کچھ بہتر ہی ہے نا ہم سے۔

shaokar11

محفلین
جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے انبیاء اور ولی اور انکی تعلیمات انسانی حقوق اور آزادیوں کے جدید تصور سے ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوگئے ہیں۔
مسلمان مذہب کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور صدیوں کے سفر اور تغیرات کے باوجود انکی یہ سوچ برقرار ہے جبکہ ہم نے مذہب کو عملاً زندگی سے علیحدہ کردیا ہے۔اس لیے ہم اب مسیحت بمقابلہ اسلام کی نہیں بلکہ مغربی تہذیب بمقابلہ اسلام کی بات کرتے ہیں۔اور اس بنیاد پر یہ بھی چاہتے ہیں کہ جب ہم اپنے پیغمبروں یا انکی تعلیم کا مذاق اڑا سکتے ہیں تو آخر باقی مذاہب کا کیوں نہیں۔لیکن کیا یہ رویہ واقعی اتنا ہی بے ساختہ ہے؟
مجھے یاد ہے کہ کوئی دس بارہ برس پہلے ایک فلم لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ ریلیز ہوئی تھی جس میں حضرت عیسٰی کو ایک عورت کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دکھانے پر بہت شور مچا تھا۔پیرس میں کسی نے مشتعل ہوکر ایک سنیما کو نذرِ آتش کردیا تھا اور ایک فرانسیسی نوجوان قتل بھی ہوا تھا۔
اس بات کا کیا مطلب ہے۔ایک طرف تو ہم میں سے ہی بعض لوگ اپنے مذہبی جذبات کی توہین برداشت نہیں کرپاتے مگر ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ مسلمان آزادی اظہار کے ناطے گھٹیا ذوق کے کارٹونوں کی اشاعت پر برداشت سے کام لیں۔
جب بعض مغربی رہنما یہ کہتے ہیں کہ وہ اخبارات یا آزادی اظہار پر قدغن نہیں لگا سکتے تو مجھے ہنسی بھی آتی ہے۔
سوچئے اگر متنازعہ کارٹون میں پیغمبرِ اسلام کے بجائے بم والے ڈیزائن کی ٹوپی کسی یہودی رباعی کے سر پر دکھائی جاتی تو کیا شور نہ مچتا کہ اس سے اینٹی سیمٹ ازم کی بو آتی ہے اور یہودیوں کی مذہبی دل آزاری کی جارہی ہے۔اگر آزادی اظہار کی حرمت کا ہی مسئلہ ہے تو پھر فرانس، جرمنی یا آسٹریا میں اس بات کو چیلنج کرنا قانوناً کیوں جرم ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کی نسل کشی نہیں کی گئی تھی۔
ان کارٹونوں کی اشاعت سے اگر ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی جو مسلمانوں میں مذہبی اصلاح یا اعتدال پسندی کے حامی ہیں اور روشن خیالی کے مباحث کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اس پر بہت کم لوگوں کو اعتراض ہوتا۔
لیکن ان کارٹونوں سے سوائے اسکے اور کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام ایک پرتشدد مذہب ہے۔ان کارٹونوں نے چہار جانب اشتعال پھیلانے کے اور کیا مثبت کام کیا ہے۔
(قارئین یہ اقتباسات مشہور کالم نگار اور صحافی رابرٹ فسک کے برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ میں شائع ہونے والے کالم سے لیے گئے ہیں۔سوچا کہ اس موضوع پر شائد میں اس جیسا یا اس سے بہتر نہ لکھ سکوں اس لیے اپنے دور کے ایک بااثر اور مقبول کالم نگار کی رہنمائی میں کچھ دور چلا جائے۔)
 

الف نظامی

لائبریرین
بے غیرت مسلمانوں سے یہ حق پرست غیر مسلم ہی اچھا ہے۔
اس موضوع پر آپ کو یہاں کم ہی جواب ملے گا، یہاں “آزادی اظہار“ کے نمائندے براجمان ہیں۔
 
Top