کیا امت کا اختلاف رحمت ہے ؟!

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عموماً ، ذیل کی روایت کو حدیث کے طور پر پیش کیا جاتا ہے
امت کا اختلاف رحمت ہے (اختلاف امتی رحمۃ)

جیسا کہ بعض جگہوں پر عرض کیا گیا ہے :
جس کی بات آپ کے جی کو لگتی ہے اسے مان لیجئے کہ حدیثِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم تو یہ بھی ہے نا کہ علماء کے اختلاف میں امت کے لئے رحمت ہے۔ (یہاں‌وہ پاکستان اختلاف نہیں علمی اختلاف کی بات ہے جیسا کہ ائمہ کرام کے درمیان تھا اور ہے)۔
حوالہ

البتہ "اختلاف امتی رحمۃ" کے مصداق طالب علمانہ اختلاف کیا جا سکتا ہے ...
حوالہ

حالانکہ یہ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے !

علامہ ابن حزم (رحمة اللہ) نے "الاحکام فی اصول الاحکام" (5 / 64) میں اس روایت کا انکار کرتے ہوئے اور اس کو باطل اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس پر بھرپور تنقید کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ :
امت کے اختلاف کو رحمت کہنا نہایت ہی فاسد قول ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر "اختلافِ امت" رحمت ہے تو "اتفاقِ امت" اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوگا (جبکہ کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں) ، اس لیے کہ اتفاق کے مقابلے میں اختلاف ہے اور رحمت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ اور جب اختلافِ امت رحمت ہے تو اس کی نقیض لازماً یہ ہوگی کہ اتفاقِ امت میں اللہ کی ناراضگی ہے۔
علامہ البانی فرماتے ہیں :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا
اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 82 )
اس آیت میں صراحت موجود ہے کہ اختلاف اللہ پاک کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر شریعت میں اختلاف ہے تو کیسے وہ شریعت اس لائق ہو سکتی ہے کہ اس پر چلا جائے؟ اور کیسے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا نزول قرار دیا جا سکتا ہے؟
شریعتِ اسلامیہ میں اختلاف مذموم ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اختلاف سے بچاؤ ضروری ہے اس لیے کہ اختلافِ امت سے مسلمانوں میں ضعف و اضمحلال نمودار ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے :
وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ
آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی
( سورة الأنفال : 8 ، آیت : 46 )
لیکن اختلاف کو مستحسن گرداننا اور اس کو رحمت قرار دینا درج بالا دونوں آیات قرآنیہ کے خلاف ہے جن میں اختلاف کی صراحتاََ مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اختلاف کو باعثِ رحمت سمجھنے والوں کے ہاں اس روایت کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے جس کا اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

مزید تفصیل یہاں بھی ۔۔۔۔۔
 

باذوق

محفلین
بحوالہ : شیخ محمد صالح المنجد کی فتویٰ سائیٹ "الاسلام سوال و جواب"
سوال :
مندرجہ ذیل حدیث کا درجہ کیا ہے ؟
( میری امت کا اختلاف کرنا باعث رحمت ہے ) ۔
جواب:
الحمد للہ
یہ حديث موضوع ہے ۔
دیکھیں : الاسرار المرفوعۃ ( 506 ) اور " التنزیہ الشریعۃ " ( 2 / 402 ) اور " السلسۃ الضعیفۃ " ( 11 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .


بحوالہ : جاوید احمد غامدی کی سائیٹ "انڈرسٹينڈنگ اسلام"
سوال:
"میری امت میں اختلاف لوگوں کے لیے رحمت ہے"۔ کیا یہ حدیث مستند ہے؟
جواب:
آپ نے جس حدیث کے بارے میں پوچھا ہے غالبا اس کے الفاظ " اختلاف امتی رحمۃ " ہیں۔ اس حدیث کو دور جدید کے مشہور محدث امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ضعیف حدیث قرار دیا ہے ۔ اس لیے اس حدیث کو قابل اعتناء نہیں سمجھنا چاہیے۔
 

خرم

محفلین
بھائی میں نے علماء کے اختلاف کی بات کی تھی آپ نے پوری امت پر منطبق کر دیا۔ شاید یہ دوسری حدیث ہے جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
علماء کی اختلاف ہوسکتا ہے کہ اجتہاد کا شاخسانہ ہو۔۔۔ لیکن اس اختلاف کا حدیث سے اگر کوئی تعلق ہے تو یہ بات ذرا وضاحت طلب ہے۔۔۔ اور میں آپ کی وضاحت کا بےچینی سے انتظار کروں گا۔۔۔
وسلام۔۔۔

بھائی میں نے علماء کے اختلاف کی بات کی تھی آپ نے پوری امت پر منطبق کر دیا۔ شاید یہ دوسری حدیث ہے جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں۔
 

خرم

محفلین
کارتوس بھائی میں سمجھا نہیں۔ میں نے تو صرف یہ عرض کی تھی کہ فرمانِ آقا صل اللہ علیہ وسلم ہے کہ علماء کے اختلاف میں امت کے لئے رحمت ہے۔
 

عُکاشہ

محفلین
کارتوس بھائی میں سمجھا نہیں۔ میں نے تو صرف یہ عرض کی تھی کہ فرمانِ آقا صل اللہ علیہ وسلم ہے کہ علماء کے اختلاف میں امت کے لئے رحمت ہے۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
مسلمانوں کا مسئلہ یہ ھے کہ اول تو دین پر محنت نہیں کرتے ،اور جب کو صاحب علم اگر قرآن کی کسی آیت یا حدیت نبوی سے کسی مسئلے کی وضاحت کر دے تو پھر انا کو مسئلہ بنا کر عقلی گھوڑے دوڑائے جاتے ھیں -بجا ئے قرآن و حدیت پر سرتسلیم خم کیا جائے اپنی پسند کا تقلیدی جواب حاصل کرنے کے لیے بات کو گھمایا جاتا ھے-
خرم صاحب
اللہ کا فرمان ہے کہ اگر تم ميں کسي بات ميں نزاع ہوجائے تو اس معاملے کو اللہ اور اُس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کي طرف پلٹ دو-
النساء 95
اسی طرح ایک اور جگہ اللہ فرماتا ھے :-
تم وہ بہترين امت ہو جو لوگوں کي اصلاح کے لئے دنيا ميں اتاري گئي ہيں جو بھلائي کي دعوت ديتے ہيں اور برائي سے روکتےہيں-
آل عمرآن 110
ان آیت سے واضح ہوتا ھے کہ کسی قسم کا اختلاف ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو- اب جب حدیث نبی سے ثابت ہی نہیں تو اس حدیث کو بنیاد بنا کر فرقہ واریت کو ہوا دینا صحیح نھیں
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ھے :-
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ
ترجمہ - اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو،
آل عمرآن آیت 103
ایک اور جگہ اللہ فرماتا ھے :-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمون
آل عمرآن آیت 102
ترجمہ - اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو-

اسلام اختلافات کي اجازت ہي نہيں ديا وہ تو اہل کتاب سے بھي کہتا ہے
او ايک ايسے کلمے کي طرف جو تمہارے اورہمارے درميان يکساں ہے کہ ہم سب مل کر ايک اللہ کي عبادت کريں-
وسلام
وماعلینا الاّلبلاغ
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!؛
محترم خرم صاحب!۔ دینی معاملات میں عرض یا عرضیاں نہیں چلتیں۔۔۔ اور پھر جو بات آپ نے کی علماء کی تو بھائی علماء تو حنفی بھی ہیں، شافعی بھی ہیں، مالکی بھی ہیں، حنبلی بھی ہیں شیعہ علماء بھی ہیں اور اب جب کے آئیں معطل ہے تو قادیانی بھی مسلمان ہیں تو علماء تو اُن میں بھی ہیں۔۔۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ جن علماء کے درمیان اختلاف کو اُمت میں رحمت کی ڈگری دی جارہی ہے کیا اُس وقت علماء کا کوئی تصور تھا؟۔۔۔ اب ذرا سوچیں کہ اللہ رب العزت جو وحدہ لاشریک ہے اُس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا تو اب کُن فیکون سے کون اختلاف کر سکتا ہے یا تو شیطان یا پھر شیطان کے مربعی یا پھر وہ لوگ جو انبیاء سے زیادہ اماموں کے نام کی ڈفلیاں (اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ) پیٹتے ہیں یا پھر وہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو مانتے ہیں لیکن ختم نبوت کے انکاری ہیں۔۔۔ سیدھی بات یہ ہے کہ قرآن نے جس کو بہترین اُمت کے لقب سے نواز۔۔۔ قرآن نے جس اُمت کے بارے میں یہ تاثر دیا کہ آپس میں ایک دوسرے سے نرم ہیں۔۔۔ تو پھر اُس اُمت کے درمیان اختلاف رحمت کیسے ہوسکتا ہے؟؟؟۔۔۔ چھوٹی سی بات ہے اگر آپ کا اپنے بھائی سے کسی چھوٹی سے بات پر اختلاف ہوجائے تو کیا اس کو آپ گھروالوں کے لئے رحمت سے تعبیر کریں گے۔۔۔ اختلاف حابیل اور قابیل میں بھی ہوا تھا انجام پڑھا ہوگا آپ نے۔۔۔ المہم آپ کی اس عرض پر بانگ درا کو وہ شعر عرض کردوں جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ!۔

ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے نا دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
سوچو۔۔۔

وسلام۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
علامہ ابن حزم (رحمة اللہ) نے "الاحکام فی اصول الاحکام" (5 / 64) میں اس روایت کا انکار کرتے ہوئے اور اس کو باطل اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس پر بھرپور تنقید کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ :
امت کے اختلاف کو رحمت کہنا نہایت ہی فاسد قول ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر "اختلافِ امت" رحمت ہے تو "اتفاقِ امت" اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوگا (جبکہ کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں) ، اس لیے کہ اتفاق کے مقابلے میں اختلاف ہے اور رحمت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ اور جب اختلافِ امت رحمت ہے تو اس کی نقیض لازماً یہ ہوگی کہ اتفاقِ امت میں اللہ کی ناراضگی ہے۔
علامہ البانی فرماتے ہیں :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا
اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 82 )
اس آیت میں صراحت موجود ہے کہ اختلاف اللہ پاک کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر شریعت میں اختلاف ہے تو کیسے وہ شریعت اس لائق ہو سکتی ہے کہ اس پر چلا جائے؟ اور کیسے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا نزول قرار دیا جا سکتا ہے؟

میں اپنی کم علمی کے باوجود اس مسئلے پر جتنا غور و فکر کر سکتی تھی اسکے بعد میری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ صرف اور صرف رسول (ص) کی ذات معصوم تھی۔

مطلب یہ کہ جب بھی بات غیر معصومین تک پہنچے گی، اختلافِ رائے کا ہونا ایسا فطرتی عمل ہے کہ جس کا انکار ممکن نہیں۔

یہ اختلافِ رائے صحابہ کے دور سے ہی شروع ہے اور صحابہ میں بھی فقہیہ صحابہ ایک دوسرے سے شریعتِ اسلامیہ میں مجھے اختلاف رائے رکھتے نظر آئے ہیں۔ (نہ صرف شریعتِ اسلامیہ میں اختلاف ہوا، بلکہ جب شریعت کے اصول عملی زندگی میں لاگو کرنے پڑے تو یہ اختلافِ رائے بڑھتا ہی چلا گیا اور "اجتہادی غلطیوں" کی اصطلاح بھی مجھے یہاں نظر آئی۔

صحابہ سے یہ اختلافِ رائے تابعین، پھر فقہائے سلف میں نظر آئے اور پھر ان سے ہوتے ہوئے فقہائے خلف تک پہنچے۔ اور یہ اختلافات کسی ایک فرقے یا گروہ تک محدود نہیں بلکہ ہر ہر گروہ مجھے اپنے اندر بھی اختلاف کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اگر میں اہل تشیع سےتعلق رکھتی ہوں تو انکے اندر کے اختلافات کو زیادہ بہتر جانتی ہوں۔ اسی طرح اہلحدیث میں البانی صاحب عورت کے چہرے کے پردے کے متعلق ابن باز اور مودودی صاحب سے کھلا اختلاف کر رہے ہیں۔ اور سماعتِ موتی کے مسئلے پر ابن تیمیہ اور ابن قیم سے آج تمام اہلحدیث علماء اختلاف کر رہے ہیں۔

تو کیا اب ہم ان تمام اختلافات کو ابن حزم کی طرح باطل کی طرف سے قرار دے دیں؟ اور کیا "اجتہادی غلطی" اور اس پر ملنے والے "سنگل ثواب" کو بھی باطل قرار دے دیں؟۔۔۔۔۔۔

ؕؕؕؕؕ

مجھے "اختلافِ امت رحمت" والی حدیث کے صحیح یا غلط ہونے کی بحث نہیں کرنی۔ مگر میری ناقص رائے کے مطابق یہ چیز ثابت شدہ ہے کہ اللہ کو علم تھا کہ انسان کی فطرت میں اختلاف رائے ہے اور اسکا طریقہ بھی اللہ نے بتا دیا ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ تو اگر اللہ کے بتائے ہوئے اس طریقے سے ان مسائل کو حل کیا جائے تو میں خرم برادر سے متفق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ یہ اختلاف امت کے لیے باعث رحمت ہی بن جائے گا۔

اللھم صلی علی محمد و آل محمد۔
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔۔۔ اختلافِ رائے کا ہونا ایسا فطرتی عمل ہے کہ جس کا انکار ممکن نہیں۔
مجھے "اختلافِ امت رحمت" والی حدیث کے صحیح یا غلط ہونے کی بحث نہیں کرنی۔ مگر میری ناقص رائے کے مطابق یہ چیز ثابت شدہ ہے کہ اللہ کو علم تھا کہ انسان کی فطرت میں اختلاف رائے ہے اور اسکا طریقہ بھی اللہ نے بتا دیا ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ تو اگر اللہ کے بتائے ہوئے اس طریقے سے ان مسائل کو حل کیا جائے تو میں خرم برادر سے متفق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ یہ اختلاف امت کے لیے باعث رحمت ہی بن جائے گا۔
جس "اختلاف" کی بات کی جا رہی ہے ، اس پر تفصیلی بحث ، پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی نے اپنے ایک مضمون "اختلافِ تعبیر قرآن اور منکرینِ حدیث" میں بہت عمدہ انداز میں کی ہے۔ یہ مضمون محدث کے اسی شمارے میں موجود ہے جس کا ذکر میں نے یہاں کیا ہے۔
مختصر مفہوم یوں ہے کہ :
قرآن کی ہر قسم کی آیات میں تعبیرِ اختلاف کی گنجائش ہے۔ قرآن کے احکام و قوانین سے متعلقہ حصے میں تعبیر کا اختلاف ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے اور یہ اختلاف نیک نیتی کے باوجود بھی ہو سکتا ہے اور بدنیتی کے نتیجے میں بھی پیدا ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ قرآن میں جس اختلاف کی نفی کی گئی ہے ، وہ مطلق اختلاف نہیں بلکہ ایسا اختلاف ہے جو ناقابل توجیہ ہے ورنہ قابل توجیہ اختلاف تو فی الواقعی قرآن میں موجود ہے اور علماءِ امت کا غور و فکر ایسے اختلاف کو رفع کرتا رہا ہے۔

امام ابن حزم اور علامہ البانی کا اشارہ غالباً اسی "ناقابل توجیہ اختلاف" کی جانب رہا ہے۔
 

باذوق

محفلین
کارتوس بھائی میں سمجھا نہیں۔ میں نے تو صرف یہ عرض کی تھی کہ فرمانِ آقا صل اللہ علیہ وسلم ہے کہ علماء کے اختلاف میں امت کے لئے رحمت ہے۔
جنابِ محترم !
یہی تو وہ ناقابلِ توجیہ مذموم اختلاف ہے ، جس کی ممانعت کی جا رہی ہے !

محدثین کے حوالے سے جب ایک روایت ثابت کی جا چکی ہے کہ : یہ فرمانِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں‌ ہے ! اور ہم تمام کو یہ بھی معلوم ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب غیر ثابت شدہ بات منسوب کرنا کتنا بڑا جرم ہے ۔۔۔۔۔۔
پھر بھی ہم اُس غیر ثابت شدہ روایت کو فرمانِ آقا صل اللہ علیہ وسلم کا نام دیں اور ان محدثین سے اختلاف کریں‌ جو ایسی روایت کو "موضوع" قرار دیتے ہوں ۔۔۔ تو ۔۔۔۔
تو یہی وہ "ناقابلِ توجیہ اختلاف" ہے جس کی قرآن بجا طور پر مذمت کرتا ہے !!
ہاں ، اگر آپ اس اختلاف کو (یعنی : اس روایت کے صحیح ہونے کو) قابلِ توجیہ سمجھتے ہوں تو پھر یہ آپ کا فرض ہے کہ اس کی "توجیہ" پیش فرمائیں۔ یعنی ، محدثین ہی کی وہ "دوسری" تحقیق پیش فرمائیں جس میں‌ انہوں‌ نے اس روایت کو "صحیح" قرار دیا ہو !!
 

خرم

محفلین
باذوق بھائی آپ جس روایت کا حوالیہ دے رہے ہیں اس میں "امت کا اختلاف" کے الفاظ ہیں‌اور میں جس حدیث کا مفہوم بیان کر رہا ہوں‌اس میں "امت کے علماء کے اختلاف" کی بات ہے۔ میرے خیال میں تو دونوں الگ باتیں ہیں۔ شاید ہم الگ الگ احادیث کی بات کر رہے ہیں۔
 
میرا بھی یہی خیال ہے کہ خرم علما میں اختلاف کی بات کر رہے ہیں جو کسی مسئلہ کو سمجھنے اور اس کی تشریح میں پیش آتی ہے التبہ باذوق کی یہ بات درست ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے اور عین ممکن ہے کہ فقہا کی اس رائے کو کسی نے حدیث کے طور پر پیش کر دیا ہو جو بعد میں باطل ہوئی۔

میری رائے میں یہاں اختلاف نزاعی نہیں بلکہ فقط لفظی ہے۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
علماء کے درمیاں علمی اختلاف کے مسائل پر تفصیل سے پڑھنے کے لئے یہاں پر‌ کلک کریں۔۔۔
وسلام۔۔۔
 

عُکاشہ

محفلین
میں اپنی کم علمی کے باوجود اس مسئلے پر جتنا غور و فکر کر سکتی تھی۔
ؕؕؕؕؕمجھے "اختلافِ امت رحمت" والی حدیث کے صحیح یا غلط ہونے کی بحث نہیں کرنی۔ مگر میری ناقص رائے کے مطابق یہ چیز ثابت شدہ ہے کہ اللہ کو علم تھا کہ انسان کی فطرت میں اختلاف رائے ہے اور اسکا طریقہ بھی اللہ نے بتا دیا ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ تو اگر اللہ کے بتائے ہوئے اس طریقے سے ان مسائل کو حل کیا جائے تو میں خرم برادر سے متفق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ یہ اختلاف امت کے لیے باعث رحمت ہی بن جائے گا۔

اللھم صلی علی محمد و آل محمد۔

السلام علیکم !
!
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ کو علم تھا کہ انسان کی فطرت میں اختلاف رائےھے اسکا طریقہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا ،وہاں سے یہ طریقہ صحابہ کرام پھر تابعین اور تبع تابعین سے ھم تک پہنچا اور وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع-اب اس کا مطلب یہ نہیں اختلافِ امت رحمت کو بنیاد بنا کر جو چاہیں کریں- قرآن وحدیث سے جو چیز ثابت ہی نہیں اختلافِ امت رحمت کا نام دے کر لیتے رہیں-
جہاں آپ کا یہ کہنا کہ میں خرم برادر سے اس بات پراتفاق کرتی ھوں کہ یہ اختلاف امت کے لیے باعث رحمت ہی بن جائے گا۔صحیح کہا آپ نے کیونکہ جتنا آپ کے پاس علم ہو گا،اتنا آپ بات کو سمجھیں گی-

وسلام
 

خرم

محفلین
اب اس کا مطلب یہ نہیں اختلافِ امت رحمت کو بنیاد بنا کر جو چاہیں کریں- قرآن وحدیث سے جو چیز ثابت ہی نہیں اختلافِ امت رحمت کا نام دے کر لیتے رہیں-
یہ بات تو کسی نے کی ہی نہیں عکاشہ بہن۔ جو چیز خلافِ قرآن، حدیث، افعالِ صحابہ و ائمہ کرام ہو اس کے تو ماننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہاں تو ایک خالصتاً علمی اختلاف کی بات ہو رہی ہے جیسا کہ ائمہ اربعہ کے درمیان ہے۔
 

عُکاشہ

محفلین
یہ بات تو کسی نے کی ہی نہیں عکاشہ بہن۔ جو چیز خلافِ قرآن، حدیث، افعالِ صحابہ و ائمہ کرام ہو اس کے تو ماننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہاں تو ایک خالصتاً علمی اختلاف کی بات ہو رہی ہے جیسا کہ ائمہ اربعہ کے درمیان ہے۔

السلام علیکم !
پہلی بات یہ ھے کہ یہ نام عکاشہ بھائی ھے -بھائی اگر مخصوص مکتب فکر کی تقلید سے ہٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا ہوتا تو پتا ھوتا کہ عکاشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کا نام ھے جو کہ اہل بدر میں سے تھے -
آپ نے کہا کہ خالصتاً علمی اختلاف کی بات ہو رہی ہے جیسا کہ ائمہ اربعہ کے درمیان ھے ،بھائی آئمہ اور بھی تو تھے ،جیسے امام حس بصری ،امام غزالی وغیرہ ،ان سب کے درمیان اختلاف تھا نہ کہ صرف چار امام -آئمہ کے درمیان احتلاف راہ ھے ،لیکن سوال یہ ھے کہ مسلمان کیا کرے :-
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ھے :-
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ
ترجمہ "اور تم سب اللہ کی رسی کو تھام لو ،اور تفرقہ نہ کرو آلِ عمران آیت 103
اللہ اختلاف سے منع کر رہے ھیں ،اب اس صورت میں کیا کرنا چاہیے،اس کا جواب بھی قرآن میں موجود ھے:
ترجمہ :- اللہ کا فرمان ہے کہ اگر تم ميں کسي بات ميں نزاع ہوجائے تو اس معاملے کو اللہ اور اُس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کي طرف پلٹ دو-
النساء 59
صاف ظاہر ھے کہ جب اختلاف ھو جائے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طر لوٹایا جائے-نہ کہ اختلاف رحمت کا نام لے کر کسی کی پیروی کی جائے-
وسلام !
 

باذوق

محفلین
باذوق بھائی آپ جس روایت کا حوالیہ دے رہے ہیں اس میں "امت کا اختلاف" کے الفاظ ہیں‌اور میں جس حدیث کا مفہوم بیان کر رہا ہوں‌اس میں "امت کے علماء کے اختلاف" کی بات ہے۔ میرے خیال میں تو دونوں الگ باتیں ہیں۔ شاید ہم الگ الگ احادیث کی بات کر رہے ہیں۔
میرے نزدیک تو یہ دونوں‌ روایات
  • امت کا اختلاف رحمت ہے
    [*]امت کے علماء کا اختلاف رحمت ہے
ایک ہی مفہوم کو بیان کرتی ہیں۔ وجہ یہی کہ علماء بھی تو امت ہی میں‌ شامل ہیں۔ کیا علماء ، امت سے ہٹ کر کوئی الگ شئے ہیں؟ :rolleyes:
دوسری بات یہ کہ "امت کے علماء کا اختلاف رحمت ہے" اگر کوئی مختلف روایت ہے تو اس کی مکمل سند کیا ہے ؟ اور یہ کس کتابِ حدیث‌ میں‌ درج ہے؟
حدیث کا معاملہ بے انتہا احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی لیے بار بار کہا جاتا ہے کہ جب تک کسی روایت کی سند سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچے ، اس کو قولِ نبی (ص) یا فرمانِ آقا (ص) کہہ کر بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے !!

اور علماء کی جس اختلاف کی بات ہو رہی ہے وہ "قابلِ توجیہ اختلاف" ہے جو قابلِ مذمت نہیں ، البتہ ناقابلِ توجیہ اختلاف ، ہمیشہ سے مذموم رہا ہے اور تاقیامت رہے گا بھی !!
 

خرم

محفلین
السلام علیکم !
پہلی بات یہ ھے کہ یہ نام عکاشہ بھائی ھے -بھائی اگر مخصوص مکتب فکر کی تقلید سے ہٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا ہوتا تو پتا ھوتا کہ عکاشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کا نام ھے جو کہ اہل بدر میں سے تھے -
آپ نے کہا کہ خالصتاً علمی اختلاف کی بات ہو رہی ہے جیسا کہ ائمہ اربعہ کے درمیان ھے ،بھائی آئمہ اور بھی تو تھے ،جیسے امام حس بصری ،امام غزالی وغیرہ ،ان سب کے درمیان اختلاف تھا نہ کہ صرف چار امام -آئمہ کے درمیان احتلاف راہ ھے ،لیکن سوال یہ ھے کہ مسلمان کیا کرے :-
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ھے :-
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ
ترجمہ "اور تم سب اللہ کی رسی کو تھام لو ،اور تفرقہ نہ کرو آلِ عمران آیت 103
اللہ اختلاف سے منع کر رہے ھیں ،اب اس صورت میں کیا کرنا چاہیے،اس کا جواب بھی قرآن میں موجود ھے:
ترجمہ :- اللہ کا فرمان ہے کہ اگر تم ميں کسي بات ميں نزاع ہوجائے تو اس معاملے کو اللہ اور اُس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کي طرف پلٹ دو-
النساء 59
صاف ظاہر ھے کہ جب اختلاف ھو جائے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طر لوٹایا جائے-نہ کہ اختلاف رحمت کا نام لے کر کسی کی پیروی کی جائے-
وسلام !
اللہ آپ کو جزا دے کہ میری جہالت میں سے ایک چیز اور کم کردی۔ سیرت نبوی صل اللہ علیہ وسلم سے ناواقفیت کی بات بھی آپ کی بالکل درست ہے۔ دعا ہے کہ اللہ کریم میری اس خامی کو دور فرمائیں۔ آمین۔
باقی کوئی ایسی بات نہیں جس کے لئے بحث کو بڑھایا جائے۔ ائمہ کا اختلاف ایک حقیقت ہے اور آپ نے اسے تسلیم کیا۔ اب میں جو بات مجھ تک پہنچی اس کی وجہ سے یہ مانتا ہوں کہ یہ اختلاف امت کے لئے رحمت ہے۔ آپ اس کے خلاف مانتے ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ اللہ مجھے ہدایت دے۔ آمین۔
 
"ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے تفرقہ برپا کیا اور اختلاف کیا بعد اس کے کہ ان کے پاس بینات آ چکی تھیں، وہی ہیں جن کے لیے عذاب الیم ہے" (آل عمران)
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔۔۔اب میں جو بات مجھ تک پہنچی اس کی وجہ سے یہ مانتا ہوں کہ یہ اختلاف امت کے لئے رحمت ہے۔ آپ اس کے خلاف مانتے ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ اللہ مجھے ہدایت دے۔ آمین۔
جو بات مجھ تک پہنچی اس کی وجہ سے یہ مانتا ہوں کہ یہ اختلاف امت کے لئے رحمت ہے۔
ہاں ایسا کہئے ، یہی بہتر ہے ! :)
ورنہ جو "قول" ثابت ہو چکا ہو کہ وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان نہیں‌ ہے ، اس کو زبردستی رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) سے منسوب کرنا قطعاَ جائز نہیں‌ !!
 
Top