عقل کی مار
پرانے زمانے کی جتنی کہانیاں سنو گے، ان میں دیوؤں ، پریوں ، بھوتوں اور جنوں کا ذکر ہو گا یا جادو کا کھیل۔ یہ آج تک پتا نہیں چلا کہ وہ لوگ دل بہلانے کے لیے ایسی ڈراؤنی باتیں کیوں کیا کرتے تھے؟ کیا کبھی سچ مچ یہ چیزیں ہوتی تھیں؟ اور مزہ یہ ہے کہ جس سرزمین کے لوگ زیادہ عالم فاضل، عقل کے پتلے کہے جاتے ہیں، سب سے زیادہ ایسی کہانیوں کی کھیتی وہیں ہوئی ہے۔
یونان اور روم قدیم تاریخوں میں یہ دو نام بڑی تعظیم کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔ تہذیب و تمدن کی پرورش ان ہی کے ہاں ہوئی ہے اور یہیں غالباً سب سے پہلے بھوتوں، ہریوں، دیوی، دیوتاؤں اور جادو طلسم کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ یونان کی اپنی زبان میں یہی چیزیں بھری پڑی ہیں اور روم تو کہتے ہیں، سرتاپا جادو تھا۔ وہاں کی ایک مہشور کہانی پیش کی جا رہی ہے۔ بتانے والے تو اسی تاریخی قصہ بتاتے ہیں۔ بہرحال ہم تو کہانی کی طرح سنائیں گے اور آپ بھی کہانی کی طرح سنئیے۔
کہتے ہیں، شہر روم کے چوراہے پر کسی لکڑی کا تراشا ہوا ایک بت سا کھڑا تھا۔ اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ پیرپر یہ دو لفظ کھدے ہوئے تھے، "پرکیوٹ بک" یعنی یہاں اترو۔ کوئی دو سو برس سے یہ بت آںدھی بارش اندھیرے اجالے میں کھڑا اپنی انگلی کے اشارے سے ہر آنے جانے والے کو برابر یہی کہہ رہا تھا۔ آبادی کا مرکز تھا۔ ہزاروں آدمی پڑھے لکھے، ان پڑھ روزانہ صبح سے شام تک گزرتے، اس کے پاس ٹھیرتے۔ اشارے کو سمجھنے کی کوشش کرتئ لیکن مطلب کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان دو لفظوں میں کیا معما بند ہے۔