کیا اب صرف شاہ پرست صحافی کام کرسکیں گے؟

جاسم محمد

محفلین
کیا اب صرف شاہ پرست صحافی کام کرسکیں گے؟
07/07/2019 سید مجاہد علی



سوشل میڈیا پر ملک میں نامور صحافیوں اور اینکرز کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ اس میں ملک دشمن صحافیوں کو گرفتار کرنے اور پھانسی دینے کے مطالبے سامنے لائے گئے ہیں۔ اب ممتاز صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے بتایا ہے کہ انہیں براہ راست دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ ملک میں جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے ایسے کون سے عناصر ہیں جنہیں خود مختاری سے کام کرنے والے صحافی برے لگتے ہیں۔ یا ایک جمہوری حکومت کیوں ملک کے صحافیوں کو دباؤ میں لا کر ایک طرح کے سیاسی بیانیے کو مروج کرنا چاہتی ہے۔ ان سوالات کا جواب دستیاب ہوجائے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ایسی کوئی حکومت جمہوری کہلانے کی اہل ہوسکتی ہے جو آزادانہ اظہار رائے اور ’قابو میں نہ آنے والے‘ صحافیوں کو خاموش کروانے کے لئے نفرت انگیز مہم کے علاوہ براہ راست دھمکیوں پر اتر آئی ہو۔

پرویز مشرف کی طویل فوجی آمریت کے بعد 2008 کے انتخابات کے بعد پاکستان میں جمہوریت کا جو دور شروع ہؤا تھا، اس میں تحریک انصاف کے دور میں ڈگمگانے اور ضعف اختیار کرنے کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی حکومتوں میں بھی جمہوریت کے حوالے سے حالات بہت اچھے نہیں تھے لیکن میڈیا کو حاصل ہونے والی آزادی کی وجہ سے حکومت کی بداعمالیوں پر نگاہ رکھنے کا کام بہر حال ہورہا تھا۔ تحریک انصاف نے برسراقتدار آنے کے بعد اس طریقہ کو بدلنے اور میڈیا ہاؤسز کو قابو میں کرنے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے اختیارکیے ہیں۔

2018 کے انتخابات سے پہلے ہی میڈیا ہاؤسز پر پابندیوں، بعض علاقوں میں ناپسندیدہ نشریات کو روکنے اور مالکان پر دباؤ کے ذریعے خبروں اور تبصروں کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوگیا تھا۔ انہی کوششوں کے نتیجہ میں میڈیا ہاؤسز میں ’سیلف سنسر شپ‘ کی اصطلاح کا استعمال عام ہؤا تھا۔ یعنی ایڈیٹر و نیوز ایڈیٹر ایسی خبریں اور پروگرام کی اشاعت روکنے کا اہتمام کرنے لگے تھے جو کسی نہ کسی طرح سے ملک کے حکمرانوں کو گراں گزرنے کا احتمال ہوتا ہو۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ نے پریس کانفرنسوں اور میڈیا مالکان کے ساتھ ملاقاتوں میں ان حدود کا تعین کرنا شروع کیا تھا جو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے خیال میں قومی مفادات یا اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے ضروری تھیں۔ تاہم اس مدت میں یہ الزام عام طور سے سول حکومت کی بجائے ایسے ریاستی اداروں پر عائد کیاجاتا رہا ہے جو براہ راست میڈیا کو کنٹرول کرنے کا اختیار تو نہیں رکھتے لیکن پھر بھی ان کی نگرانی میں کیبل آپریٹرز یا دیگر سرکاری اداروں کے ذریعے میڈیا کو عاجز کرنے اور اپنی مرضی کے خلاف کام کرنے والے اداروں کا بلیک آؤٹ کرنے کی منظم کوششیں کی گئیں۔

اس طرح بیشتر میڈیا ہاؤسز اور مالکان نے ان غیرعلانیہ حدود کو تسلیم کرلیا جو ان کے لئے متعین کی گئی تھیں۔ گزشتہ دو تین سال کے دوران متعدد بار یہ اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں کہ کسی مشہور اور مستقل کالم نگار کا کالم شائع نہیں ہوسکا یا اس کا ’زہر‘ نکال کر اسے شائع کیا گیا۔ اسی طرح متعدد ٹی وی پروگراموں کو نشر ہونے سے روکا گیا۔ تاہم اس کی ذمہ داری کسی سرکاری ادارے، اتھارٹی، عدالت یاحکومت پر عائد نہیں ہوتی تھی بلکہ خود میڈیا ہاؤسز کے مدیران یہ کام سرانجام دینے لگے تھے۔

میڈیا ہاؤسز کی اس اطاعت شعاری کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے بڑی وجہ مالی معاملات ہیں۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کو ملنے والے اکثر اشتہارات مرکزی اور صوبائی حکومتیں فراہم کرتی ہیں۔ ملک کے بیشتر تجارتی و صنعتی ادارے بھی ایسے میڈیا کو اشتہار نہیں دیتے جو حکومت یا ریاستی اداروں کے پسندیدہ نہ ہوں۔ ملک کے بیشتر میڈیا ہاؤسز نجی ملکیت میں ہیں جن کے مالکان مالی نقصان برداشت کرکے ’آزادی رائے‘ کی حفاظت کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ تکنیکی لحاظ سے اکثر میڈیا مالکان خود ہی اپنے اداروں کی نشریات اور مطبوعات کے مدیر بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ مالک کے طور پر مالی فائدہ دیکھتے ہیں اور ایڈیٹر کے طور پر ان فیصلوں کو نافذ کرتے ہیں جو ان کے ادارے کی مالی منفعت کے لئے ضروری ہوں۔ اس طرح صحافت کی غیر جانبداری اور خبر کی سچائی مصلوب ہوتی ہے۔ ملک میں عامل صحافیوں کی طاقت ور تنظیمیں نہ ہونے کی وجہ سے مالکان اور بالواسطہ طور سے حکومت اور ریاستی ادارے دراصل ملک میں صحافت کے خد و خال تشکیل دے رہے ہیں۔

اس حکمت عملی کا ہی نتیجہ تھا کہ پشتون نوجوانوں کی تنظیم پی ٹی ایم کو جب ناپسندیدہ قرار دیا جانے لگا اور آئی ایس پی آر کے سربراہ ’اپنے ہی ان نوجوانوں‘ کو سرکش قرار دیتے ہوئے راہ راست پر آنے کا پیغام دینے لگے تو میڈیا میں بھی ان کی خبروں اور بیانات کا بائیکاٹ شروع ہوگیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے زیر اہتمام ہونے والے بڑے جلسوں اور دھرنوں کو قومی میڈیا میں یوں نظر انداز کیا گیا جیسے کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہؤا۔

اس تنظیم کے لیڈروں کا خبروں اور مذاکروں میں داخلہ ممنوع کروانے کے بعد سوشل میڈیا کے علاوہ قومی میڈیا کو بھی پشتون نوجوانوں کی کردار کشی کے لئے استعمال کیا گیا۔ بعض میڈیا ہاؤسز کو عسکری اداروں کی بالواسطہ اعانت اور سرپرستی حاصل ہونے کی خبریں بھی سامنے آنے لگیں اور ان کے ذریعے ملک کے باقی میڈیا کو اپنی روش درست کرنے یا ریٹنگ اور آمدنی سے محروم ہونے کا پیغام دیا جانے لگا۔

تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ اب پسندیدہ اور چنیدہ حکومت کی موجودگی میں میڈیا کو کوئی ریلیف مل سکے گا اور متوازن اور غیر جانبدارانہ خبروں کی ترسیل میں حائل رکاوٹیں ختم ہوسکیں گی۔ لیکن عمران خان کی کابینہ میں اطلاعات و نشریات کے سابق وزیر فواد چوہدری نے متعدد اقدامات کے ذریعے میڈیا ہاؤسز پر واضح کردیا کہ حکومت کی بچت اسکیم کی وجہ سے اب سرکاری اشتہاروں پر انحصار ختم کیا جائے۔

قومی بچت کے نام پر دیا جانے والا یہ مشورہ دراصل میڈیا کی معاشی ناکہ بندی کا طریقہ تھا تاکہ وہ کسی چوں و چرا کے بغیر حکومت کی تائید اور اس کے مخالفین کی کردار کشی کا فریضہ نبھانے کا ’مقدس‘ کام شروع کردے۔ میڈیا نے کسی حد تک اس جبر پر صاد بھی کیا لیکن تحریک انصاف کی حکومت مکمل اطاعت کی توقع رکھتی ہے اور میڈیا میں کسی قسم کی مخالفانہ اور تنقیدی رائے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

حکومت کی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر نامور صحافیوں کے نام لے کر انہیں گرفتار کرنے اور قومی مفاد کے خلاف کام کرنے پر ان کی آواز بند کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ حکومت نے اگرچہ اس مہم کا سرپرست ہونے کا اعتراف نہیں کیا لیکن یہ مہم چلانے والے اس بات کو خفیہ بھی نہیں رکھتے کہ دراصل وہ کس کے نمائندے ہیں اور کن لوگوں کی حمایت کررہے ہیں۔ اب جیو ٹی وی کے اینکر حامد میر اور آج نیوز کی اینکر عاصمہ شیرازی نے بی بی سی کو انٹرویو میں براہ راست سنگین نتائج کی دھمکیوں کے پیغامات ملنے کے بارے میں بتایا ہے۔ حامد میر کاکہنا ہے کہ فوج کا شعبہ تعلقات عامہ ان عناصر سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے لیکن دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور حکومت یا اس کا کوئی ادارہ اس کا نوٹس لینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔

ملک میں ایسی صورت حال پیدا کی جارہی ہے جہاں آزادانہ رائے کا اظہار اور غیر جانبدارانہ خبروں کی ترسیل مشکل بنا دی گئی ہے۔ میڈیا مالکان بڑی حد تک اس منصوبہ میں حکومت یا اس کے اداروں کی اعانت کرنے پر راضی ہیں۔ سال بھر پہلے میڈیا کی آواز دبانے کا جو کام خفیہ ادارے یا نامعلوم لوگ کررہے تھے، اب وہی کام حکومت اور اس کے نامزد لوگ کرنے پر مامور ہیں۔ حکومت میں اطلاعات کی وزارت کے نگران آزادی صحافت کی بات کرتے ہوئے اگلی ہی سانس میں دھمکیوں پر اتر آتے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو اپنے بیانیہ اور طریقہ کار کے خلاف کسی قسم کی رائے کا اظہار منظور نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں حامد میر کے پروگرام میں آصف علی زرادری کا براہ راست انٹرویو اچانک روک لیا گیا۔ حامد میر نے اس کا الزام نادیدہ ہاتھوں پر عائد کیا لیکن دو روز بعد یہ ’نادیدہ ہاتھ‘ فردوس عاشق اعوان کی صورت میں اس انٹرویو کو رکوانے کی ذمہ داری قبول کررہے تھے۔

وزیر اعظم عمران خان اگر سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کے علاوہ میڈیا کو پابہ زنجیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں جان لینا چاہیے کہ سیاست کے اس سفر میں جب ان کے لئے زوال کا موسم آئے گا تو یہی میڈیا ان کا ہمنوا ہوکر حفاظت کے لئے میدان میں آئے گا۔ عامل اور غیر جانبدار صحافی کسی کا ذاتی دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ کسی بھی رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن رائے کو دبانے یا متبادل رائے کو دشمن تصور کرنے والی حکومت، جمہوریت کی بنیادی صفت سے انکار کرتی ہے۔ اس طرح وہ خود ہی اپنے ہونے کے جواز سے محروم ہوجاتی ہے۔

ملک میں شاہ کی مدح میں قصیدہ گوئی کرنے والا میڈیا حکمرانوں کو کتنا ہی کیوں نہ بھائے، لیکن وہ اپنا اعتبار اور بھروسہ ختم کرچکا ہوتا ہے۔ میڈیا پر متوازن اور اختلافی آوازیں جمہوریت کا حسن اور حکومت کی طاقت ہوتی ہیں۔ انہیں خطرہ سمجھنے والی حکومت طاقتور نہیں، کمزور اور بے سہارا ہو جاتی ہے۔
 
Top