کِتابِ وقت کا مُڑا ھؤا ایک ورق۔

رشید حسرت

محفلین
کِتابِ ماضی کا مُڑا ھُؤا ایک ورق۔


مِلا نہ سکوں ایک پل کےلِئے
سنبھالا تھا جو "آج" "کل" کے لِئے

سُناتا ھُوں میں اِک کہانی تُمہیں
کہانی لگے گی پُرانی تُمہیں

ذرا جُھوٹ بھی اِس میں شامِل نہیں
پھپھولا ھے گویا، میرا دل نہیں

کسی گاؤں میں ایک فنکار تھا
وہ فنکار بھی حد کا خُوددار تھا

سنبھالا تھا جِس دِن سے لڑکے نے ھوش
وہ غم کی صدا سے تھا حلقہ بگوش

رہا دُھن مُعاشی لِیئے سر پہ وُہ
مِلا نہ کبھی بھی مُجھے گھر پہ وُہ

بنا بوجھ والد پہ، نہ بھائی پر
کرم تھا خُدا کا یہ مولائی پر

کبھی چھولے بیچے، تو قُلفی کبھی
کبھی تِل کے لڈُّو، کبھی ٹوکری

کبھی جُون میں جِست کی فیکٹری
کبھی حیثیت اُس کی سنگریز تھی

سُنا تھا کہ "مِیٹھا ھے مِحنت کا پھل"
نہیں آج پایا تو پاؤ گے کل

وہ لڑکا کہ مِحنت کا بھرتا تھا دم
اُٹھا ہاتھ میں لے کے اپنا قلم

رکھی برقرار اُس نے تعلیم بھی
مُقدّم رکھی سب کی تعظِیم بھی

محبت نگر اُس کی جاگِیر تھی
مُحبّت ھی خوابوں کی تعبِیر تھی

مِلا عاجزی سے وہ جِس سے مِلا
مگر اُس کو نفرت مِلی ھے صِلہ

ذرا درد کا اُس کے اندازہ ھو
وہ پہنچے جہاں بند دروازہ ھو

اُسے چاہ تھی پیار ناپے کوئی
ھے دِیوار جو بِیچ ٹاپے کوئی

ھُؤا ایک لڑکی سے اُسکو بھی پیار
دِل و جاں اُسی پر دِیا اُس نے وار

مگر وُہ امارت کی پروردا تھی
مُحبّت، مُروّت سے بیگانہ سِی

اُسے تھی مُحبّت سے دولت عزِیز
وفا اُس کے آگے تھی بیکار چِیز

وُہ راھوں میں آنکھیں بِچھاتا مگر
جُھکا نہ وُہ مغرُور لڑکی کا سر

کِیا اُس نے لڑکے کو وحشت شناس
کہُوں سچ تو رہنے لگی خُود اُداس

ھُوئی اُسکی نِسبت کہِیں اور طے
وُہ لڑکا تھا باہر کا اُس شہر سے

ھُؤا کام جِتنا تھا سب آڑ میں
یقینأ تھا نام و نسب آڑ میں

وُہ لڑکا تھا اِلّا کہ بے روز گار
مگر سچی اُلفت کو دِی اُس نے مار



کئی روز تک یِہ رھا بیقرار
کِیا پِھر سے جِینے کا طے ایک بار

وہ شِعر و سُخن میں ھُؤا ایسا غرق
کِیئے سب کے سب اُس نے معمُول ترک



اثر اِس قدر اُس کے شِعروں میں تھا
وُہ شامل ادب کے سویروں میں تھا

ادب پاک ھو گا تھا اُس کا خیال
مگر تنگ نظری کا ایسا تھا حال

کوئی دِن میں احباب جلنے لگے
عداوت کے سانچوں میں ڈھلنے لگے

وجود اب کِسی کو گوارا نہ تھا
وہ اِک آنکھ یاروں کو پیارا نہ تھا

ھُؤا چُپکے سے ادبی میلوں سے دُور
رہا دُھن میں اپنی،جھمیلوں سے دُور

کِیا تلخ لہجوں نے دُنیا کے، چُور
مُحبّت لُٹانا تھا اُس کا قصُور

نئےجوش سے یہ اِرادہ کِیا
مُقدّر بنانے کا وعدہ کِیا



چلا دو قدم، اُس نے پایا جواب
یہ دُنیا تو صحرا کا ھے اِک سراب

یہاں آدمِیت کا کیا ھے وقار
اُسے حیثِیت ھے جو ھے مالدار

وُہ چھوٹے سے عُہدے پہ تھا تب تلک
قناعت پہ رہتا بھلا کب تلک

مُسلسل وہ آگے ہی بڑھتا گیا
ترقی کے زِینے پہ چڑھتا گیا

ترقّی سے عُہدہ بڑا مِل گیا
مِلا مال و دولت مگر دِل گیا

ھُؤا یُوں کہ پِھر اُس نے پایا بھی مال
لِکھا رہ گیا پر، جبِیں پر سوال

کہاں رہ گئے میرے بچپن کے مِیت
گواہی ہیں جِس کی، مِرے دُکھ کے گِیت

ذرا آ کے دیکھو مِرا حال بھی
نہیں کام کا یہ زر و مال بھی

نہیں پاس میرے جو اے دوست تُو
بھلی نہ لگے اب کوئی گُفتگُو

کوئی دِن میں دُنیا سے جائیں گے ہم
تو شام و سحر یاد آئیں گے ہم


رشید حسرتؔ، کوئٹہ۔
 
Top