کچھ حال اپنے سے عیاں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

کچھ حال اپنے سے عیاں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

سوچو تو اتنا بے اماں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

کچھ حال اپنے سے عیاں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

سوچو تو اتنا بے اماں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

کچھ کام آ جاتے ہیں ہم لوگوں کے کاروبار میں

عمرِ رواں میں رائگاں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

نسبت تو ہم کو تھی مگر گھٹتی گئی وہ دن بدن

آدم کا سچا ترجماں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

اس زندگی کی لوچ میں موجود تو ہیں جسم و جاں

لیکن کہاں روحِ رواں، تو بھی نہیں میں بھی نہیں

چلتے رہے ہیں ہم یہاں حاجت روی کی چال پر

لیکن امیرِ داستاں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

اشکوں نے اپنے زور پر لفظوں کو روکے ہی رکھا

یوں تو یہاں پر بے زباں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

احسان اپنی ذہن میں آیا ہے جو وہ کہہ دیا

ورنہ تو کوئی نکتہ داں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

احسان الٰہی احسان
 
Top