کیا جی کا جانا ٹھہر گیا ہے؟

زیرک

محفلین
کیا جی کا جانا ٹھہر گیا ہے؟
لانے والے بڑے صاحب عمران خان حکومتکی معاشی پالیسیوں، بیروزگاری، مہنگائی اور بیڈ گورنس کے معاملات پر اس سے زیادہ مطمئن نظر نہیں آتے۔ مخصوص اتحادی جماعتوں نے صاحب کے اشارے پر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے، اگر ان مسائل کی طرف فوری توجہ نہ دی گئی تو حکومت بچانے کے آپشن محدود ہوجائیں گے۔ مشکل میں مبتلا نا اہل ناتجربے کار حکومت جو پہلے ہی ڈیلیور نہیں کر پا رہی ہے، اب اتحادی جماعتوں کی جانب سے دباؤ کی وجہ سے مزید مشکل میں پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔اتحادی جماعتیں جو پہلے ہی یہ رونا روتی آئی ہیں کہ ہمیں تو پوچھا تک نہیں جاتا، اب بھاؤ تاؤ بھی کر رہی ہیں اور اپنی منوانے کی پوری کوشش کر رہی ہیں، اتحادی جماعتیں مہنگائی کی وجہ سے عوام کو درپیش مشکلات میں اضافہ کی وجہ سے پریشان ہیں، کیونکہ کل کلاں جب کبھی الیکشن ہوں گے تو انہیں عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ حکومت مشکل میں کیوں ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت کا کسی معاشی معاملے پر کنٹرول نہیں رہا ہے، ان کے سامنے فائل رکھ کر ان کو صرف دستخط کرنے کا کہہ دیا جاتا ہے، باقی کام بین الاقوامی عالمی مالیاتی اداروں کی مسلط کردہ معاشی ٹیم کر لیتی ہے، معاشی ٹیم کو آئی ایم ایف کے مقرر کردہ اہداف کو پورا کرنا ہوتا ہے، انہیں حکومتِ پاکستان یا پاکستانی عوام کی مشکلات سے کوئی غرض نہیں ہے، بیروزگاری ہو مہنگائی ہو، غریب چاہے بھوکے مریں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں، انہوں نے جو قرض دیا ہے پہلے وہ پورا کرنا ہے اور اس آڑ میں سسٹم کو کھنگالنا ہے، جو جو ٹیکس دینے کے قابل ہے اس سے تو ٹیکس لینا ہی لینا ہے لیکن ساتھ ساتھ غربت کی شرح سے نیچے بسنے والی ٪40 عوام کو بھی نہیں بخشا جا رہا، ان سے بھی پورا پورا ٹیکس لیا جا رہا ہے جسے آپ انڈائریکٹ ٹیکسیشن کہہ سکتے ہیں۔ مشکل معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر حکومتی ترجیحات میں بھی عوامی مسائل کا حل کہیں نظر نہیں آتا، چند شو آف چیزیں ہی کی جا رہی ہیں، سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اس وقت اپنی حکومت بچانے کے لیے معاشی اداروں اور اتحادیوں وغیرہ سبھی کی بات مانتے جا رہے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو جلد یا بدیر عوام احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائے گی جس کے نتیجے میں عین ممکن ہے بڑے صاحب بھی ہاتھ کھڑے کر دیں اور کچھ اتحادی ساتھ چھوڑ جائیں یا اپوزیشن اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ دے، یا عدم اعتماد کی تحریک لے آئے، یہ سیاسی چالیں پہلے بھی چلی جاتی رہی ہیں اور اب بھی کچھ ایسا ہی ہونے کا قوی امکان ہے۔ اگر حکومت نے عوام کو درپیش مسائل کا ادراک نہ کیا تو اسے بھگتان بھگتنا پڑے گا۔ کیا جی کا جانا ٹھہر گیا ہے؟ بس آپ کو تھوڑا انتظار کرنا ہو گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا جی کا جانا ٹھہر گیا ہے؟
لانے والے بڑے صاحب عمران خان حکومتکی معاشی پالیسیوں، بیروزگاری، مہنگائی اور بیڈ گورنس کے معاملات پر اس سے زیادہ مطمئن نظر نہیں آتے۔ مخصوص اتحادی جماعتوں نے صاحب کے اشارے پر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے، اگر ان مسائل کی طرف فوری توجہ نہ دی گئی تو حکومت بچانے کے آپشن محدود ہوجائیں گے۔ مشکل میں مبتلا نا اہل ناتجربے کار حکومت جو پہلے ہی ڈیلیور نہیں کر پا رہی ہے، اب اتحادی جماعتوں کی جانب سے دباؤ کی وجہ سے مزید مشکل میں پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔اتحادی جماعتیں جو پہلے ہی یہ رونا روتی آئی ہیں کہ ہمیں تو پوچھا تک نہیں جاتا، اب بھاؤ تاؤ بھی کر رہی ہیں اور اپنی منوانے کی پوری کوشش کر رہی ہیں، اتحادی جماعتیں مہنگائی کی وجہ سے عوام کو درپیش مشکلات میں اضافہ کی وجہ سے پریشان ہیں، کیونکہ کل کلاں جب کبھی الیکشن ہوں گے تو انہیں عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ حکومت مشکل میں کیوں ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت کا کسی معاشی معاملے پر کنٹرول نہیں رہا ہے، ان کے سامنے فائل رکھ کر ان کو صرف دستخط کرنے کا کہہ دیا جاتا ہے، باقی کام بین الاقوامی عالمی مالیاتی اداروں کی مسلط کردہ معاشی ٹیم کر لیتی ہے، معاشی ٹیم کو آئی ایم ایف کے مقرر کردہ اہداف کو پورا کرنا ہوتا ہے، انہیں حکومتِ پاکستان یا پاکستانی عوام کی مشکلات سے کوئی غرض نہیں ہے، بیروزگاری ہو مہنگائی ہو، غریب چاہے بھوکے مریں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں، انہوں نے جو قرض دیا ہے پہلے وہ پورا کرنا ہے اور اس آڑ میں سسٹم کو کھنگالنا ہے، جو جو ٹیکس دینے کے قابل ہے اس سے تو ٹیکس لینا ہی لینا ہے لیکن ساتھ ساتھ غربت کی شرح سے نیچے بسنے والی ٪40 عوام کو بھی نہیں بخشا جا رہا، ان سے بھی پورا پورا ٹیکس لیا جا رہا ہے جسے آپ انڈائریکٹ ٹیکسیشن کہہ سکتے ہیں۔ مشکل معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر حکومتی ترجیحات میں بھی عوامی مسائل کا حل کہیں نظر نہیں آتا، چند شو آف چیزیں ہی کی جا رہی ہیں، سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اس وقت اپنی حکومت بچانے کے لیے معاشی اداروں اور اتحادیوں وغیرہ سبھی کی بات مانتے جا رہے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو جلد یا بدیر عوام احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائے گی جس کے نتیجے میں عین ممکن ہے بڑے صاحب بھی ہاتھ کھڑے کر دیں اور کچھ اتحادی ساتھ چھوڑ جائیں یا اپوزیشن اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ دے، یا عدم اعتماد کی تحریک لے آئے، یہ سیاسی چالیں پہلے بھی چلی جاتی رہی ہیں اور اب بھی کچھ ایسا ہی ہونے کا قوی امکان ہے۔ اگر حکومت نے عوام کو درپیش مسائل کا ادراک نہ کیا تو اسے بھگتان بھگتنا پڑے گا۔ کیا جی کا جانا ٹھہر گیا ہے؟ بس آپ کو تھوڑا انتظار کرنا ہو گا۔
یہ حکومت جلد یا بدیر چلی جائے گی۔ آنے والی حکومت اس سے خراب نہیں ہوگی کی گیرنٹی آپ دیتے ہیں؟
 

زیرک

محفلین
یہ حکومت جلد یا بدیر چلی جائے گی۔ آنے والی حکومت اس سے خراب نہیں ہوگی کی گیرنٹی آپ دیتے ہیں؟
گارنٹی عوام کی جانب سے ہوتی ہے، عوام کو اعتماد میں لے کر فیصلے کیے جائیں گے تو ان کو رد کرنا آئی ایم ایف کے لیے آسان نہیں ہو گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
گارنٹی عوام کی جانب سے ہوتی ہے، عوام کو اعتماد میں لے کر فیصلے کیے جائیں گے تو ان کو رد کرنا آئی ایم ایف کے لیے آسان نہیں ہو گا۔
آئی ایم ایف خاص پاکستان کیلئےاپنی دکان کھول کر نہیں بیٹھا ہوا کہ ہر 5 سال بعد نئی حکومت کے آتے ساتھ ہی نئے قرضے عوام دوست شرائط پر تا قیامت جاری کرتا رہے گا۔ پاکستان آزاد خودمختار ملک ہے اور ایک نہ ایک دن اسے اپنےپاؤں پر کھڑا ہونا ہے۔ اپنے خرچے خود پورے کرنے ہیں۔ اپنی معیشت بہتر کرنے کے نام پر جو قرضے لے چکا، جو خسارے کر چکا وہ سب واپس کرنے پڑیں گے۔ اس کی تکلیف عوام نہیں اٹھائیں گے تو آئندہ کیلئے اصلاح کیسے ہوگی؟
 
Top