کوزہء چشمِ تر بھرا نہ گیا

نوید ناظم

محفلین
کوزہء چشمِ تر بھرا نہ گیا
میرے اندر سے یہ خلا نہ گیا

دردِ اُلفت پہ کوئی زور نہیں
دل سے یہ غم گیا گیا، نہ گیا

میں وہ کردار ہوں جو ختم ہوا
اب کہانی کا شاخسانہ گیا

مختصر قِصّہ تھا غمِ دل کا
تیز رو سے وہ بھی سُنا نہ گیا

وہ گیا چھوڑ کر مجھے اور میں
کیا سِتم ہے کہ پتھّرا نہ گیا

تُو چراغوں کی لو سے پوچھ ذرا
تیرا تو کچھ بھی اے ہوا نہ گیا

ضبط پر ناز تھا مجھے لیکن
رو پڑا ہوں کہ بس رہا نہ گیا

"اُٹھ مِری بزم سے" جب اُس نے کہا
ایسے بیٹھا یہ دل، اُٹھا نہ گیا

ہو مبارک حقیقتوں کے امیں
تیری محفل سے اک فسانہ گیا

تُرش لہجے میں بات کی اُس نے
پھر بھی اندازِ دل رُبا نہ گیا

اب کہاں وہ ادائے ناز رہی
صبر کر دل کہ وہ زمانہ گیا

یہ الگ بات ہے مُقفّل تھا
اُس کے در سے میں بے صدا نہ گیا

التجائے وصال کرنا تھی
پھر تو دامن کو وہ چُھڑا نہ گیا!

کوئی شکوہ نہیں قفس سے مجھے
پر بُریدہ تھا میں، اُڑا نہ گیا

اب مِرا نام بھی نوید نہیں
میں بھی اُس کو اگر بُھلا نہ گیا

(نوید ناظم)
 

مومن فرحین

لائبریرین
دردِ اُلفت پہ کوئی زور نہیں
دل سے یہ غم گیا گیا، نہ گیا

تُو چراغوں کی لو سے پوچھ ذرا
تیرا تو کچھ بھی اے ہوا نہ گیا

ضبط پر ناز تھا مجھے لیکن
رو پڑا ہوں کہ بس رہا نہ گیا

"اُٹھ مِری بزم سے" جب اُس نے کہا
ایسے بیٹھا یہ دل، اُٹھا نہ گیا
خوبصورت
 
Top