کوٹھی اور بالیوں کا جون - عذرا عباس

تحریر: عذرا عباس
’ کوٹھی چلنا ہے، میرا میکہ۔ میں تمہیں رئیس امروہی سے ملواؤں گی، اور کئی لوگوں سے بھی، تمہیں ضرور ملنا چاہیے، ان سب سے‘۔
میں نے ابّا سے اجازت لی اور اس کے ساتھ کوٹھی پہنچ گئی۔ کوٹھی کا بڑا آہنی دروازہ ایک بڑے تالے سے ایسے بند تھا جیسے کبھی کھلا ہی نہ ہو، اسی میں بنے چھوٹے دروازے سے داخل ہوتے ہی لگا کہ پانچویں درویش کی کہانی شروع ہوگئی ہے۔
دروازے ہی سے ایک راستہ شروع ہو کر برآمدے کی سیڑھیوں پر ختم ہوتا تھا۔ برآمدے کی بائیں طرف کسی اجاڑ باغ کی سی کوئی چیز تھی: ادھڑی ہوئی گھاس کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر ایک مضبوط پرانے درخت کے نیچے ایک دبلا پتلا لمبا سا آدمی چوڑے پائنچے کا سفید پائجامہ اور کرتا پہنے کھڑا کسی دکھائی نہ دینے والی چیز کو گھور رہا تھا اور اس سے قدرے فاصلے پر لکڑی کے ایک کمزور تخت پر ایک خوبرو بیٹھا تھا۔
’یہ میرے باپ ہیں، تم نے نام تو ضرور سنا ہو گا، رئیس امروہی‘۔ اس نے تیزی سے برآمدے کی طرف بڑھتے ہوئے درخت کے نیچے کھڑے آدمی کی طرف آنکھوں ہی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ میں نے دماغ پر زور ڈالا لیکن ابھی میں ’ ہاں‘ اور ’نہیں‘ سے نکل بھی نہ پائی تھی کہ برآمدہ بھی ختم ہو گیا۔
اِدھر اُدھر کئی کمرے آئے لیکن ان میں سے کسی میں بھی مجھے لے جایا نہیں گیا، پھر ایک لمبا کمرہ اور اس کےبعد باورچی خانہ، کھانوں کی خوشبوؤں سے بھرا ہوا۔ کوٹھی کا تصور اب ضائع ہو رہا تھا۔
ہر طرف کمرے، کمروں میں تخت، تختوں پر چاندنیاں اور چاندنیوں پر گاؤ تکیے۔ برآمدے کا تخت سب سے بڑا تھا اور اس پر ایک بھاری پاندان بھی رکھا تھا۔ اس پر ایک خاتون بیٹھی تھیں، ریشمی غرارے اور چوڑے ریشمی دوپٹے میں ملبوس۔ پاندان، تخت اور برآمدے کا ایسا میل میں نے نہ تو پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ پھر کبھی دیکھا۔
ساری فضا کہانیوں جیسی تھی لیکن میں اس سے مانوس نہیں ہو پا رہی تھی۔ اب ہم جس کمرے کے پاس تھے اس میں کوئی روشندان یا کھڑکی نہیں تھی لیکن دروازے تین تھے، انہی میں سے ایک کی طرف منہ کر کے مجھے کوٹھی لانے والی نے زور سے کہا: جون جاگ رہے ہو؟
’ہاں بالی، سوتا کب ہوں؟ مجھے تو یاد بھی نہیں کبھی سویا بھی تھا‘۔ کمرے کے ملگجے اندھیرے سے ایک غیر مانوس سی کھنکتی ہوئی آواز میں، سر کو اس طرح حرکت دیتے ہوئے ایک سائے نے جواب دیا، کہ بالوں کی ایک لٹ خود بخود ماتھے پر آجائے۔
اب میں جون کے سامنے کھڑی تھی، جو مجھے کوٹھی لانے والی بالی کے چچا تھے لیکن چچا بھتیجی میں ایسا کوئی تکلف نہیں تھا کہ رشتہ آڑے آتا۔ ’یہ جون ہیں، شاعر ہیں، بہت مشہور شاعر‘ اس نے سامنے تحت پر بیٹھے اس آدمی کی طرف اشارہ کر کے کہا جو ٹانگ پر ٹانگ رکھے اس طرح بیٹھا تھا کہ گھیردار پائجامے میں یہ پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ کون سی ٹانگ سیدھی ہے اور کون سی الٹی۔اسی طرح بیٹھے بیٹھے جون بالی کو کوئی شعر سنانے لگے۔ شعر سناتے ہوئے انہوں نے دونوں انگلیاں بالوں میں پھنسا رکھی تھیں۔
جون میرے ابّا کے دوست کے بیٹے کی بیوی کے چچا تھے اور اگر ان کی یہ بھتیجی شادی ہو کر ہمارے محلے میں نہ آتیں تو شاید میری جون سے ملاقات کبھی نہ ہوتی۔
بالی کی وجہ سے میری کوٹھی میں آمد و رفت شروع ہو گئی۔ انہی دنوں کوٹھی میں یہ شور اٹھا کہ جون، زاہدہ حنا نامی کسی بہت تیز خاتوں سے بیاہے گئے ہیں۔ اس تعارف میں زاہدہ حنا کے لیے جون کے خاندان کی ناپسندیدگی صاف ظاہر تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ زاہدہ حنا سے میری ملاقات جون کے حوالے سے نہیں ہو سکی۔
اس ملاقات کے بعد جون ایلیا سے میری گاہے گاہے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ہم مشاعرے پڑھتے نہیں تھے لیکن سننے جاتے تھے اور مجھے ایسا لگتا تھا کہ مشاعروں میں ایک بے ساختہ شاعر دکھائی دینے والا جون اپنی زندگی کوٹھی اور اس کے کمروں اور راہداریوں کے درمیان کہیں کھو چکا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ مجھے ان کے بارے میں بالی اور ان کے دوسرے گھر والوں سے ایسی ہی خبریں ملتی تھیں۔
جون سے ایک یادگار ملاقات ایک عرصے بعد پھر اسی کوٹھی میں ہوئی۔ ایک بار پھر اس کی وجہ بالی تھی جو اب امریکہ بس چکی تھی اور کراچی آئی ہوئی تھی۔ اس بار بھی وہی کوٹھی ، وہی برآمدہ اور وہی تخت تھے لیکن ان کی چاندنیاں اور گاؤ تکیوں کے غلاف میلے میلے ہو رہے تھے۔ پاندان بھی وہی تھا لیکن اپنا رکھ رکھاؤ کھو چکا تھا، ادھڑی ہوئی گھاس اور غائب ہو چکی تھی اور اس کے درمیان کھڑا درخت اسی طرح مضبوط تھا لیکن اس کے نیچے کھڑا ہونے والا اب کہیں اور جا چکا تھا۔
جون ایلیا خلاف معمول چہک رہے تھے۔ ان کی بھتیجیوں میں سے کسی نے سرگوشی کی ’رہائی پا چکے ہیں‘ ۔
’رہائی؟‘ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔ ’ہاں، زاہدہ سے،‘ جواب ملا۔
میں انہیں دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی شاید کسی کو پھر تعارف کرانا پڑے گا کہ وہ میری طرف مڑے اور اپنی بالیوں سے میرا تعارف اس طرح کرانے لگے جیسے میں بالیوں کی نہیں ان کی جاننے والی ہوں اور واقعی وہ میرے بارے میں اب بالیوں سے زیادہ جانتے تھے۔ لیکن اب کے جون میں اور تب کے جون میں ایک فرق تھا۔ یہ جون خوش نظر آرہا تھا اور خوش نہیں تھا، اور وہ جون دکھی نظر آتا تھا اور دکھی نہیں تھا۔
اس دن کا موضوع کوٹھی تھی۔ کوٹھی کی تقسیم اور فروخت اور جون بار بار اس موضوع کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہے تھے اور ان کے انداز سے ایسا لگتا تھا جیسے کوٹھی کی نہیں خود ان کی تقسیم اور فروخت کی بات ہو رہی ہو۔ وہ مسلسل اپنے بالوں کو حرکت دے رہے تھے لیکن اب وہ گچھا بن کر ان کے ماتھے پر نہیں گر رہے تھے، اور شاید ان ہی میں سے وہ اداسی بھی چھلک رہی تھی جو اس گھاس میں ہوتی ہے جو اوپر سے جل جاتی ہے لیکن اس کی جڑیں زمین چھوڑنے ہر تیار نہیں ہوتیں۔
بشکریہ فیس بک
 
Top