کپاس دھنکی گئی ہے گالے پڑے ہوئے ہیں - اختر عثمان

شمشاد

لائبریرین
کپاس دھنکی گئی ہے گالے پڑے ہوئے ہیں
شہید بچے علم سنبھالے پڑے ہوئے ہیں

میں اپنی پہچان بھی عجائب گھروں میں دیکھوں
عدو کے گھر میں مرے حوالے پڑے ہوئے ہیں

جنہوں نے لمحوں سے شرط باندھی تھی دوڑنے کی
شجر نے نیچے پڑاﺅ ڈالے پڑے ہوئے ہیں

نگر میں صحرا نورد سایہ سا گشت میں ہے
اسی لئے تو گھروں پہ تالے پڑے ہوئے ہیں

نظر کے چولہے کو ناخنوں سے کریدتا ہوں
مجھے یقیں ہے کہیں اجالے پڑے ہوئے ہیں

یہاں تو لکھے ورق پہ کورے کو برتری ہے
زمیں پہ کتنے حروف کالے پڑے ہوئے ہیں

توے کے تارے پلک جھپکتے ہیں بجھ گئے ہیں
فلک پہ اختر کو جاں لے لالے پڑے ہوئے ہیں
(اختر عثمان)
 
آخری تدوین:
Top