کیا ایران میں تبدیلی آگئی ہے؟

حاتم راجپوت

لائبریرین
’میں ایران کو عالمی تنہائی سے نکالنے کی کوشش کروں گا، اگر آپ (عالمی پابندیوں پر تنقید کرتے ہوئے) ایک تسلی بخش ردعمل چاہتے ہیں تو آپ کو پابندیوں کی زبان میں بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ آپ کو احترام کے ساتھ مخاطب ہونا چاہیے، میں خواتین کے حقوق اور آزادی کو فروغ دوںگا اور حکومت کی جانب سے عوام کی ذاتی زندگی میں مداخلت کو کم کریںگے‘‘ ان خیالات کا اظہار ایران کے نئے منتخب صدر حسن روحانی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد منعقدہ تقریب میں خطاب میں کیا تھا۔ 4 اگست 2013 کو مجلس شوریٰ کے اسپیکر علی لاریجانی نے ان سے حلف لیا۔

ایرانی صدر حسن روحانی 1948 میں پیدا ہوئے، ایران انقلاب سے پہلے اسلامی کارکن تھے، ایران عراق جنگ کے دوران بااثر شخصیت تھے۔ 1980 تا 2000 تک رکن پارلیمان رہ چکے ہیں، صدر کے قومی سلامتی کے مشیر 1989 تا 1997 تک رہے۔ 2000 تا 2005 تک پھر صدر کی قومی سلامتی کے مشیر رہے، 2003 تا 2005 تک مرکزی جوہری مذاکرات رہے، خود اعتدال پسند سیاسی رہنما ہیں اور انھیں اصلاح پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔انتخابی مہم کے دوران روحانی لوگوں کی بڑی تعداد کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب رہے۔ اس دوران انھوں نے اصلاحات، سیاسی قیدیوں کو آزاد کرنے، شہری حقوق کی ضمانت اور قوم کے تشخص کو بحال کرنے کے وعدے کیے۔

ٹی وی پر مباحثوں میں انھوں نے ان ممنوع موضوعات کو چھیڑا جن پر عمومی طور پر بات نہیں کی جاتی، ان میں عالمی طاقتوں سے جوہری معاملے پر رسہ کشی، تباہ کن بین الاقوامی پابندیاں، معیشت کی بگڑتی صورت حال اور بین الاقوامی برادری سے ایران کی شدید دوری جیسے موضوعات شامل تھے۔ انھوں نے ایران کے دیرینہ دشمن ملک امریکا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا، جو 1979 میں تہران میں امریکا کے سفارت خانے پر قبضے کے بعد منقطع ہوگئے تھے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے انتخابی مہم کے دوران ایران کے عوام پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ انھوں نے کہا تھا کہ سخت گیر موقف رکھنے والے چاہتے ہیں کہ لوگ ووٹ نہ دیں تاکہ وہ بلامقابلہ انتخاب جیت جائیں۔ ایران کی سیاست میں حسن روحانی کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

انھوں نے مختلف عہدوں پر اپنے فرائض ادا کیے۔ وہ پارلیمان میں ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر فائز رہے اور اس کے علاوہ انھوں نے سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل میں آیت اﷲ خامنہ ای کے نمایندے کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ سابق صدر خاتمی کے دور حکومت میں حسن روحانی ایران کے چیف جوہری مذاکرات تھے، اس وقت وہ مرکز تحقیقات کی ایک کونسل کے سربراہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، جو رہبر انقلاب کی صف اول کی مشاورتی کونسل ہے۔ 1999 میں ایک اصلاح پسند اخبار پر بندش کے خلاف طالب علموں کے مظاہروں کے دوران حسن روحانی نے سخت موقف اپنایا تھا اور اعلان کیا تھا کہ جو افراد ریاستی مشینری کو نقصان پہنچانے کے مرتکب ہوںگے انھیں موت کی سزا دی جائے گی۔ لیکن 2009 کے انتخابات کے بعد ہونے والے مظاہروں کی انھوں نے بھرپور حمایت کی تھی اور حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پرامن احتجاج عوام کا حق ہے۔ حسن روحانی انگریزی، جرمن، فرانسیسی، روسی اور عربی روانی سے بول لیتے ہیں۔ انھوں نے اسکاٹ لینڈ کی گلاسگو کیلی ڈونین یونیورسٹی سے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔

ایران کے نو منتخب صدر حسن روحانی نے صدارتی انتخابات کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر زیادہ شفافیت دکھانے کے لیے تیار ہے، لیکن یورینیم کی افزودگی بند نہیں کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سلسلے میں ایران پر عائد پابندیاں غیر منصفانہ ہیں، ایران کے صدر کے پاس محدود طاقت ہوتی ہے اور اہم پالیسی فیصلے رہبر اعلیٰ آیت اﷲ علی خامنہ ای کرتے ہیں۔ مغرب کو شبہ ہے کہ ایران جوہری اسلحہ بنانا چاہتا ہے لیکن ایران کہتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اس پریس کانفرنس میں روحانی نے کئی معاملات پر بات کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت دنیا کے ساتھ تعمیری روابط قائم کرنا چاہتی ہے۔

اصلاح پسندوں کے کئی رہنما گزشتہ چار سال سے گھروں میں قید ہیں، یعنی نظربند ہیں جب کہ کئی جیلوں میں ہیں، انھیں احساس ہوا ہے کہ ووٹرز نے انھیں تبدیلی کا مینڈیٹ دیا ہے۔ اس حقیقت کے برعکس سبز تحریک کے رہنما حسین موسوی اور مہدی کروبی کی طرح حسن روحانی ایک حقیقی اصلاح پسند کے بجائے ایک اعتدال پسند شخصیت ہیں۔ سبز تحریک کے دونوں رہنما اس وقت گھروں پر نظربند ہیں۔ حسن روحانی کی فتح کسی حد تک قدامت پسندوں کے لیے دھچکا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاحات کے حامی ایک بار پھر سیاسی میدان میں آگئے ہیں اور اب وہ بھی ایسی طاقت ہیں جسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سخت گیر اسٹیبلشمنٹ تبدیلی کے پیغام کو پہچان پائے گی جو ووٹرز نے اسے بھیجا ہے؟

امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ ایران میں اصلاح پسند صدر کا منتخب ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہاں کے لوگ دوسری سمت میں چلنا چاہتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ نئے صدر کے انتخاب سے ایران جوہری معاملے پر کوئی بڑی پیش رفت ہوگی، امریکا اور اس کے اتحادی ایران کے ساتھ جوہری تنازع پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن ایران پر عائد پابندیاں اس وقت تک نہیں اٹھائی جاسکتیں جب تک ایران یہ ثابت نہ کرے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنارہا۔

حلف برداری کی تقریب کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے شمالی کوریا کے سینئر عہدیدار سے ملاقات میں کہا تھا کہ امریکا ایٹمی پروگرام کو جواز بناکر ایران سے تصادم کا بہانہ ڈھونڈ رہا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ جولائی میں اسرائیل نے دھمکی دی تھی کہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے لیے امریکا سے پہلے اسرائیل ایران پر حملہ کرسکتا ہے، ایران کے پاس 190 کلو گرام افزودہ یورینیم موجود ہے، جب کہ ایٹم بم بنانے کے لیے 250 کلو گرام یورینیم درکار ہوتا ہے، اسرائیل ایران سے قریب اور زیادہ خطرے میں ہے، ہمیں ایران کا سامنا کرنے کے لیے امریکا سے پہلے ہی تیاری رکھنا ہوگی، ایران کے نئے منتخب صدر حسن روحانی بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا ہیں، وہ مسکراہٹ بکھیر کر ایٹم بم بنانا چاہتے ہیں لیکن انھیں ہرگز اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایسا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک امریکی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا۔ جس کے جواب میں اس وقت کے ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے کہا تھا کہ اگر صہیونیوں نے ایران پر حملہ کیا تو ایرانی عوام اسرائیل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔

ربط۔
 
Top