پروف ریڈ اول کودک کہانی : حویلی کے بھوت

مقدس

لائبریرین
"کوئی بات نہیں شبیر، ہم لوگ گھنٹہ بھر میں کھانا کھا کر آتے ہیں۔ تم تب تک یہیں رہو۔" زاہد نے کہا۔

"مگر تم اپنی یہ "جادائی آنکھ" تو مجھے دیتے جاؤ"

"جادوئی آنکھ"

"ہاں، یہ دوربین۔" اس نے ہنستے ہوئے کہا۔

"لو۔"

"شکریہ! میں یہاں سے دور دور کے مناظر دیکھتا رہوں گا۔"
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
HKB%20-%200015.gif
 

مقدس

لائبریرین
گھنٹہ بھر میں دونوں بھائی، شبیر کے پاس واپس آگئے۔ درخت پر چڑھ کر انھوں نے دیکھا، شبیر دوربین س حویلی کی طرف دیکھ رہا ہے۔

"کیا دیکھ رہے ہو؟" زاہد نے پوچھا، مگر شبیر کے جواب دینے سے پہلے عابد بول اٹھا، "بھائی، دیکھو حویلی میں سے کوئی شخص باہر آ رہا ہے۔"

مچان سے حویلی بہت زیادہ دور نہ تھی اور بغیر دوربین کے بھی صاف نظر آ رہا تھا کہ کوئی حویلی سے نکلا ہے۔

"یہ دوسرا شخص ہے، جو حویلی سے باہر آیا ہے، تھوڑی دیر پہلے ایک اور شخص حویلی سے باہر نکل چکا ہے۔" شبیر نے بتایا۔

پھر اس نے بتایا کہ جب یہ دونوں بھائی چلے گئے تو اس نے دوربین سے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔ جنگل کی طرف سے دو آدمی انھوں نے حویلی کے قریب رک کر پراسرار انداز میں ادھر ادھر دیکھا اور پھر حویلی میں چلے گئے۔ ایک کے ہاتھ میں بندوق تھی اور دوسرے کے ہاتھ میں ایک بڑا سا تھیلا تھا۔

"یہ اجنبی ہوں گے، انھیں پتا نہیں ہو گا کہ حویلی میں بھوت ہیں۔" زاہد نے کہا۔

"مگر یہ شخص تو بالکل اجنبی نہیں لگتا۔" زاہد نے شبیر کے ہاتھ سے دوربین لے لی اور آدمی کا حلییہ بتانا شروع کیا، "درمیانہ قد، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، داڑھی بڑھی ہوئی۔ پینٹ شرٹ پہنے ہوئے۔ اس آدمی کے تھیلے سے کوئی چیز گری۔ مگر اسے پتا نہیں چلا۔ شاید یہ کسی دھات کی بنی ہوئی تھی اس لیے کہ سورج کی شعاعوں سے چمک رہی تھی۔ زاہد نے یہ بات بھی ان دونوں کو بتائی۔

"تمھیں یقین ہے کہ تھیلے میں سے کچھ گرا ہے؟"
 

مقدس

لائبریرین
"بالکل، سو فی صد!"

"چلو، ہم چل کر دیکھیں۔ شبیر! یہ حویلی یہاں سے کتنی دور ہو گی؟"

"اگر ہم شارٹ کٹ جائیں تو صرف آدھا کلو میٹر۔"

"چلو، پھر فوراً چل پڑو۔"

آگے آگے شبیر اور پیچھے پیچھے یہ دونوں بھائی حویلی کی طرف چل پڑے۔ راستے میں انھیں کئی چھوٹے بڑے پہاڑی چشمے ملے۔

"یہ چشمے پہاڑی ندی سے مل جاتے ہیں۔" شبیر نے بتایا۔

"مگر ندی کہاں ہے؟ نظر تو نہیں آ رہی؟" زاہد نے کہا۔

"یہاں گھنی گھاس اور سبزیاں اگی ہوئی ہیں۔ اس لیے دور تک تم دیکھ نہیں سکتے۔" آخر ایک پہاڑی پر چڑھتے ہوئے انھیں ندی نظر آ ہی گئی۔ دور سے اس کا صاف شفاف پانی، چاندی کی طرف چمک رہا تھا۔

چلتے چلتے وہ لوگ ایک گہرے بھورے رنگ کے میدان میں پہنچے۔ اس میدان کے بیچوں بیچ یہ حویلی تھی۔

"تم نے وہ چیز کہاں گرتے دیکھی تھی؟" شبیر نے پوچھا۔

"وہ دیکھو، اس طرف۔ شاید اس آدمی کو ٹھوکر لگی تھی۔" زاہد نے کہا۔

یہ تینوں تیزی سے ادھر پہنچے۔ اچھی طرح گھوم پھر کر تلاش کیا، مگر کوئی چیز نہ ملی۔

"ہو سکتا ہے تمھیں غلط فہمی ہوئی ہو۔" عابد نے کہا۔

"یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شخص کو پتا چل گیا ہو کہ کوئی چیز گری ہے اور اس نے آ کر اٹھا لی ہو۔" زاہد نے کہا۔

اس جگہ پر قدموں کے نشان ایسے گڈمڈ تھے کہ ان کو کوئی بات صحیح طور پر سمجھ میں نہ آئی۔

"اب کیا کرنا چاہیے؟" عابد نے کہا۔

"چلو حویلی کے اندر چلیں۔" زاہد نے رائے دی۔
 

مقدس

لائبریرین
عابد کا ڈر تو اسی وقت ختم ہو گیا تھا جب اس نے ایک آدمی کو زندہ سلامت حویلی سے باہر آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ فوراً ہی حویلی میں جانے کو راضی ہو گیا۔

یہ ایک خاصی بڑی حویلی تھی۔ درمیان میں ایک بہت بڑا سا ہال تھا اور اس کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ عمارت کافی ٹوٹ پھوٹ چلی تھی۔ درمیان کا بڑا ہال اور کمرے تو سلامت تھے مگر سامنے کا بڑا حصہ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا، دیواروں سے پلاسٹر اکحر چکا تھا۔ حویلی کے دو دروازے تھے، سامنے والا دروازہ برا تھا۔ اس میں لگے ہوئے پوہے کے کنڈے زنگ آلود تھے، ایک دروازہ پچھلی طرف تھا۔ حویلی میں صرف ابھی دو دروازوں سے داخل ہوا جا سکتا تھا۔ چھوٹے کمروں سے کوئی دروازہ باہر نہیں کھلتا تھا۔

"چلو دیکھیں کہ اندر ہال میں کیا ہے۔" یہ بڑے دروازے کی طرف بڑھے۔ دروازے تک جانے کے لیے پتھر بچھے ہوئے تھے۔ کسی زمانے میں شاید یہ حویلی تک کا پکا راستہ ہو گا۔ انھوں نے دروازہ کھولا۔ ہال میں اندھیرا تھا۔ ایسا لگا اندھیرے میں کوئی "چیز" حرکت کر رہی ہے۔ خوف زدہ ہو کر یہ لوگ باہر بھاگے۔ زاہد کے ہاتھ سے بندوق چھوٹ گئی۔ عابد اور شبیر زیادہ خوف زدہ تھے، اچانک زاہد کی نظر اس "چیز" پر پڑی۔

"دیکھو!" وہ چیخا۔ "یہ تو کتا ہے۔"

عابد اور شبیر نے پلٹ کر دیکھا ایک کم زور سا گندا کتا، ان لوگوں سے زیادہ خوف زدہ دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ ان لوگوں کو دیکھ کر دم دبا کر بھاگ گیا۔ تینوں دل ہی دل میں بڑے شرمندہ ہوئے۔ تھوڑی دیر تک تو انھیں کچھ نظر نہ آیا، جب ان کی آنکھیں اندھیرے کی عادی ہوئیں، تو انھوں نے دیکھا کہ کچھ چمگادڑیں چھت سے لٹکی ہوئی ہیں۔ دیواروں پر مکڑیوں نے جالے تان رکھے ہیں۔

"ایسا لگتا ہے، صدیوں سے یہ جگہ ویران پڑی ہے۔" زاہد نے کہا۔

"مگر دیکھو یہ قدموں کے نشانات ، یہ یقیناً ہمارے نہیں ہیں۔ کوئی یہاں آیا ضرور ہے۔"
 

مقدس

لائبریرین
قدموں کے نشانات مٹی کی موٹی تہہ پر خاصے واضح تھے۔

"یہ اس چھوٹے کمرے کی طرف جا رہے ہیں۔" شبیر نے کہا۔

تینوں چھوٹے کمرے کی طرف گئے۔ اس کمرے میں اور بھی اندھیرا تھا۔ صرف ایک پتلی سی روشنی کی لکیر ٹوٹی چھت سے آرہی تھی۔ یہ کمرا خاصا صاف تھا۔ زمین پر ایک طرف دھاری دار دری بچھی ہوئی تھی۔ ایک طرف سگرٹ کے ٹکڑے اور خالی ماچس پڑی تھیں۔

"کسی نے حال ہی میں اس کمرے کا استعمال کیا ہے۔" زاہد نے کہا۔

"مگر کس کے لیے۔۔۔۔۔؟" ابھی الفاظ شبیر کے منھ میں ہی تھے کہ اسے قدموں کی آواز آئی۔

"جلدی۔" اس نے سرگوشی کی، "کوئی آرہا ہے، چلو برابر کے کمرے میں چھپ جائیں۔"

اگلا کمرا اور بھی زیادہ تاریک تھا، اس میں کوئی کھڑکی نہ تھی اور نہ اس کی چھت کہیں سے ٹوٹی ہوئی تھی کہ روشنی اندر آ سکے۔ یہ کمرا گرد سے اٹا ہوا تھا، مگر ان لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ یہاں چھپ جائیں۔

ابھی وہ کمرے میں آئے ہی تھے کہ انھیں دو سائے پہلے والے چھوٹے کمرے کی طرف جاتے دکھائی دے۔

عابد، شبیر اور زاہد اندھیرے کمروں میں اور پیچھے کی طرف سرک گئے۔ سانس روکے وہ ان لوگوں کی گفت گو سن رہے تھے۔
 

مقدس

لائبریرین
"ہاں تو کراچی والا معاملہ تو پورا ہو گیا۔ شکور مال آج عزیز کو دے دے گا۔"

"اور جو حشیش حیدر آباد کے لیے تھی؟"

"بھولا اسے کل لے گیا تھا۔"

"باقی مال بھی جلد نکل جانا چاہیے۔"

"بہتر چیف۔ میں آج رات ہی مال کوئٹہ پہنچا دوں گا۔"

دونوں آدمی اچھی خاصی بلند آواز سے باتیں کر رہے تھے۔ ایک ایک لفظ سمجھ میں آرہا تھا۔ دونوں آوازوں میں سے ایک جانی پہچانی لگ رہی تھی مگر یہ کس کی آواز تھی؟

"بھولا بہت ہی لاپرواہ ہے۔ آج اس نے اپنا سگنلنگ بکس گرا دیا تھا۔ وہ تو اتفاق ہے کہ مجھے مل گیا ورنہ تو ہمارا کام ہو جاتا!"

اچانک ہی دونوں بھائیوں کو یاد آگیا۔ یہ آواز تو گیروے کپڑوں والے کی تھی، جس سے وہ آج صبح ملے تھے! وہی نرم لہجہ۔ ٹھیرا ٹھیرا انداز۔

"گیروے کپڑوں والا!" عابد نے چپکے سے زاہد کے کان میں کہا۔

وہ دونوں سخت حیران تھے۔

"ہم لوگوں کو اب کوئی نئی جگہ تلاش کرنی چاہیے۔ حویلی اب محفوظ نہیں رہی۔"

"کیوں؟ میرے خیال میں تو یہ بہت محفوظ جگہ ہے۔" دوسری آواز کرخت سی تھی!

"پتا ہے آج صبح کیا ہوا۔ مجھے دو لرکے ملے جو حویلی کی طرف آ رہے تھے!"

"کیا؟"
 

مقدس

لائبریرین
"اور بڑی مشکل سے میں نے انھیں بھوتوں کی کہانی سنا کر یہاں آنے سے روکا۔"

اندھیرے ہی میں زاہد نے سر ہلایا۔ تو یہ تھی حقیقت، بھوتوں کی! اب تو شبہے کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ یہی وہ شخص تھا جس نے انھیں وہ کہانی سنائی تھیا۔

"اور زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ بچے حامد حسین خان کے بھتیجے ہیں۔"

"اچھا! فاریسٹ آفیسر کے بھتیجے۔ اب تو واقعی ہمیں یہ جگہ فوراً چھوڑ دینی چاہیے۔" دوسر شخص نے کہا۔

"اب اتنے بھی زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں نے بچوں کے دل میں بھوتوں کا خوف بٹھا دیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کو گاؤں کے راستے کے بجائے جنگل کی طرف کا راستہ دکھا دیا ہے۔"

یہ سن کر دونوں بھائی مسکرائے۔ تو یہ دونوں منشیات کے اسمگلر تھے۔ ان کے لیے کسی کو قتل کر دینا بھی آسان تھا۔

کمرے کی مٹی سے تینوں پریشان تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔ ایسا لگتا تھا، بہت وقت گزر گیا۔ وہ دونوں شاید کوئی چیز باندھ رہے تھے۔ ان کے چیف نے کہا، "تازہ مال کب تک آئے گا؟"

"دو ایک دن میں آجائے گا۔"

"چلو پھر چلیں۔"

اب ان کے جانے کی آواز آئی۔ تینوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس وقت زاہد کو بڑے زور سے چھینک آئی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ چھینک رک جائے مگر نہ روک سکا۔

"کون ہے؟" کرخت آواز والا چیخا۔ "شکر ہے میرے پاس بندوق ہے۔"

"ٹھیرو ابھی دیکھ لیتے ہیں۔ میرے پاس ٹارچ ہے۔" پھر وہی مطمن انداز۔

قدموں کی آواز بچوں کے قریب گئی۔ چیف نے ٹارچ سے کمرے میں روشنی پھینکی۔ تینوں روشنی میں نہا گئے۔ ایک لمحے کو تو چیف سب ہو گیا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا! تھوڑی دیر بعد اس نے اسی نرم لہجے میں کہا:
 

مقدس

لائبریرین
"تم یہاں کیوں آئے ہو؟"

"ہم آپ کے بھوتوں کو دیکھنے آئے تھے۔" زاہد نے جرات سے کہا۔

"بہت بہادر ہو۔" اب وہ پینٹ شرٹ میں تھا اور اس کا چمکیلا منڈا ہوا سر بھی ہیٹ میں چھپا ہوا تھا۔

"چیف! لڑکوں کو یہی ٹھنڈا کر دو۔" اس شخص کا کرخت چہرہ خونی آنکھیں اور خوف ناک انداز صاف ظاہر کرتا تھا کہ وہ کوئی پیشہ ور قاتل ہے۔

"نہیں چھوٹو! یہاں نہیں۔ ہم کو انھیں یہاں سے لے جانا چاہیے۔"

چیف نے کہا اور ٹارچ بجھا دی۔ پھر جیب سے ریوالور نکالتے ہوئے کہا:

"دکھاؤ تمھاری شارٹ گن بھری ہوئی تو نہیں ہے۔" جب اسے اطمینان ہو گیا تو اس نے کہا، "سنو بچو! ہم آرام سے باہر جائیں گے۔ چھوٹو تم سے آگے آگے چلے گا۔ میں تمھارے پیچھے ہوں گا۔ یاد رکھو! بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔ ورنہ گولی تمھاری جسم سے پار ہو گی۔ سمجھ گئے؟"

تینوں خاموش رہے۔

"چلو۔" چیف بے حکم دیا۔

تینوں باہر نکلے۔ اچانک عابد کو ٹھوکر لگی اور وہ گر پڑا۔

"پیارے بیٹے، بےہوش نہ ہو جانا۔" بڑے ہی میٹھے لہجے میں چیف نے کہا۔ "ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر تم آرام سے چلتے رہے تو ہم تمھیں ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے۔"

"میں کسی سے نہیں ڈرتا۔" عابد نے کہا۔

اور وہ واقعی خوف زدہ نہیں تھا۔ وہ جان بوجھ کر گرا تھا اور اس کا مقصد اپنا رومال وہاں گرانا تھا۔ یہ کام اس نے اتنی ہوشیاری سے کیا کہ کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ یہی وہ واحد نشانی تھی جو ان کا پتا بتا سکتی تھی۔
 

مقدس

لائبریرین
حویلی سے باہر دوستوں کی طرح یہ لوگ چل رہے تھے۔ دونوں مرد آرام سے بچوں کے ساتھ ساتھ تھے، جیسے چہل قدمی کر رہے ہوں۔ بچوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ان کوگوں کے کہنے پر عمل کرتے رہیں۔

چھوٹو بڑا بےچین تھا۔ بچوں کو بہت کچھ معلوم ہو چکا تھا۔ منشیات کے یہ اسمگلر کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ اور پھر اس حویلی میں منشیات کی موجودگی، یہ سب چیزیں چھوٹو کو پریشان کرنے کے لیے کافی تھیں۔

"ان شیطانوں کا کیا کرنا ہے؟" اس نے پوچھا

"ہم انھیں قتل نہیں کریں گے۔"

"کیا؟" چھوٹو نے حیرت سے کہا۔

"میرا مطلب ہے ہم انھیں نہیں ماریں گے۔ بلکہ یہ لوگ خود ہی مریں گے۔"

"کیسے؟"

"ایک حادثے میں۔ یہ غلطی سے پاؤں پھسل کر کسی بلند پہاڑی سے گر سکتے ہیں یا ڈوب کر مر سکتے ہیں۔"

ایک مکروہ مسکاہٹ چیف کے چہرے پر نمودار ہوئی۔

"انھیں سانپ بھی ڈس سکتا ہے۔" اس نے حادثے کے اور امکان کے بارے میں بتایا۔

"یعنی ہم انھیں یوں ایک دم سے نہیں ماریں گے۔" چھوٹو نے پوچھا۔

"ہاں اگر یوں مارا تو پولیس ہوشیار ہو جائے گی۔ وہ ہمیں سارے ملک میں ڈھونڈتی پھرے گی۔" چیف نے کہا
 

مقدس

لائبریرین
"یہ بھی سوچو کہ اگر ان میں کوئی ایک بھی زندہ بچ گیا تو۔"

"ممکن ہی نہیں۔" چیف نے اعتماد سے کہا۔ "ان کو وہان سامنے والی پہاڑٰ پر لے چلو۔"

چھوٹو مڑا اور بچوں سے کہا، "میرے پیچھے پیچھے چلو۔"

یہ راستہ بڑا خطرناک تھا۔ ایک قطار میں یہ لوگ چلنا شروع ہوئے۔ چیف سب سے پیچھے ان کے اوپر ریوالور تانے ہوئے تھا۔

"بھاگنے کی کوشش مت کرنا۔" اس نے کہا۔ مگر یہ غیر ضروری ہدایت تھی، اس لیے کہ یہاں سے ان کے بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ راستے کے دونوں طرف اس قدر گھنی جھاڑیاں تھیں کہ ان میں سے کوئی رینگ کر بھی نہیں جا سکتا تھا۔

بچے خاموشی سے چل رہے تھے۔ اب ایک پگڈنڈی آگئی تھی۔ چھوٹو رکا اور بولو، "رک جاؤ۔" اس کا لہجہ بہت سخت تھا۔

وہ پگ ڈنڈی کے اگلے سرے تک گیا۔ اچھی طرح اطمینان کرنے کے بعد کہ وہاں کوئی نہیں ہے اس نے دوبارہ سب کو چلنے کا حکم دیا۔ تینوں "قیدی" اس راستے سے گزر گئے۔ اب پھر گھنا جنگل شروع ہو گیا ۔

یہ ایک پہاڑی راستہ تھا جو کافی اوپر تک جاتا تھا۔ تھوڑی دیر میں بچے بہت تھک گئے۔ شبیر کو چلنے میں سب سے زیادہ دقت ہو رہی تھی اس لیے کہ وہ ننگے پاؤں تھا اور چلنے سے اس کے پاؤں رگڑ کھا کر پھٹ گئے تھے۔ سوجن کے علاوہ ان سے خون بہ رہا تھا۔ آخر اس کا پاؤں ایک جھاری سے الجھا اور وہ گر پرا۔ عابد اور زاہد نے اسے اٹھانا چاہا۔

"مجھے مت اٹھاؤ۔ مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جاتا۔" شبیر نے کہا۔

"اٹھ جاؤ بدتمیز لرکے۔ اگر تم نہ اٹھے تو میں تم کو کتے کی موت مار دوں گا۔" چھوٹو نے غصے سے کہا۔

شبیر کو غصہ تو بہت آیا، مگر کیا کر سکتا تھا۔ اس نے کوشش کی اور آہستہ
 

مقدس

لائبریرین
آہستہ اٹھ ہی گیا۔ مگر اس نے چلنے سے صاف انکار کر دیا،

"مجھے پانی چاہیے۔ میں پیاس سے مرا جا رہا ہوں۔" شبیر نے کہا۔

"ہاں ۔ دیکھو! اے بہت پیاس لگ رہی ہے پلیز اسے پانی پلواد دو۔"
دونوں بھائیوں نے چیف سے درخواست کی۔

اس جگہ دس پندرہ گز پر ایک چشمہ بہ رہا تھا۔ عابد نے اس کی طرف اشارہ کیا، "کیا ہم اس تک پانی پینے جا سکتے ہیں؟"

"نہیں۔" چیف نے سرد مہری سے کہا۔ "صرف شبیر جائے اور پانی پی کر آ جائے۔ ہم یہاں سے اس پر نظر رکھتے ہیں۔"

شبیر آہستہ آہستہ اس چشمے کی طرف گیا اور پانی پیا۔ چھوٹو اور چیف اسے دیکھ رہے تھے۔ اچانک پورا علاقہ چیتے کی خوفناک دہاڑ سے گونج اٹھا۔

"چیتا!چیتا!" شبیر زور سے چیخا اور پیچھے بھاگا۔

چھوٹو اور چیف سکتے میں آگئے۔ شبیر پھر خوف سے چیخا اور اپنے بائیں طرف اشارہ کیا۔ پھر وہ سیدھے ہاتھ کو بھاگنا شروع ہو گیا۔ چیف اور چھوٹو کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کریں، زاہد اور عابد کو یقین ہو گیا کہ شبیر کو چیتا مار ڈالے گا۔

چند منٹ گزر گئے۔ اب پورے علاقے میں سناٹا تھا۔

"لڑکا کہا ں گیا؟" چیف ایک دم چیخا۔

چھوٹو چشمے کی طرف بھاگا۔ یہاں نہ تو چیتا تھا اور نہ شبیر۔

"چیف۔" چھوٹو نے زور سے کہا۔ "پڑکا ہمیں جل دے گیا۔"

"ہمیں اسے ڈھونڈ لینا چاہیے۔" پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا۔ "پہلے ان دونوں کو باندھ دو۔ پھر اس کی تلاش کو چلو۔"

چھوٹو نے آس پاس سے پتلی پتلی شاخیں اور سخت بیلیں اٹھائیں اور ان کے دونوں پاتھ پیچھے کر کے درخت سے باندھ دیے۔

"اب چلو۔ اس بد بخت کو ڈھونڈیں۔" چیف نے حکم دیا۔
 
Top