مقدس
لائبریرین
"لڑکا زیادہ دور نہیں جا سکتا۔" چیف نے کہا۔ "اس کو واپس لاؤ۔ زندہ یا مردہ۔ اس عرصے میں میں ان دونوں پر نظر رکھتا ہوں۔"
خاصی دیر گزر گئی۔ شبیر اور چھوٹو کا کہیں پتا نہ تھا۔ چیف نے قراری سے ٹہل رہا تھا۔ آخر وہ بچوں سے کچھ فاصلے پر ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ وہ ان دونوں کی طرف سے بےفکر تھا۔ یہ دونوں اچھی طرح بندھے ہوئے تھے۔ مگر چھوٹو کے ساتھ کیا ہوا؟
عابد اور زاہد بہت تھک چکے تھےان کے ہاتھوں میں سخت تکلیف ہو رہی تھی۔ یہ تو ایک دوسرے کی طرف بھی نہیں دیکھ سکتے تھے اس لیے کہ دونوں کو تنے کے ایک طرف ایک کو بندھا تھا اور دوسری طرف دوسرا۔
اچانک انھیں لگا کہ جھاڑیوں میں کوئی ہے۔
یہ شبیر تھا۔
اس نے ہاتھ سے انھیں بالکل خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ پھر وہ خاموشی سے آگے بڑھا اور چاقو سے وہ مضبوط بیلیں کاٹ دیں جن سے وہ بندھے ہوئے تھے۔ پھر ان سے بہت آہستہ سے کہا،"ابھی ہلنا نہیں۔ اپنی بندوق لوڈ کر لو۔"
زاہد نے ادھر ادھر دیکھا۔ چیف ان کی طرف پیٹھ کیے پتھر پر بیٹھا تھا۔ زاہد نے شاٹ گن میں ایک چھڑا بھرا۔ ابھی اس نے بھرا ہی تھا کہ چیف اٹھا اور ٹہلنے لگا۔ وہ زیر لب چھوٹو کو کوس رہا تھا۔
اچانک پھر چیتے کی آواز سنائی دی۔ چیف خوف زدہ ہو گیا۔ اس نے جلدی سے ریوالور سنبھالا اور درخت پر چڑھ گیا۔ ادھر ادھر چیتے کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ زاہد چیف کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ موقع ملتے ہی اس نے چیف پر فائر کر دیا۔
چھرا چیف کے ہاتھ پر لگا اور اسی وقت ریوالور اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔ عابد نے جھپٹ کر ریوالور اٹھا لیا۔ زاہد نے بھی شاٹ گن دوبارہ بھر لی اور چیف کے پاس آگیا۔ شبیر نے اپنا چاقو ہاتھ میں لے لیا۔
خاصی دیر گزر گئی۔ شبیر اور چھوٹو کا کہیں پتا نہ تھا۔ چیف نے قراری سے ٹہل رہا تھا۔ آخر وہ بچوں سے کچھ فاصلے پر ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ وہ ان دونوں کی طرف سے بےفکر تھا۔ یہ دونوں اچھی طرح بندھے ہوئے تھے۔ مگر چھوٹو کے ساتھ کیا ہوا؟
عابد اور زاہد بہت تھک چکے تھےان کے ہاتھوں میں سخت تکلیف ہو رہی تھی۔ یہ تو ایک دوسرے کی طرف بھی نہیں دیکھ سکتے تھے اس لیے کہ دونوں کو تنے کے ایک طرف ایک کو بندھا تھا اور دوسری طرف دوسرا۔
اچانک انھیں لگا کہ جھاڑیوں میں کوئی ہے۔
یہ شبیر تھا۔
اس نے ہاتھ سے انھیں بالکل خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ پھر وہ خاموشی سے آگے بڑھا اور چاقو سے وہ مضبوط بیلیں کاٹ دیں جن سے وہ بندھے ہوئے تھے۔ پھر ان سے بہت آہستہ سے کہا،"ابھی ہلنا نہیں۔ اپنی بندوق لوڈ کر لو۔"
زاہد نے ادھر ادھر دیکھا۔ چیف ان کی طرف پیٹھ کیے پتھر پر بیٹھا تھا۔ زاہد نے شاٹ گن میں ایک چھڑا بھرا۔ ابھی اس نے بھرا ہی تھا کہ چیف اٹھا اور ٹہلنے لگا۔ وہ زیر لب چھوٹو کو کوس رہا تھا۔
اچانک پھر چیتے کی آواز سنائی دی۔ چیف خوف زدہ ہو گیا۔ اس نے جلدی سے ریوالور سنبھالا اور درخت پر چڑھ گیا۔ ادھر ادھر چیتے کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ زاہد چیف کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ موقع ملتے ہی اس نے چیف پر فائر کر دیا۔
چھرا چیف کے ہاتھ پر لگا اور اسی وقت ریوالور اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔ عابد نے جھپٹ کر ریوالور اٹھا لیا۔ زاہد نے بھی شاٹ گن دوبارہ بھر لی اور چیف کے پاس آگیا۔ شبیر نے اپنا چاقو ہاتھ میں لے لیا۔