میاں وقاص
محفلین
حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
کوئی زی عقل گر دیوانہ بن جائے تو کیا کیجے
تو میخانے سے بچنے کا تو کہتا ہے ارے زاہد !
نظر ساقی کی گر پیمانہ بن جائے تو کیا کیجے
بتا سکتا ہے کوئی عہد_حاضر کا مسلماں یہ
حرم کے بیچ ہی بتخانہ بن جائے تو کیا کیجے
ادھر ہے فرض_لازم تو ادھر ساقی کی فرمائش
پس_مسجد اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجے
فضاے دشت بھی مجھ کو بلاتی ہے، مگر یارو
مرے اپنے ہی گھر ویرانہ بن جائے تو کیا کیجے
سنا تھا ایک دن ہی موت کا ہم پر مقرر ہے
پہ، آنا موت کا روزانہ بن جائے تو کیا کیجے
میں جس جذبے کو درجہء عقیدت تک عطا کر دوں
وہ تیری سوچ میں طفلانہ بن جائے تو کیا کیجے
ہجوم_دوستاں تو ہے خوشی میں بھی، غمی میں بھی
وجود اپنا ہی گر بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے
میں اکثر سوچتا ہوں کہ کسی کے رزق کا حصہ
مرے منہ کا اگر اک دانہ بن جائے تو کیا کیجے
کسی عامل سے جب پوچھا تو وہ خاموش تھا شاہین
کہ اپنا گر کوئی بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے
حافظ اقبال شاہین
کوئی زی عقل گر دیوانہ بن جائے تو کیا کیجے
تو میخانے سے بچنے کا تو کہتا ہے ارے زاہد !
نظر ساقی کی گر پیمانہ بن جائے تو کیا کیجے
بتا سکتا ہے کوئی عہد_حاضر کا مسلماں یہ
حرم کے بیچ ہی بتخانہ بن جائے تو کیا کیجے
ادھر ہے فرض_لازم تو ادھر ساقی کی فرمائش
پس_مسجد اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجے
فضاے دشت بھی مجھ کو بلاتی ہے، مگر یارو
مرے اپنے ہی گھر ویرانہ بن جائے تو کیا کیجے
سنا تھا ایک دن ہی موت کا ہم پر مقرر ہے
پہ، آنا موت کا روزانہ بن جائے تو کیا کیجے
میں جس جذبے کو درجہء عقیدت تک عطا کر دوں
وہ تیری سوچ میں طفلانہ بن جائے تو کیا کیجے
ہجوم_دوستاں تو ہے خوشی میں بھی، غمی میں بھی
وجود اپنا ہی گر بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے
میں اکثر سوچتا ہوں کہ کسی کے رزق کا حصہ
مرے منہ کا اگر اک دانہ بن جائے تو کیا کیجے
کسی عامل سے جب پوچھا تو وہ خاموش تھا شاہین
کہ اپنا گر کوئی بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے
حافظ اقبال شاہین