کون جنگ چاہتا ہے، کون امن چاہتا ہے !

کون جنگ چاہتا ہے، کون امن چاہتا ہے !

یکم مارچ 2019ء

تحریر :محمد ظہیر اقبال

خدا کرے کسی دشمن کا بھی کسی کم ظرف دشمن سے واسطہ نہ پڑے ۔جی ہاں یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارا دشمن انتہائی درجے کا کم ظرف ،مکار،جھوٹا اور پرلے درجے کا ضدی بچہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہا کا خوش فہم بھی ہے ۔ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر چیز کو اس کے منفی پہلو سے دیکھا ،پرکھا اور مانا جاتا ہے۔ابھی شاید آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں لیکن جوں جوں بات آپ کی سمجھ میں آتی جائے گی غیر ارادی طور پر آپ مجھ سے اتفاق کرنے لگیں گے۔سب سے پہلے میڈیا کا ذکر ضروری ہے کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے جو عوام کے دل و دماغ کو آج کنٹرول کر رہا ہے۔پوری دنیا میں بھارت وہ واحد ملک ہے جس کا میڈیا صرف اور صرف جھوٹ کے سہارے چلتا ہے۔جھوٹ بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ جسے سفید جھوٹ کہا جاتا ہے اس سے بھی زیادہ جھوٹ یعنی جس چیز کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو بھارتی میڈیا اُسے بھی سچ اورحقیقت بنا کے دیکھا دیتا ہے۔اور اگر بات پاکستان کی ہوتو پھرہر بھارتی کے جسم میں جھوٹ کی دیوی ماتا کی اتما اُتر آتی ہے اور پھر اُسے خود بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کیا کیا اور کیسے کیسے جھوٹ بول گیا ہے وہ نہیں جانتا کہ اُسے پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور ابھی ساری دنیا اندھی نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ساری دنیا دیوانی اور پاگل ہے جو ان کے انے انے کے راگ پاٹ اور اجو باجومیں ہونے والی اُٹھک پھٹک نہ سمجھ سکے۔

حالیہ چند دونوں میں بھارتی میڈیا نے جس طرح سے جنگ،جنگ،جنگ اور بدلہ بدلہ کی گردان اور رٹ لگائی اور ٹی وی سکرین پر دن میں دس دس مرتبہ پاکستان کو فتح کیا یہی نہیں بلکہ پاکستان کے ایف 16 جہاز تک تباہ کرنے کے دعوٰی اور اعلان کر ڈالے یہ سب دیکھ کر ایک عام اور نارمل انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ سب نارمل انسانوں کا سا نہیں معلوم ہو رہا یہ کیا ہے ؟ اب ذرا منفیت کی اِک جھلک بھی دیکھ لیں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب جزبہ خیر سگالی کے طور پر گرفتار بھارتی پائلٹ کو غیرمشروط بھارت کے حوالے کرنے کی بات کرتے ہیں اور اُدھر بھارتی میڈیا اُسی لمحے یہ کہتا ہے کہ پاکستان نے گٹھنے ٹیک دئیے ہیں اور بھارت کی برتری اور فتح کو تسلیم کر لیا گیاہے ۔ارے یہ کیا !! ایک ایسا کام جو سرا سر انسانی ہمدردی اور خطے کو جنگ سے بچانے کے لئے پاکستان کرنے کا اعلان کرتا ہے بھارتی میڈیا اسے کیا سے کیا معنی دے ڈالتا ہے۔ ہو سکتا بھارت میں کسی کے احسان کا بدلہ یوں ہی چُکایا جاتا ہو لیکن باقی کی دنیا ابھی بے ذوقی اور پستی کی اس حد کو نہیں پہنچی ہے ہندوستانیو ! تم لوگ کم از کم شکریہ کے چار لفظ رسمن ہی کہہ سکتے تھے خیر۔کسی دانا کا قول ہے کہ کوئی فرد یا قوم جب منافقت کی پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھتی ہے تو پہلا جھوٹ بولا جاتا ہے جس کی بدولت وہ دوسری سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے بس پھر یونہی رفتہ رفتہ آخری سیڑھی پر پہنچتا ہے تو جھوٹ اس کا دین،دھرم بن چُکا ہوتا ہے الغرض ہر چیز کی شکل و صورت کو منافقت جھوٹ کی چادر سے ڈھانپ کر اس کے لئے علم کی ایک شکل بن کر اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے جسے وہ اپنے غورو فکر کا نتیجہ سمجھ کر خود کو دوسروں سے ممتاز خیال کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بھارتی معاشرے کی ہر چیز میں تہمات،شک، شرک،ذات پات ،جھوت چھات جیسی نفرتوں کی لاکھوں اشکال نے مورتیوں اور بُتوں کی شکل میں اس قوم کا دین دھرم اوراُڑھنا بچھونا بنا دیا ہے۔پستی کے اس مقام پر پہنچ کر ایسی اقوام ہٹ دھرم ضدی مُنہ پھٹ اور اندھے پن کا شکار ہو کر دن کو رات اور رات کو دن کہنے ماننے اور سمجھنے لگتی ہیں اور اس فریب کو اپنے فکر و عمل کا نتیجہ خیال کر کے اس کی پوجا کرتی ہے ۔اور نتیجہً سچ ان کے مُنہ پر جھوٹ کی کالک مل کر ہمیشہ کے لئے یہ کہتے ہوئے رخصت ہو جاتا ہے کہ لو اب تم چاہ کر بھی سچ بول نہ سکو گے۔

جھوٹ،فریب،مکر و ریا کی اس دیوی کے چرنوں میں زندہ انسانوں کی آہیں اورسسکیاں اس کے بوجاریوں کے لئے سامانِ تجارت و سیاست کی ایسے سکے بن کر رہ جاتے ہیں جسے ہر دور کے مودی اپنے متعصب زدہ فکر و فلسفے کی بدبو دار گندی شکل کو چمکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

حضرتِ اقبالؒ ہندوستانی معاشرے کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں؛

آہ! شُودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے​

وزیراعظم پاکستان محترم جناب عمران خان صاحب کی شخصیت حب الوطنی،خوداری، ایمانی غیرت وسچائی ،انسان دوستی ، درگزر و معاف کر دینے جیسی اعلٰی صفات سے مزین ہےیہی وجہ ہے کہ جناب عمران خان صاحب ہر معاملے میں ایک مثبت اندازِ فکر کے زیر اثر رہتے ہوئے انسانوں سے پیار و محبت اور انسانوں کے لئے سردی گرمی سے بچاؤ کی تدبیریں اور انتظامات کرتے پھرتے دیکھائی دیتے ہیں۔
اے میرے دل کےدوست عمران ۔۔۔تجھے میں فرشتہ کہوں کہ انسان

وزیراعظم عمران خان کی نہ تو فیکٹریاں بھارت میں چل رہی ہیں اور نہ ہی کوئی مودی وزیراعظم پاکستان کا یار ہے جسے خوش کرنے کے لئے بھارتی پائلٹ یا جنگی قیدی واپس کرنا چاہتے ہیں بلکہ صرف اور صرف مقصد ِ اولین یہ ہے کہ خطے کو جنگ و جدل کی جانب بڑھنے سے روکا جائے اور انسانی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا جا سکے۔لیکن بدقسمتی سے آج ہندوستان کی سرزمین پر ایک ایسا شخص اقتدار کی کرسی پر بیٹھا ہے جس کے ہاتھ ہزاروں انسانوں کے قتل سے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔واہگاہ بارڈر ٹرین سے لے کر گجرات کے قتل عام تک لاکھوں انسانوں کو زندہ جلانے اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کروانے والا مودی میرے عمران خان کے برابر بھی کھڑے ہونے کی اوکات نہیں رکھتا لیکن اسے امن اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے۔عمران خان انسان دوستی اور ہندوستان میں بسنے والے لاکھوں کڑوڑوں انسانوں کو جنگ کی ہولناک تباہ کاریوں سے بچانے اور یہ پیغام دینے کے لئے اپنے مرتبے اور منسب کی پروا کیے بغیر مودی جیسے کو مُنہ لگتا ہے تو صرف عام انسانوں کے لئے !! بھارتی حکومت کو ان کا ایک جنگی قیدی جو پائلٹ ہے ایک خوشگوار شروعات کا پیغام دینے کے لے اسے بھارت کے حوالے کرنے کی بات کرتا ہے تو صرف عام انسانوں کے لئے !! یہ جانتے ہوئے کہ بھارت ضدی بچہ ہے جس نے ہمیشہ اپنی ضدی طبعیت کی وجہ سے اپنا اور دوسروں کا نقصان کیا ہے ۔

پاکستان کی امن بات چیت کو کسی کمزوری اور مجبوری پر قیاس کرنے اور معنی پہنانے والوں کے لئے افواج پاکستان کا بھارتی طیاروں کا شکار اور وار صرف ایک وارنگ اور پیغام ہے ۔ اور اگر چارو نا چار ہمیں مجبور کیا گیا تو ہمارا وار دنیا صدیوں تک یاد رکھے گی وہ اس لئے کہ ہمارے دل و دماغ نے ٹیپو سلطان کے فکر و عمل سے رہنمائی حاصل کی ہے ہم نے اپنے فیصلوں کا اختیار زمین وآسمان کے رَبّ تعالیٰ اور انسانوں میں ہمارے ہادی و مولا آقا ِ دوجہاں حضرت محمد ﷺ کو دے رکھا ہے۔لہذا ہمیں ڈرانے دھمکانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا ہاں البتہ ہم دستوں کے دوست ہیں اور دوست کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔ ہمارا پیغام امن و محبت اور انسان دوستی ہے۔ہمارا دین ِ اسلام ہے جس میں انسان تو انسان جانورں کے بھی حقوق ہیں ہمارے نبیِ مُکرم حضرت محمد ﷺ صادق اور امین ہیں آپؐ پوری کائینات کی مخلوقات اور بلخصوص انسانوں کے لئے رحمت العالمین بنا کر بیجئے گئے ہیں ۔آپؐ کی پوری حیاتِ مبارکہ کا ایک ایک پہلو آپؐ کے پیروکار جنہیں ہم صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعاعین کہتے ہیں نے پورے صدق اور عشق و محبت سے محفوظ فرما دیا تھا جو ہم تک حدیث مبارکہ اور سُنتِ مبارکہ کے پیارے ناموں سے پہنچا ہے آپؐ پر نازل ہونے والی کتاب قرآنِ کریم فرقانِ حمید بھی ہم تک کامل و اکمل پہنچی ہے ۔ ائے میرے نادان دوست تجھے گزرے کل میں میرے اقبالؒ نے یہی دعوت دی تھی وہ اقبالؒ جسے تو مانے نہ مانے ،میں اور میرے پاکستانی مانتے ہیں، جسے زمانہ مانتا ہے، وہ حضرت ِ اقبالؒ فرماتے ہیں ؛


سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو بُرا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بُت ہو گئے پُرانے
اپنوں سے بَیر رکھنا تو نے بُتوں سے سیکھا
جنگ و جدَل سِکھایا واعظ کو بھی خدا نے
تنگ آ کے میں نے آخر دَیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے
پتھّر کی مُورتوں میں سمجھا ہے تُو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
آ، غیریت کے پردے اک بار پھر اُٹھا دیں
بِچھڑوں کو پھر مِلا دیں نقشِ دُوئی مٹا دیں
سُونی پڑی ہوئی ہے مدّت سے دل کی بستی
آ، اک نیا شِوالا اس دیس میں بنا دیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلَس مِلا دیں
ہر صبح اُٹھ کے گائیں منتر وہ مٹیھے مٹیھے
سارے پُجاریوں کو مے پِیت کی پلا دیں
شکتی بھی، شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے

نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!

-------------------------​
 
Top