روشنی دعا و مناجات سے بھی
روشنی علماء کے قلم سے بھی پھوٹتی ہے،روشنی کشف و کرامات سےبھی
روشنی مومن کے دل سے بھی نکلتی ہے،روشنی انبیاء کے معجزات سےبھی
اور روشنی حورالعین کی آنکھوں سے بھی جھلکتی ہے۔۔۔
انسان کے ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے لیکن اس کے باوجود وہ روشنی کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔
یہ مشرق و مغرب کے سفر ،یہ کتابوں کے انبار،یہ فتووں کے ڈھیر،یہ نعروں کی بھرمار ،سرخ و سبز جھنڈوں کی تقسیم،
یہ سب روشنی کی تلاش میں سرگردانی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
جس طرح کاغذ پر بکھرے ہوئے لوہے چون کو مقناطیس دکھایا جائے تو لوہے چون کے ذرّات صف بستہ رقص کرنے لگتے ہیں ایسے ہی انسان کو اگر روشنی کی امید دلائی جائے توانسان بھی رقص کرنے لگتاہے اورجھوم اٹھتاہے۔
آج ہزاروں قمقموں اور سینکڑوں برق پاروں کے باوجودانسان کے آنگن میں ابھی تک روشنی نہیں اتری۔
آج !
انسان مضطرب ہے،
انسان بے چین ہے،
انسان بے سکون ہے،
انسان بے قرار ہے۔۔۔
اس لیے کہ انسان کو روشنی چاہیے۔
انسان کے اضطراب،بے چینی،بے سکونی اور بے قراری کا علاج روشنی ہے۔۔۔
جی ہاں! روشنی ۔
روشنی نعروں اور ریلیوں سے نہیں آتی ،روشنی روٹی اور نوکری سے نہیں آتی،چیلے کاٹنے اور منتر پڑھنے سے نہیں آتی۔
روشنی سچ اور حق سے آتی ہے۔۔۔
اگر انسان کو سچ اور حق مل جائے تو اسے روشنی مل جائے گی،سکون مل جائے گا،قرار مل جائے گا۔
جسے کسی بابرکت شب میں سچ اور حق مل گیا اسے روشنی مل گئی،اسے زندگی مل گئی۔
سچ روشنی ہے ،حق روشنی ہےاور یہی حقیقی روشنی ہے۔
باقی جہاں بھی ہے ،چاہے کسی کے قلم میں ،خون میں ،پیغام میں،قبر میں ،دل میں صرف اور صرف سچ اور حق کے دم سے روشنی ہے۔
اپنی زندگی کی گم سم راتوں میں جب آنکھ کھلے تو فرقوں،بینروں،نعروں اور پھر پوسٹروں پر نہ جائیے،سچ اور حق تلاش کیجیئے۔
جسے سچ اور حق مل گیا اسے روشنی مل گئی۔ روشنی انسان کی تمنّا بھی ہے ،محبت بھی اور ضرورت بھی ۔انسان ساری زندگی روشنی سے محبت کرتا ہے اور روشنی کی تلاش میں رہتاہے لیکن چمگادڑ۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
سنہ 71 کا سال تھا۔ نو اور دس دسمبر کی درمیانی شب تھی۔ ڈھاکہ چھاؤنی کے ایک بلند و بالا دفتر کی خوشگوار حرارت میں تین پُروقار چہرے چند کاغذ سامنے رکھے گہرے غوروفکر میں مصروف تھے۔
ان میں ایک لیفٹننٹ جنرل عبداللہ نیازی تھے جن کے کندھوں پر پورے مشرقی محاذ کی ذمہ داری تھی۔ دوسرے صاحب میجر جنرل راؤ فرمان تھے جو بظاہر گورنر مالک کے سیاسی مشیر تھے مگر عملی طور پر صوبے کے انتظامی سربراہ سمجھے جاتے تھے۔ تیسرے افسر میجر جنرل جمشید تھے جو ڈھاکہ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔ کمرے میں دبے پاؤں چائے کے برتن لانے والے عملے کا خیال تھا کہ صاحب لوگ جنگ کی گمبھیر صورتِ حال پر مغز پاشی کر رہے ہیں۔ مگر ان اصحاب کے پیشِ نظر تو کہیں زیادہ اہم امور تھے۔ اس اجلاس میں بنگالی دانشوروں کی اس فہرست پر غور ہو رہا تھا جنہیں جنگ کا منطقی نتیجہ سامنے آنے سے پہلے ختم کرنا ضروری تھا۔ ہجرتی گھر چھوڑنے کے بھی کوئی آداب ہوتے ہیں۔
اب مزے کی بات یہ ہے کہ اس میٹنگ کی تفصیل کس نے بتائی؟ چائے لانے والے عملے کا خیال تو درج ہے کہ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا۔ باقی ان تین اصحاب میں سے کس نے یہ راز کی بات افشاء کی، اس بارے مصنف خاموش ہی ہیں۔ شاید ادھوری معلومات کی بنیاد پر کتاب لکھ دینا ہی کافی ہے :)
 
اب مزے کی بات یہ ہے کہ اس میٹنگ کی تفصیل کس نے بتائی؟ چائے لانے والے عملے کا خیال تو درج ہے کہ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا۔ باقی ان تین اصحاب میں سے کس نے یہ راز کی بات افشاء کی، اس بارے مصنف خاموش ہی ہیں۔ شاید ادھوری معلومات کی بنیاد پر کتاب لکھ دینا ہی کافی ہے :)
آپ کی بات سے اتفاق ہے
اب یہ معلوم نہیں کہ مصنف نے یہ بات کس بنیاد پر لکھی ہے
 

nazar haffi

محفلین
کیا کوئی صاحب البدر کے بننے اور اس کی سرگرمیوں کے بارے میں مفصل اور غیر جانبدار روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟
 

nazar haffi

محفلین
(وجاہت مسعود صاحب کی بی بی سی اردو نیوز پر آپ نے تحریر ملاحظہ فرمائی اور انہوں نے جو کچھ البدر کے بارے میں کہا وہ بھی پڑھا۔اب یہ بھی ملاحظہ فرمائین:
ماخذ قلم کارواں ہے
البدر

بے شک شکست ایک بڑا تلخ تجربہ ہوتا ہے لیکن زندہ قوموں کی تاریخ میں بارہا ایسا ہوا کہ ایک شکست ان کے لیے بڑی فتح کا پیش خیمہ بن گئی اور وہ قومیں پہلے سے زیادہ معزز اور مضبوط بن کر ابھریں۔ لیکن ہمارے یہاں شکست کی تلخی اس حد تک بڑھی کہ اہل وطن ان جانثاروں کو بھی بھول گئے جنہوں نے اپنی کڑیل اور بے داغ جوانیاں مکتی باہنی کے تخریب کاروں اور بھارتی فوجیوں کے مقابلے میں دفاع پاکستان کی خاطر قربان کریں اور اب تو یہ عالم ہے کہ 1971ء کے ان شہیدوں اور غازیوں کا نام تک پاکستان میں لینا گورا نہیں کیا جاتا۔ وہ لوگ بھی ہمارے ہی تھے۔ جو مشرقی پاکستان کے سبزہ زاروں اور دریائوں کے پانیوں کو اپنے لہو کی سوغات دے گئے۔ وہ نوجوان ہمارے جسد ملّی کا حصہ ہی تو تھے جنہوں ے بنگالی ہوتے ہوئے بنگلہ قوم پرستی کے بُت پر البدر کی صورت تیشہ چلایا اور قائداعظم کے متحدہ مشرقی و مغربی پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اٹھایا، مگر ہمارے اندر احساس کی چنگاری اس طرح بجھ گئی کہ ہم ان غریب الوطن جوانوں، شہیدوں اور غازیوں کو یکسر بھول گئے یا بھلادیے گئے۔
طرفہ تماشہ یہ کہ جن موقع پرست سیاستدانوں اور بزدل بادہ مست جرنیلوں نے اس گھر کو آگ لگائی اور اس مملکت کو دولخت کردیا، جو جنوبی ایشیا میں امت کی امیدوں کا واحد مرکز تھی انکی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ حیف!! اب وقت کے غدّار بھی رستم ٹھہرے اور جن کے لہو سے دو قومی نظریہ منور ہوگیا انہیں کوئی یاد نہیں کرتا۔
البدر کیا تھی؟ جماعت اسلامی و سید مودودی کے افکار و خیالات سے متاثر اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) مشرقی پاکستان کی ایک ذیلی تنظیم جو مئی 1971 کے اواخر میں علیحدگی پسند مکتی باہنی اور مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر یلغار میں مصروف بھارتی افواج کے مقابلے کے لیے قائم کی گئی۔
جماعت اسلامی نے اپنے ہی عوام کے خلاف کبھی کسی فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کی۔ 1970 کے انتخابات کے بعد جماعت اسلامی ہی وہ پہلی تنظیم تھی جس نے ان انتخابات میں اپنی بدترین شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔
جنوری 1971 سے رفتہ رفتہ عوامی لیگ و پیپلز پارٹی اور برسراقتدار مارشل لاء حکومت کے درمیان اقتدار کی کشمکش عروج کو پہنچی اور ملکی اتحاد کی بنیادیں ہل گئیں۔ ملک آہستہ آہستہ خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ مشرقی پاکستان میں ایک مخصوص طبقے کی جانب سے بغاوت کے آچار حقیقت کا روپ دھارنے لگے۔ آخر کار یکم مارچ سے غیر بنگالیوں اور فعال محب وطن بنگالیوں کا قتل عام شروع ہوا۔ اتنظامیہ معطل ہوگئی یا بیشتر جگہوں پر تخریب کاروں سے مل گئی۔ شرپسند پوری طرح فضا پر چھاگئے۔ مارشل لاء شل ہوگیا۔ اس بارودی فضا میں سیاسی حل تلاش کرنے کے بجائے حکومت حماقتوں پر، پیپلز پارٹی شرارتوں پر اور عوامی لیگ بغاوت پر تل گئی۔
اس افسوسناک صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اسلامی چھاتروشنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) مشرقی پاکستان کا اجلاس 10 مارچ 1971 کو طلب کیا گیا جس میں صوبے کی عمومی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد تین ممکنہ راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر غور ہوا کہ اس وقت صرف یہ تین ہی راستے تھے
1- حالات کے رخ پر بہتے ہوئے کُھل کر علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیا جائے۔
2- حالات کو اپنے رخ پر بہنے دیا جائے اور غیر جانبدار رہا جائے۔
3- حالات کا رخ موڑنے، پاکستان کی سالمیت اور مظلوم عوام کے تحفظ کے لیے میدان عمل میں اُتر کر اپنی ذمہ داری کو ادا کیا جائے۔
10 تا 14 مارچ تک جاری رہنے والے جمعیت کے صوبائی شوریٰ کے اجلاس میں طویل غور و خوض اور بحث و مباحثے کے بعد جمعیت نے تیسرے آپشن کو اپنانے اور اس ملک کو بچانے کے لیے عظیم الشان قربانیاں دینے کا فیصلہ کیا۔ جس کو بنانے کے لیے صرف 24 سال قبل ان کے آباء و اجداد نے قربانیاں دی تھیں۔ اسی اجلاس میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس فوری طلب کیا جائے اور منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ (روزنامہ اتفاق ڈھاکہ 15 مارچ 1971)
اس فیصلے کے دو ماہ بعد تک البدر نامی تنظیم وجود میں نہیں آئی تھی۔ البدر اس وقت تشکیل دی گئی جب مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر بھارت کی یلغار شروع ہوچکی تھی۔ اور پاکستانی فوج کی رجمنٹیں بغاوت پر اُتر آئی تھیں۔ اس صورت حال میں مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لیے پاکستانی فوج کو قابل اعتماد اور محب وطن فورس کی ضرورت تھی۔ اسلامی چھاترو شنگھو کے اسی فیصلے کے نتیجے میں البدر کا قیام عمل میں آیا۔
میجر ریاض حسین البدر کی تاسیس کا احوال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ دشمن تعداد میں بہت زیادہ تھا اور تخریبی عناصر بھی کچھ کم نہ تھے۔ ہمارے ذرائع معلومات نہ ہونے کے برابر اور ذرائع مواصلات غیر مربوط تھے۔ ہمارے جوان بنگلہ زبان اور بنگال کی طبعی فضا سے قطعی ناواقف تھے کیونکہ ہماری تربیت کے دوران کبھی اس صورت کے امکان پر سوچا بھی نہ گیا تھا۔ ان حالات میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دینا بڑا مشکل ہوگیا تھا۔ ہمیں ایک مخلص اور قابل اعتماد بنگالی گروہ کی ضرورت تھی جو سالمیت پاکستان کے لیے ہمارے شانہ بشانہ کام کرسکتا ہو۔ ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں ہمارا رضاکار فورس کا تجربہ ناکام ہوچکا تھا۔ تاہم میں نے دیکھا کہ میرے علاقے میں اسلامی چھاترو شنگھو کے بنگالی طلبہ بڑے اخلاص کے ساتھ دفاع راہنمائی اور حفظ راز کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ اس لیے میں نے ہائی کمان سے کوئی باقاعدہ اجازت لیے بغیر قدرے جھجھکتے ہوئے ان طلبہ کو الگ کیا۔ یہ تعداد میں 47 تھے اور سب اسلامی چھاترو شنگھو کے کارکن تھے۔ 16 مئی 1971 کو شیر پور ضلع میمن سنگھ کے مقام پر انہیں مختصر فوجی تربیت دینے کا آغاز کیا گیا۔ ان کارکنان کی محنت، لگن اور تکنیک کو سمجھنے میں کمال ذہانت کو دیکھ کر میں نے 21 مئی 1971 کی صبح ان سے خطاب کیا۔ تقریر کے دوران بے ساختہ میرے منہ سے یہ بات نکلی کہ آپ جیسے سیرت و کردار اور مجاہدانہ جذبہ رکھنے والے فرزندان اسلام کو “البدر” کے نام سے پکارا جانا چاہیے۔ (میجر ریاض حسین ملک سے سلیم منصور خالد کا انٹرویو 10 جون 1975).
دشمنان دین و ملت البدر پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ معصوم بنگالیوں کے قتل عام، نسل کشی اور لوٹ مار میں ملوث رہی ہے۔ ایسا کہنے والے وہ عناصر ہیں جنہیں جماعت اسلامی سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ البدر کا قیام 16 مئی 1971 کو عمل میں آیا۔ ستمبر 1971 کے اختتام تک مشرقی پاکستان کی فوجی کمان نے اس تنظیم کو پورے مشرقی پاکستان میں منظم کیا۔ 16 دسمبر 1971 کو افواج پاکستان نے ہتھیار ڈال دیے اور البدر تحلیل ہوگئی۔ یعنی اپنے قیام سے لیکر اختتام جنگ تک البدر کو کل 8 ماہ کی زندگی ملی۔
بقول جنرل نیازی کے ان رضاکاروں کو جدید اسلحے سے لیس نہیں کیا گیا تھا۔ کیونکہ ہمارے پاس ہتھیاروں کی کمی تھی۔ تربیت بھی صرف 7 تا 12 روز کی دی جاتی تھی۔ بعض رضاکاروں کو تو ہم نے بہ امر مجبوری بارہ بور کی شارٹ گنیں دی تھیں۔ جو اشیاء ہمارے پاس تھیں وہ یا تو مطلوبہ تعداد میں نہ تھیں یا فرسودہ ہوچکی تھیں۔ جبکہ دشمن کے تمام یونٹ حتی کے پولیس اور مکتی باہنی کے پاس بھی جدید ہتھیار اور ٹرانسپورٹ تھی۔ (انٹرویو، جنرل نیازی، قومی ڈائجسٹ جولائی 1978)
جو لوگ 1971ء کے دوران مشرقی پاکستان میں موجود تھے اور حالات و واقعات کے عینی شاہد ہیں کہ مشرقی پاکستان میں قتل عام اور لوٹ مار کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
پہلا دور یکم مارچ سے 25 مارچ پر محیط ہے۔ اس دوران عوامی لیگ کے زیر اثر بنگالی قوم پرستوں، ہندوئوں اور بھاشانی کے زیر قیادت کمیونسٹ مسلح ہوکر نکلے اور غیر مسلح اور پر امن اردو، پنجابی اور پشتو بولنے والوں اور متحدہ پاکستان پر یقین رکھنے والے بنگالیوں کا بے دردی سے قتل عام کیا۔ صرف بچیس روز میں ایک لاکھ سے زائد مظلوم و بے کس پاکستانیوں کو قتل کردیا گیا۔ البدر اس وقت تک قائم نہیں ہوئی تھی۔
ہلاکت خیزی کا دوسرا دور آرمی ایکشن آپریشن سرچ لائیٹ کی صورت میں 25 مارچ کی رات سے وسط اپریل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس ایکشن کی کمان لیفٹننٹ جنرل ٹکا خان (بعد ازاں پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھی) نے کی۔ اس دوران مکتی باہنی اور عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے سرگرم لوگوں کو قتل کیا گیا اور مورخین کے مطابق عام بنگالی بھی اس کی زد میں آئے جس کے نتیجے میں فوج کے خلاف شدید رد عمل ظاہر ہوا۔ اس دوران بھی البدر وجود میں نہیں آئی تھی۔
اس کے بعد عملاً جنگ کا آغاز ہوا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دوران جنگ پاکستانی فوج، البدر، الشمس کے رضاکاروں اور محب وطن پاکستانیوں کا جانی نقصان زیادہ ہوا جبکہ دشمن کا نقصان نہ ہونے کے برابر تھا۔
مشرقی پاکستان میں تیسرا اور سب سے بھیانک قتل عام 16 دسمبر 1971 کے بعد بھارتی فوج کی نگرانی میں ہوا جس میں مکتی باہنی، ہندوئوں اور کمیونسٹوں نے کھل کر حصہ لیا۔ اس قتل عام اور وحشیانہ لوٹ مار کا نشانہ البدر، الشمس، جماعت اسلامی کے کارکنان، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم لیگ کے ثابت قدم رہنما بنے۔ جبکہ غیر بنگالی مسلمان اس موقع پر بھی بری طرح مارے گئے۔
16 دسمبر 1971 البدر اور الشمس تحلیل ہوچکی تھی اور مکتی باہنی کے ہرکارے ان کے خون کے پیاسے ہورہے تھے۔ حالات و واقعات سے ثابت ہے کہ البدر پر قتل و غارت گری کا الزام عائد کرنا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اس طرح کے بے سروپا الزام پیپلز پارٹی سمیت سکیولر اور لادین طبقہ البدر اور جماعت اسلامی پر لگاتا رہا ہے۔ ان کی البدر دشمنی جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلاف کی وجہ سے تھی اور اب بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اس بغض و عناد کی طرح جنرل یحییٰ خان نے ہائی کورٹ میں داخل کردہ تحریری بیان میں اشارہ کیا تھا کہ:
مسٹر بھٹو نے ہمیشہ البدر اور الشمس کی پاکستان بچانے کی تحاریک کی مخالفت کی۔ کیونکہ ان کے خیال میں اگر یہ تحاریک قوت حاصل کرلیتیں تو مسٹر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے امکانات ختم ہوجاتے۔ تحریک میں شامل لوگ انتہائی محب وطن تھے جو مسٹر بھٹو کو کسی طور گوارا نہ تھا۔ (حمود الرحمن کمیشن رپورٹ جلد اول ترجمہ اشفاق خان، سید فضل ہاشمی صفحہ نمبر 170)
سقوط مشرقی پاکستان کے آٹھ سال بعد جب میں اپنے ایک بنگالی دوست کے ہمراہ سائیکل رکشا پر ڈھاکہ یونیورسٹی اور ریس کورس گرائونڈ کی درمیانی شاہراہ سے گزررہا تھا تو اپنے رفیق سفر سے پوچھا:
آپ سے البدر میں شامل شہید دوستوں کے بارے میں تفصیل سے جاننا چاہوں گا”۔ اس سوال پر اُس کا ہشاش بشاش چہروہ اُداس ہوگیا، آنکھیں اشک آلُود ہوگئیں، ریس کورس کی جانب اُس نے درد بھری نظر ڈالی اور دھیرے دھیرے کہنے لگا:
اگر تم البدر کے شہیدوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہو تو یہ بتانے کی مجھ میں سکت نہیں۔۔۔ میں جب اس ظلم و استبداد کے بارے میں سوچتا ہوں، جس کا نشانہ وہ بنائے گئے تو میرا دل چھلنی ہوجاتا ہے اور روح لرز جاتی ہے۔ میں اس موضوع سے انصاف نہ کرسکوں گا اس لیے تم ریس کورس گرائونڈ اور ڈھاکہ یونیورسٹی کی خاموش دیواروں سے پوچھو، ان کی بے زبانی اس داستان رنج و الم کو بہتر انداز میں بیان کرسکے گی۔۔۔ میں تصور کرتا ہوں تو اپنے آنسو ضبط نہیں کرسکتا کہ اس سرزمین کا چپّہ چپّہ ہماری محبوب ہستیوں کے خون سے لہو رنگ ہے مگر دکھ تو یہ ہے کہ ہم اس المیے کا اظہار بھی نہیں کرسکتے۔ قوم ان قربانیوں کی معترف بھی نہیں اور امت مسلمہ نے اس کی قدر نہیں پہچانی۔ ہم گھر (بنگلہ دیش) میں اجنبی ہیں اور پاکستان میں غیر ملکی۔۔۔​
اس کی آواز میں لمحوں کے جبر، قربانیوں کی ناقدری اور سکیولر سیاست کی چنگیزیت کے خلاف مجبوروں کا احتجاج پنہاں تھا۔ یہ آشوب تاریخ ہے کہ قوموں نے اپنے محسنوں کی ناقدری کی ہے۔ لیکن مسلمانوں میں ناقدری کی روایت بڑی پرانی اور دردناک ہے۔ جو قومیں اپنے محسنوں کو بھلادیتی ہیں، وہ کسی وقت بھی اپنی آزادی کی زندگی سے محروم ہوسکتی ہیں۔

نوٹ:- یہ تحریر پروفیسر سلیم منصور خالد کی کتاب ‘البدر’ اور ڈاکٹر فیاض عالم کی تحاریر کے اقتباسات پر مبنی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
10 تا 14 مارچ تک جاری رہنے والے جمعیت کے صوبائی شوریٰ کے اجلاس میں طویل غور و خوض اور بحث و مباحثے کے بعد جمعیت نے تیسرے آپشن کو اپنانے اور اس ملک کو بچانے کے لیے عظیم الشان قربانیاں دینے کا فیصلہ کیا۔ جس کو بنانے کے لیے صرف 24 سال قبل ان کے آباء و اجداد نے قربانیاں دی تھیں۔ اسی اجلاس میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس فوری طلب کیا جائے اور منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ (روزنامہ اتفاق ڈھاکہ 15 مارچ 1971)​
کیا کوئی دوست یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ جماعتِ اسلامی کے قائدین نے پاکستان بننے پر کیا فرمایا تھا؟
 

nazar haffi

محفلین
کیا کوئی دوست یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ جماعتِ اسلامی کے قائدین نے پاکستان بننے پر کیا فرمایا تھا؟
 
Top