کیا خبر اُس روشنی میں اور کیا روشن ہوا : تہذیب حافی

کیا خبر اُس روشنی میں اور کیا روشن ہوا
جب وہ ان ہاتھوں سے پہلی مرتبہ روشن ہوا

وہ مرے سینے سے لگ کر جس کو روئی کون تھا
کس کے بجھنے پر میں آج اُس کی جگہ روشن ہوا

ویسے میں ان راستوں اور طاقچوں کا تھا نہیں
پھر بھی تُو نے جس جگہ پر رکھ دیا روشن ہوا

میرے جانے پر سبھی روئے بہت روئے مگر
اک دیا میری توقع سے سوا روشن ہوا

جانے کیسی آگ میں وہ جل رہا ہے ان دنوں
اُس نے منہ پونچھا تو میرا تولیہ روشن ہوا

تیرے اپنے تیری کرنوں کو ترستے ہیں یہاں
تُو یہ کن گلیوں میں کن لوگوں میں جا روشن ہوا

میں نے پوچھا تھا کہ مجھ ایسا بھی کوئی اور ہے
دور جنگل میں کہیں اک مقبرہ روشن ہوا

کوئی اُس کی روشنی کے شر سے کب محفوظ ہے
میری آنکھیں بجھ گئیں اور کوئلہ روشن ہوا

تہذیب حافی
 
Top