کَوَ لڑے رشتے...سفارت نامہ…ریاض احمد سید

ہمارے گاؤں کے ایک زمیندار کے پاس چاندنی نام کی گھوڑی ہوا کرتی تھی۔ ایک دم سفید تھارو بریڈ۔ تھان پرکھڑی سنگ مرمر کا مجسمہ دکھائی دیتی تھی۔ بیٹی کی شادی کی تو داماد کا دل گھوڑی پر بھی آ گیا، جو زمیندار کے اکلوتے بیٹے کو بھی بے حد پسند تھی۔ داماد صاحب نے دبے لفظوں میں خواہش کا اظہار کیا تو موصوف کا جواب تھا ”پُتّر! گھوڑی تجھ سے اچھی ہے؟ ابھی کھول کر لے جاؤ“۔ بیٹا بہت سٹپٹایا اور دہائی دی کہ اچھی طرح جانتے ہوئے بھی کہ چاندنی اُس کی جان ہے، اُنہوں نے یہ سخاوت کیوں کر دی؟ باپ کا جواب چشم کشا تھا، سب جانتا ہوں پُتّر! مگر رشتہ بڑا کَوَ لڑا ہے“۔
پیپلزپارٹی بڑی غریب پرور جماعت ہے، نوکریاں دینے کی شہرت رکھتی ہے، اسی کے دور میں لیٹرل انٹری ہوئی تھی اور اسی کے زمانے میں پلیسمنٹ بیورو بنا تھا۔ پھر یوں بھی ہوا کہ پیپلزپارٹی نے بھرتی کئے، آنے والی حکومت نے نکال دیئے اور ایک بار پھر پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو برسوں سے گھر بیٹھوں کو بلا کر پھر سے پرانی پوسٹوں پر لگا دیا۔ یوں سلسلہ وہیں سے شروع ہو گیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ کوئی کچھ کہے، میں تو اسے غریب پروری ہی سمجھتا ہوں۔ کسی مسکین کا بجھا ہوا چولہا جل اُٹھے تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ اعلیٰ سطحی ملازمتوں کا معاملہ دوسرا ہے۔ ملک و ملت کی تقدیر ان سے بندھی ہوتی ہے سو وہاں انہونیاں نہیں ہونا چاہئیں مگر کیا کیا جائے، کَوَلڑے رشتے یہاں بھی آڑے آ جاتے ہیں اور عدل کا ترازو سیدھا نہیں رہتا۔
میٹرک پاس کو آج کوئی چپراسی نہیں رکھتا۔ اگر اس کوالیفکیشن کے ساتھ توقیر صادق نامی شخص مملکت کی سب سے بڑی کارپوریشن آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کا چیئرمین بن گیا تو اس کے پیچھے بھی یہی مجبوری تھی۔ پیپلزپارٹی کے ایک سینئر اور وفاشعار سینیٹر کے ساتھ نازک رشتے میں بندھے توقیر صادق نے چاند کی ضد کی تو حکومت نے مل ملا کر جھولی میں ڈال دیا۔ ایسے سٹف سے آپ 82 بلین روپوں کی خوردبرد کے علاوہ اور کیا توقع کر سکتے ہیں۔ اس میں تو اتنی بڑی رقوم کو سنبھالنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ پرانے وقتوں کی عدلیہ ہوتی تو معاملہ دبا رہتا اور بات اربوں سے نکل کر کھربوں تک پہنچ چکی ہوتی مگر بدلے ہوئے حالات میں معاملہ سپریم کورٹ کی نظروں میں آ گیا اور موصوف نوکری سے ہی نہیں گئے، فوجداری مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ لطف کی بات یہ کہ آٹھ مہینوں تک نیب، ایف آئی اے اور پولیس ملزم کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکی اور وہ خراماں خراماں ملک سے فرار ہوگیا، یہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا کیونکہ82 بلین کچھ کم نہیں ہوتے۔ ان سے تو پوری کی پوری نیب، ایف آئی اے اور پولیس خریدی جا سکتی ہے ورنہ ہماری ایجنسیاں چاہیں تو ملزم کو پاتال سے نکال لاتی ہیں۔ البتہ ایوان صدر اور گورنر ہاؤس جیسے سیف ہاؤسز میں تانک جھانک جان جوکھوں کا کام ضرور ہے۔
ایسے ہی ایک اور لاڈلے نے بھی چاند کی تمنا کی تھی اور وہ کوئی معمولی آدمی نہیں، وزیراعظم کا داماد ہے۔ مارچ 2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو راجہ عظیم الحق انکم ٹیکس کے محکمے میں 18ویں گریڈ کی نوکری کر رہا تھا۔ انکم ٹیکس جیسے سلو پروموشن والے محکمے میں لائن میں لگ کر زندگی برباد کرنے کی بجائے ٹیلنٹڈ داماد نے دوراندیشی سے کام لیا اور سرکاری نوکری چھوڑ دی۔ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوٹ (EOBI) والے تو گویا موقع کی تلاش میں تھے، کھٹ سے 20 ویں گریڈ کی آفر دے دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے 21 ویں گریڈ میں ترقی پا گئے۔ سسر نے وزارت عظمیٰ سنبھالی تو انہیں کے دفتر میں ایڈیشنل سیکرٹری مقرر ہوگئے۔ اس دوران ورلڈ بینک میں آلٹرنیٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی پوسٹ نکلی تو اس کے لئے امیدوار بن گئے اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے وزیراعظم کو بھیجی جانے والی سمری میں سب سے کم عمر، کم تجربہ کار اور کم کوالیفائیڈ ہونے کے باوجود جونیئر راجہ کا نام ٹِک ہوگیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں سوموٹو کی سماعت کے باوجود موصوف واشنگٹن پہنچ کر جوائننگ دے چکے ہیں اور عذر یہ تراشا ہے کہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس ضرور لیا تھا مگر جوائن کرنے سے منع تو نہیں کیا تھا۔ بیورو کریسی نے کچھ کچھ جرأت ضرور دکھائی، مذکورہ پوسٹ کی اہمیت، کام کی نوعیت، پہلے جانے والوں کی سنیارٹی کی دہائی دی، مگر بے سود۔
یہاں مجھے میاں صاحبان رہ رہ کر یاد آ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کے داماد نے پارٹی معاملات میں لبرٹی لینے کی کوشش کی تو پہلی جھاڑ سسر صاحب کی طرف سے آئی تھی۔ میاں شہباز شریف نے تو کمال ہی کر دیا، بے گناہ داماد کو حوالات میں بند کروا کر یوں اترائے پھرتے تھے کہ گویا کوئی بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہو۔ صاحبزادگان اب سسرالیوں کے بارے میں یقیناً احتیاط برتیں گے اور ”ایاز قدر خود رابشناس“ کی عملی تفسیر بنے رہیں گے، لگتا ہے کہ راجوں میں دامادوں کو سر چڑھانے کا کچھ زیادہ ہی رواج ہے اور وہ بلی کو پہلے دن ہی مار دینے کی بجائے دودھ پلا پلا کر موٹا کرنے کے قائل ہیں مگر دانائی اسی میں ہے کہ نازک رشتوں کی اس طور آبیاری نہ کریں کہ کل کلاں اپنے ہی گلے پڑ جائے۔ رشتہ کَو لڑا ضرور ہے مگر اتنا بڑا رسک لینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ازخود نوٹس کی کارروائی ختم نہیں ہوئی اور تقرر منسوخ کر کے برخوردار کو واپس بھی بلایا جا سکتا ہے۔ سمری میں موجود دیگر تین افسر عدالت چلے گئے تو بھی لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ اس سپریم کورٹ نے کچھ عرصہ پیشتر گریڈ بائیس کی ترقیاں اس لئے منسوخ کر دی تھیں کہ میرٹ کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اور اپنے گیلانی صاحب کو اسی قسم کی ملازمتی بداعتدالیوں کی وجہ سے جیل جانا پڑا تھا۔ احتیاط، راجہ جی! احتیاط، عدل کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔ آپ صرف گوجر خاں کے ہی پرائم منسٹر نہیں اورنہ ہی آپ کی رعیت آپ کے کنبہ قبیلہ تک محدود ہے، حالات کی ستم ظریقی کہ آپ کا کینوس بہت وسیع ہوگیا ہے۔ پورا پاکستان اور اٹھارہ کروڑ عوام، راجہ عظیم کے تقرر کے حوالے سے ایک اور ہوشیاری بھی کی گئی۔ پوسٹ کا نام آلٹرنیٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہے۔ تاثر یہ دیا گیا کہ موصوف کا نام متبادل کے طور پر فائنل ہوا ہے۔ پرنسپل امیدوار کوئی اور ہے حالانکہ اس نام کی اسامی ورلڈ بنک کے سیٹ اَپ پر ریگولر پوسٹ کے طور پر موجود ہے۔
نہ جانے لوگ مختصر سی زندگی میں اتنے روگ کیوں پال لیتے ہیں۔ رینٹل پاور کیس کے حوالے سے بھی تو بری بری خبریں آ رہی ہیں، اللہ خیر کرے۔ خلق خدا کی خدمت میں مصروف حاکم کو احساس ہوا کہ وقت گزرتا جا رہا ہے اور وہ ابھی حج بیت اللہ کی سعادت سے محروم ہے جبکہ مفتی شہر چالیسواں حج کر کے لوٹا ہے۔ بے چینی بڑھی تو مفتی صاحب کو بلا بھیجا، جو واقعی دین کا علم رکھتے تھے۔ پریشانی کا سبب سنا تو بولے واللہ، تیری ریاضت میری عبادت سے کہیں افضل ہے، تو حاکم عادل ہے۔ بخدا عدل کی ایک ساعت کا اجر مجھے دے دو اور چالیس حج سمیت میری جملہ عبادات کا ثواب تم لے لو۔ سو جناب راجہ صاحب! عدل کریں اور میرٹ کو پروموٹ کریں کیونکہ ہر کسی کا سسر وزیراعظم نہیں ہوتا۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
کالم کا لنک
 
Top