کوئی خدا نہیں مگر اللہ

الف نظامی

لائبریرین
کوئی خدا نہیں!
یہ کائنات بس ایک حادثہ کا نتیجہ ہے؟
بیس ارب سال پہلے نہ زماں تھا نہ مکاں، اچانک ایک دھماکہ ہوا اور کائنات وجود میں آگئی۔
یہ کائنات جس میں ایک سو کروڑ سے زیادہ کہکشائیں ہیں۔ہر کہکشاں میں ایک ارب سے زیادہ ستارے ہیں، اور اتنی بڑی ہے کہ روشنی اپنی ایک لاکھ اسی ہزار میل کی رفتار سے اربوں سال بھی سفر کرتی رہے تو دوسرا کنارا ہاتھ نہ آئے، ایک ایسا شاندار متوازن نظام جس کے زمان و مکان میں ایک ہی قانون کار فرما ہے، کبھی نہیں ہوا کہ زمین اپنے محور سے ادھر ادھر ہو جائے، سورج چاند کو اپنی کشش کے بل بوتے پر کھینچ لے یا ستارے اپنا راستہ بھول جائیں۔
سارے کا سارا نظام، ہر جگہ، ہر وقت، سبھی کے سبھی ستارے اور سیارے اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ زمان و مکان کی قیود سے بالاتر وہی سائنسی قوانین جو زمین پر کارفرما ہیں دوسری دنیاوں کو قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔
کیا یہ کروڑوں ، اربوں ، کھربوں ستاروں اور سیاروں کا نظام یونہی وجود میں آ گیا ہے؟
اس کے پیچھے کوئی ہاتھ نہیں؟
اسکو کوئی کنٹرول کرنے والا نہیں؟
یہ بس ایک حادثہ ہے۔
سورج فضا میں ایک مقرر راستہ پر پچھلے پانچ ارب سال سے چھ سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے بھاگا جا رہا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اسکے خاندان کے ۹ سیارے، ۲۷ چاند اور لاکھوں میٹرائٹ کا قافلہ اسی رفتار سے جارہا ہے،کبھی نہیں ہوا کہ تھک کر کوئی پیچھے رہ جائے یا کوئی آگے نکل جائے۔چاند تین لاکھ ستر ہزار میل دور زمین پر سمندروں کے پانی کو ہر روز دو دفعہ مدوجزر سے ہلاتا رہتا ہے تاکہ ان میں بسنے والی مخلوق کے لیے ہوا سے مناسب مقدار میں آکسیجن کا انتظام ہوتا رہے ، پانی صاف ہوتا رہے، اس میں تعفن پیدا نہ ہو۔
سمندروں کا پانی ایک خاص مقدار میں کھارا ہے۔ پچھلے تین ارب سال سے نہ زیادہ نہ کم نمکین، بلکہ ایک مناسب توازن برقرار رکھے ہوئے ہے تاکہ اس میں چھوٹے بڑے سب آبی جانور آسانی سے تیر سکیں اور مرنے کے بعد ان کی لاشوں سے بو بھی نہ پھیلے۔انہی میں کھاری اور میٹھے پانی کی نہریں ساتھ ساتھ بہتی ہیں ۔سطح سمندر کے نیچے بھی میٹھے پانی کے سمندر ہیں جو کھاری پانی کے کھلے سمندروں سے ملے ہوئے ہیں لیکن میٹھا پانی میٹھا رہتا ہے اور کھاری پانی کھاری۔ سب میں ایک غیبی پردہ حائل ہے۔
کیا یہ بھی ایک حادثہ ہے؟
اپنے آپ ہوگیا تھا اور خود بخود قائم ہے؟
اس کے لئے کسی عقل کی ضرورت نہیں؟
نو مولود بچے کو کس نے سمجھایا کہ بھاک کے وقت رو کر ماں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے؟
ماں کو کس نے حوصلہ دیا کہ ہر خطرے کے سامنے سینہ سپر ہوکر بچے کو بچائے؟
ایک معمولی چڑیا شاہیں سے مقابلہ پر اتر آتی ہے ۔یہ حوصلہ اسے کدھر سے ملا؟
مرغی کے بچےانڈے سے نکلتے ہی کیوں چلنے لگتے ہیں؟
حیوانات کے بچے بغیر سکھائے ماوں کی طرف دودھ کے لئے کیسے لپکتے ہیں؟
جانوروں کے دلوں میں کون محبت ڈال یتا ہے کہ اپنی چونچوں میں خوراک لا کر اپنے بچوں کے مونہوں میں ڈالیں؟
ان سب کو کون آدابِ زندگی سکھاتا ہے؟
لیکن پھر بھی کوئی خدا نہیں! یہ سب حادثہ ہے۔
شہد کی مکھی دور دور باغوں میں پھول پھول سے رس چوس کر نہایت ایمانداری سے لاکر چھتے میں جمع کرتی جاتی ہے۔ ایک ماہر سائنسدان کی طرح جانتی ہے کہ کچھ پھول زہریلے ہوتے ہیں اور ان کے پاس نہیں جاتی ، ایک قابل انجینیر کی طرح شہد اور موم کو علیحدہ علیحدہ کرنے فن بھی جانتی ہے ، جب گرمی ہوتی ہے تو شہد کو پگھل کر بہ جانے سے بچانے کے لئے وہ اپنے پروں کی حرکت سے پنکھا چلا کر ٹھنڈا کرتی ہے، موم سے ایسا گھر بناتی ہے جس کو دیکھ کر بڑے سے بڑا آرکیٹیکٹ عش عش کر اٹھتا ہے،ہزاروں کی تعداد میں ایسے منظم طریقے سے کام کرتی ہے کہ عقل دنگ ہے، ہر ایک میں ایسا راڈار نظام لگا ہوا ہے کہ وہ دور دور نکل جاتی ہے لیکن اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔
یہ کیسے ممکن ہوا ؟ شہد کی مکھی کو یہ عقل کس نے سکھائی؟
کیا یہ سب محض ایک بے معنی حادثہ کا نتیجہ ہے؟
مکڑا اپنے منہ کے لعاب سے شکار پکڑنے کے لئے ایسا جال بناتا ہے کہ جس کی نفاست اور مضبوطی کو ابھی تک ٹیکسٹائل انجینئر نقل نہیں کرسکے، بڑے سے بڑے کیمسٹ ایسا مضبوط اور نفیس دھاگا بنانے سے قاصر ہیں۔
یہ انجینئرنگ اسے کس نے سکھائی؟
گھریلو چیونٹی گرمیوں میں جاڑے کے لئے خوراک کو جمع کرتی ہے۔ اپنے بچوں کے لئے گھر بناتی ہے ، ایک تنظیم سے رہتی ہے۔ جہاں نظامت کے تمام اصول حیران کن حد تک کارفرما ہیں۔
معاشرتی نظامت کے یہ اصول اسے کس نے سکھائے؟
کیا یہ سب کچھ خود بخود ہی ہوگیا؟
کیا زمین اسقدر عقل مند ہے کہ اس نے بھی خودبخود لیل و نہار کا نظام قائم کرلیا، خودبخود ہی اپنے محور پر 67.5 ڈگری جھک گئی تاکہ بہار، گرمی، سردی اور خزاں کے موسم آتے رہیں اور انسان کو ہر طرح کی سبزیاں، پھل اور خوراک ملتی رہے۔نہ صرف یہ بلکہ زمین نے اپنے اندر شمالا جنوبا ایک طاقتور مقناطیسی میدان بھی خود بخود ہی قائم کرلیا تاکہ اسکے مقناطیسی اثر کی وجہ سے بادلوں میں بجلیاں کڑکیں جو ہوا کی نائٹروجن کو نائٹرس آکسائڈ میں بدل کر زمین میں پودوں کے لئے کھاد مہیا کریں، سمندروں پر چلنے والے بحری جہاز ، سبمیرین (Submarine) اور ہواوں میں اڑنے والے طیارے اس مقناطیس کی مدد سے اپنا راستہ پائیں، نیز آسمانوں سے آنے والی مہلک شعائیں اس مقناطیسی قوت سے ٹکرا کر واپس پلٹ جائیں تاکہ زمین پر مخلوق ان کے مہلک اثرات سے محفوظ رہے۔
کیا اس عظیم نظام کے پیچھے کوئی ہاتھ ہے ؟ یا یہ سب کچھ بھی فضا اور زمین نے مل کر خود ہی سوچا اور کرلیا؟
پھردیکھیے! زمین ، سورج ، ہواوں ، پہاڑوں اور میدانوں نے اپنے آپ ہی سمندروں سے سمجھوتہ کرلیا کہ سورج کی گرمی سے آبی بخارات اٹھیں گے ، ہوائیں اربوں ٹن پانی کو اپنے دوش پر اٹھا کر پہاڑوں اور میدانوں تک لائیں جی ، ستاروں سے آنے والے ریڈیائی ذرے بادلوں میں موجود پانی کو اکٹھا کرکے قطروں کی شکل دیں گے اور پھر یہ میٹھا پانی خشک میدانوں کو سیراب کرنے کے لئے برسے گا ۔ جب سردیوں میں پانی کی کم ضرورت ہوگی ان دنوں یہ پہاڑوں پر برف کے ذخیرے کی صورت میں جمع ہوتا جائے گا۔ گرمیوں میں جب زیادہ پانی چاہیے تو یہ پگھل کر ندی نالوں اور دریاوں کی صورت میں میدانوں کو سیراب کرتے ہوئے واپس سمندروں تک پہنچ جائے گا۔ ایک ایسا نظام جو سب کو پانی دیتا ہے اور کچھ ضائع نہیں جاتا۔
کیا اس سب کے پیچھے کوئی ڈیزائن نہیں؟
کیا ہماری اپنی زندگی بھی ایک حادثہ ہے؟ ہمارے پنکریے خون میں شوگر کی ایک خاص مقدار کو بڑھنے نہیں دیتے ، دل کا پمپ ہر منٹ ستر اسی دفعہ بغیر آرام بلاتھکان 75 سالہ زندگی میں تقریبا تین ارب دفعہ دھڑکتا ہے۔ ہمارے گردے ایسے بے مثل عجیب فلٹر ہیں جو جانتے ہیں کہ خون میں جو مفید ہے وہ رکھ لینا ہے اور فضلات کو باہر پھینک دینا ہے۔ معدہ حیران کن کیمیکل فیکٹری ہے جو خوراک سے زندگی بخش اجزا مثلا پروٹین ، کاربوہائڈریٹ وغیرہ کو علیحدہ کرکے فضلات کو باہر پھینک دیتا ہے۔
کیا انسانی جسم کے یہ شاہکار ، انجینئرنگ اور سائنس کے یہ بے مثل نمونے ، چھوٹے سے پیٹ میں یہ لاجواب فیکٹریاں ،
یہ سب کچھ بھی ایسے ہی بن گئے، کسی ذیزائنر ، موجد اور خالق کی ضرورت نہیں؟
۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔

از سلطان بشیر محمود ، ستارہ امتیاز ایٹمی سائنسدان
سابقہ ڈائریکٹر جنرل پاکستان اٹامک انرجی کمیشن
 

الف نظامی

لائبریرین
دماغ کو کس نے بنایا ؟ مضبوط ہڈیوں کے خول میں بند ، پانی میں یہ تیرتا ہوا عقل کا خزانہ ، معلومات کا سٹور،احکامات کا مرکز ،انسان اور اسکے ماحول کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ، ایک ایسا کمپیوٹر ہے کہ انسان اسکی بناوٹ اور ڈیزائن کو ابھی تک سمجھ نہیں پایا ، لاکھوں کوششوں کے باوجود انسانی ہاتھ اور ذہن کا بنایا ہوا کوئی سپر سے سپر کمپیوٹر اسکے عشرِ عشیر کی قابلیت کو بھی نہیں پہنچ سکا ۔ یہ کیسے ہوگیا؟
انسان کا ایک ایک خلیہ شعور رکھتا ہے۔ اسکے جینز میں ہماری پوری قسمت لکھی ہوئی ہے اور زندگی اس بند پروگرام کے مطابق خود بخود کھلتی رہتی ہے ۔ جسم کا خلیہ خلیہ اپنے وجود میں مکمل شخصیت ہے ، ہماری زندگی کا پورا ریکارڈ ، ہماری عمر کا سارا حساب ، ہماری عقل و دانش ، غرض ہمارے متعلق سب کچھ ہمارے خلیات میں لکھا جا چکا ہے ۔ یہ کس نے لکھا ہے؟
حیوانات ہوں یا نباتات سب کی دنیا میں بیج کے اندر پودے کا پورا نقشہ بند ہے ، یہ کیسے ہوا؟
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ خورد بین سے بھی مشکل نظر آنے والا سیل ایک مضبوط توانا عقل و ہوش والا انسان بن جاتا ہے اور پھر اپنے ہی خالق کے ہونے پہ شک کرنے لگتا ہے؟
ہونٹ ، زبان اور تالو کے اجزا کو سینکڑوں انداز میں حرکت دینا کس نے سکھایا کہ آوازیں پیدا ہو سکیں ۔ ان آوازوں کو دماغ کے کروڑوں خلیات کے ذریعے معنی دینا کس نے سکھایا کہ آوازیں پیدا ہوسکیں۔ ان آوازوں کو دماغ کے کروڑوں خلیات کے ذریعہ معنی دینا کس نے پڑھایا؟ پر معنی الفاظ اور ہزاروں زبانوں کا خالق کون ہے؟
کوئی بھی نہیں بس یہ ایک حادثہ ہے!
کائنات ایک انتہائی حساس کارخانہ کی مانند ہے جسکی ہر چیز ایک خاص حساب اور قواعد کے تحت کام کر رہی ہے، اسکے اٹل قوانین ہیں جن کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ان میں انتہائی معمولی تفاوت بھی آجائے تو کائنات ختم ہو جائے۔ کششِ ثقل ، ایٹم کے اندر مقناطیسی طاقت کی نسبت کئی گنا کمزور ہے ، اگر یہ تھوڑا سا بھی زیادہ ہوتی تو کائنات کب کی ختم ہوگئی ہوتی اور تھوڑا سا کم ہوتی تو ابھی تک فضا دھوئیں سے بھری ہوتی۔ اگر ایٹم کے اندر الیکڑان کا چارج پروٹون کی نسبت اربواں حصہ بھی کم ہوتا تو کوئی نباتاتی اور حیوانی زندگی ممکن نہ ہوتی۔ غرض قدرتی طاقتوں میں ذرہ برابر تفاوت کائنات کے نظام کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا۔
کیسی عجیب بات ہے کہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس انتہائی باریک حساب کے پیچھے کوئی ذی شعور حساب دان بھی ہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ بے جان ایٹموں نے باہمی مشورہ سے یہ سب کچھ خود ہی ڈیزائن کر لیا ہو، خود ہی بنا لیا ہو اور خود ہی چلا لیا ہو؟
سائنس نے ابھی تک جدھر بھی دیکھا ہے ، ایٹم کا جگر ہو یا کہکشاوں کا عظیم تر نظام ، ہر چیز کے اندر اپنا اپنا کار بند ہے ستارے انہی کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، چاند اپنے کلاک کے مطابق 27-1/4دنوں کے بعد اپنے محور پر ایک چکر کاٹتا ہے ، سورج ہر گیارہ سال بعد تاو میں آتا ہے، زمین ایک سال بعد اپنی پہلی حالت پر واپس آ جاتی ہے ،24گھنٹوں میں اپنے محور پر ایک دفعہ گھوم کر اپنے اوپر چپہ چپہ کو دن رات بخشتی ہے، جانور اپنے اندرونی کلاک کے مطابق اپنی افزائش نسل کا انتظام کرتے ہیں، آدمی بھی پیدائش سے قبر تک اپنے اندر کی کلاک کی ٹک ٹک پر زندگی کے مختلف ادوار سے گزرتا ہے ، ریڈیائی عناصر کا یک مقرر حساب کے مطابق ہر آن شعاعوں کو چھوڑتے ہیں ۔ یوں کائنات ہا ہر نظام اپنے اپنے پروگرام کا پابند ہے ۔ یہاں ہر ایک اپنے مقرر راستہ پر چل رہا ہے۔
کیا یہ عظیم الشان پروگرام محض ایک حادثہ ہے؟
کون ہے جس نے سات سو میل اوپر زمین کو اوزون گیس کا غلاف اوڑھایا تاکہ سورج کی طاقتور الٹرا وائلٹ شعاعوں کو نیچے آنے سے روک دیا جائے تاکہ حیوانی زندگی قائم رہ سکے؟
کون ہے جو اس مضبوط آسمانی نظام کو کروڑوں سال سے قائم رکھے ہوئے ہے جس میں دراڑ آجائے تو انسانی زندگی بھسم ہو کر رہ جائے؟
کون ہے جس نے زمین و آسمان کے درمیان انتہائی مناسب فاصلہ قائم کیا تاکہ زندگی پھلے پھولے؟
کیا یہ سب کچھ کسی حادثہ کا نتیجہ ہے؟
کیا زمین کے اوپر سینکڑوں میل تک ہوائی نمدہ کی تشکیل بھی ایک حادثہ ہے تاکہ زمین کی طرف روزانہ آنے والے لاکھوں شہابِ ثاقب اس پر پہنچنے سے پہلے جل کر بھسم ہو جائیں، موسم بدلتے رہیں، بارشیں ہوتی رہیں اور سورج کی گرمی مناسب درجہ حرارت پر زمیں کو رکھے؟
کیا یہ بھی حادثہ ہے جس نے درختوں کو سکھا دیا کہ سورج سے روشنی ، ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور زمین سے پانی لیکر اپنے جسم بناو اور اس کے بدلے ہوا کو آکسیجن دو جو حیوانی زندگی کےلئے ضروری ہے؟
کیا یہ بھی ایک حادثہ ہے جس نے ایک ہی پانی ، ایک ہی زمین ، ایک ہی سورج کی توانائی سے لاکھوں مختلف قسم کی نباتاتی مخلوق کو پیدا کر دیا؟
کیا یہ بھی حادثہ ہے جس نے زمین کو انسان کے لئے ہر طرح کے معدنیات، نباتات اور حیوانات سے بھر دیا؟
کیا یہ بھی ایک حادثہ ہے کہ ہر دو انسان مختلف ہیں حتی کے اربوں انسانوں میں سے کسی دو کی انگلیوں کے نشان تک نہیں ملتے، کسی کی کسی سے شکل نہیں ملتی، ہر ایک کی اپنی اپنی فضیلت اور عقل ہے لیکن اس قدر تفاوتوں کے باوجود آدمیت میں سب یکساں ہیں؟
اگر پھر بھی آپ شک میں ہیں تو اس عالیشان نظام کو کون برقرار رکھ رہا ہے؟
کیا یہ بھی ایک حادثہ ہے؟
انسان کی بنائی ہوئی معمولی سی مصنوعات کے لئے بھی کوئی ڈیزائنر ، کوئی کاریگر ، کوئی خالق چاہیے لیکن یہ لا محدود وسعت اور پیچیدگی والا کائناتی نظام بغیر کسی ہمہ وقت حاضر مستعد ، قدیر ، حکیم ، بصیر علیم ہستی یونہی چلتا جاتا ہے؟
کیا آپ کی عقل یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے؟
تسلیم کرو یہ نہ کرو، کائنات کا ایٹم ایٹم پکار کر یہ باور کراتا ہے کہ اسکو کوئی بنانے والا ہے ، کوئی چلانے والا ہے ، کوئی سنبھالنے والا ہے اسکی ہستی سے انکار ناممکن ہے۔

وہی ہے اللہ
رب کائنات ، بے مثال ذاتِ پاک جو اپنی تمام تر تخلیقات سے یکتا ، ہر جگہ موجود ، ہر چیا کا محافظ ، ہر آن سے واقف، ہر آہٹ کا سننے والا ، زمان و مکان کا خالق، عقلِ کل ، سراسر علم۔
وہ جس نے ہر چیز کو محیط کیا ہوا ہے
وہ جو ہر جگہ ، ہر آن موجود ہے
وہ جو ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے
وہ جو محبت کا سر چشمہ ہے
وہ جو اپنے نہ ماننے والوں کو بھی پالتا ہے
وہ جو اول بھی ہے، آخر بھی
وہ جو ظاہر بھی ہے اور باطن بھی
اپنی ذات میں بے مثل ، لا منتہی، کمال میں لا جواب

وہی ہے اللہ
کائنات کا ذرہ ذرہ اسکی ہستی کا گواہ ہے ، پھول ہو کہ پتی، ریت کا ذرہ ہو کہ پانی کی بوند ، آسمان ہو یا زمین ، سبھی اسکی تسبیح میں رطب اللسان ہیں، سبھی اسکے حکم کے منتظر ہیں، اسکے قوانین کے پابند ہیں۔ وہی سب کا خالق ، سب کا پالن ہار، سب کا حساب لینے والا ، سب کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والا ہے ، سب کے اندر ، سب کے باہر ، جس کا حکم ہر جگہ ہر وقت کارفرما ہے۔ بنانے کےلئے ، پہنچنے کے لئے ، کنٹرول کے لئے ، نہ اسے وقت چاہیے نہ جگہ۔ زمان ہے کہ مکان ، توانائی ہے کہ مادہ سبھی اسکی صفات کے مظہر ہیں۔

وہی ہے اللہ
عجیب بات ہے کہ اس کی حکومت میں رہتے ہوئے ہم اسی کی سرکشی کرتے ہیں۔ میرے دوست آو کہ ہم دل و جان سے مان لیں اور خوب پہچان لیں کہ:
ہمارا رب ، ہمارا پالنہار ، ہمارا دوست ، ہمارا مالک وہ جسکی طرف سے ہم آئے ہیں اور جس کی طرف ہم نے جانا واپس جانا ہے اللہ ہے۔
وہی اللہ جو کائنات کے اندر اور باہر ذرے ذرے کو محیط کیے ہوئے ہے۔ ہر چیز کا ماضی حال اور مستقبل اس کے سامنے ہے ۔ اس کے ماسوا کوئی طاقت اور قوت نہیں۔ ساری کی ساری کائنات اس کے " کن" کے اشارے پر معرض وجود میں آگئی۔ جس کی قدرت کا یہ حال ہے کہ کائنات اس کی مٹھی میں ہے۔
وہی ہے اللہ
جو باوجود اپنی لا انتہا عظمت ، شان و شوکت، قدرت اور طاقت کے اپنے بندوں سے اس قدر پیار کرتا ہے کہ ماں کا پیار اس کے پیار کے سامنے کچھ بھی نہیں ۔ رحمت اس نے اپنے اوپر لازم کر لی کہ اپنے باغیوں کو بھی برابر پرورش کرتا ہے۔ صبر کا یہ حال ہے کہ شیطان جیسے باغی کو بھی پوری مہلت دیتا ہے ، کرم کی یہ شان ہے کہ بنی آدم ، خواہ مومن ہو یا کافر ، اس کو مکرم بنا دیا ۔ حلیم اتنا کہ انسان کو جب نیک اعمال کا مشورہ دیتا ہے تو کہتا ہے کہ تم مجھے یہ قرض دے رہے ہو۔ معاف کرنے والا ایسا ہے کہ باغی سے باغی شرمسار ہو کر جب ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو دس قدم آگے بڑھ کر اس کی عزت افزائی کرتا ہے۔
وہی ہے اللہ
جسکی قربت ایسی کہ شاہ رگ سے قریب تر، پیار ایسا کہ زمین و آسمان میں نہیں سما سکتا لیکن مومن کے دل میں، محب ایسا کہ مخلوق اس کا کنبہ ہے ، منصف ایسا کہ زمین و آسمان اس کے سامنے کانپتے ہیں ۔ جابر ایسا کہ جسکے سامنے کسی کی سفارش کام نہیں کرتی جب تک کہ وہ خود نہ چاہے، ہستی ایسی کہ وہ سب کو دیکھتا ہے لیکن کوئی آنکھ اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔
وہی ہے اللہ
واحد یکتا۔ اپنی مخلوق سے بے نیاز ، ہر نقص سے پاک ، اپنی حقیق میں بے مثال ، کمال میں لا جواب، اٹل اور مکمل، نہ وہ پیدا کیا گیا ، نہ اس نے اپنی ذات سے کسی کو پیدا کیا، وحدہ لا شریک، زمان و مکان سے بالاتر ، جس کا کوئی ہمسر نہیں ، الفاظ جس کی شان کو بیان نہیں کر سکتے لیکن ذرہ ذرہ اسکو پہچان ہے ، نغمہ نغمہ اس کی آواز ہے ۔ بہترین ساتھی ، لازوال دوست،نور ہی نور، بے آباد دلوں کو آباد کرنے والا، گمراہوں کو ہدایت دینے والا، کرم کا بادشاہ۔
وہی ہے اللہ
کیسی عجیب بات ہے دوست کہ ہم اللہ تعالی کے وجود کو مانتے ہیں لیکن اسکی عظمت کا اقرار نہیں کرتے؟ انسانی معاشرے کے لئے قانون اور انصاف کی عدالتوں کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اس کے انصاف اور حساب و کتاب کا نہیں سوچتے۔ اس کی سلطنت میں رہتے ہیں لیکن اس کے قانون کی پرواہ نہیں کرتے۔
سائنس کی یہ بات تو مانتے ہیں کہ کائنات میں ہر چیز با مقصد ہے لیکن اپنی حیات کے مقصد کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔
سورج اپنا کام کر رہا ہے ، زمین اپنے کام میں لگی ہوئی ہے ، سمندر اپنا فرض کو ادا کرنے میں مستعد ہیں، ہوائیں اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں،غرض یہاں کوئی نہیں جو اپنے مقصدِ حیات کو پورا نہ کر ہا ہو۔
عجیب بات ہے کہ ہم اپنے مقصدِ حیات سے بے خبر ہیں!
پندرہ ارب سال کی بات ہے کہ زمین و آسمان کے سب عناصر کا آغاز ہائیڈروجن کے سادہ عنصر سے ہوا۔ پھر اربوں سال پر محیط عرصہ میں ایٹمی دھماکوں کے عمل سے ستاروں میں پیچیدہ پیچیدہ تر عناصر کی تخلیق ہوتی رہی۔ ایک سے دو ، دو سے تین ، تین سے چار اور یہ سلسلہ یونہی جیسا چلتا رہا۔
یوں تو وہ عناصر جن سے ہماری زمین کو تخلیق ہونا تھا ، ہمارے اجسام کو تشکیل پانا تھا ان کو بنانے کے لئے خالق کائنات ستاروں کو یکے بعد دیگرے دھماکہ سے اڑاتا رہا۔ پھر اربوں میلوں پر بکھرے ہوئے ان اجزاء کو اکٹھا کیا ، اربوں ستاروں اور بے شمار سیاروں اور زمین کو انسان کے استقبال کے لئے بنایا ، جو قرآن مجید کے مطابق کائنات کی غرض و غایت ہے ، ڈیزائن میں قدیم ترین اور ظہور میں جدید ترین ، اور اپنی صفات میں احسن التقویم ہے۔
لیکن اگر ہوش سے کام نہ لے گا تو اسفل السافلین ہے۔
میرے بھائی ، میری بہن ، میرے دوست! یاد رکھو !
زندگی زمین کے لئے نہیں آسمان کے لئے ہے۔ یہ جسم کے لئے نہیں ، روح کو سنوارنے کے لئے ہے۔ ہمارا اصلی گھر زمین پر نہیں ، جنت میں ہے ۔ لیکن وہاں کامیاب ہوکر وہی جاسکے گا جو زمین سے دل لگانے کے بجائے آخرت کی فکر کرئے گا، جو شیطان سے بچ بچ کر رحمان لکے سامنے جھکے گا۔
یہی ہے مقصد حیات
قربان جائیے اپنے رب کہ مہربانی پر کہ انسانی تاریخ میں کوئی ایسا دور نہیں آیا جب اس نے اپنی طرف بلانے کے لئے انسان کی رہنمائی نہ کی ہو۔ وہ ذات پاک ہماری فلاح کے لئے مسلسل اپنے خاص بندے بھیجتی رہی جنہیں ہم اللہ کے نبی اور رسول کہتے ہیں۔ جب انسانی تہذیب اللہ تعالی کے پیغام کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کرنے کے قابل ہوگئی تو اس نے پنا آخری پیغمبر ﷺ بھیج دیا ، جنہوں نے لوگوں کو اسلام پر بلایا ، وہی اسلام جو آپ ﷺ سے پہلے تمام نبیوں کا دین تھا وہ دین جس پر اللہ تعالی نے انسان کی فطرت کو بنایا ہے۔ آئے اس دین کو روح اور دل میں سما لیں۔
یہی ہے مقصد حیات
اس دین فطرت کا منبع قرآن کریم ہے۔ صراط مستقیم کی درخشندہ کتاب ، حق و باطل کے معیار کا پیمانہ ، تمام نبیوں کی تصدیق کرنے والا، ایک اللہ کے نام سب کو اکٹھا کرنے والا ، خاندانی نظام ، معاشرہ کے سکھ چین ، انسانی تہذیب کی سلامتی اور انسانی حقوق کی ضمانت ، انسانیت کی وحدت کی بنیاد ، دنیا کی زندگی کو جنت بنانے والا اور آخرت میں جنت میں لے جانے والا ، یہ ہے وہ قرآن۔
یہی نجات کا راستہ ہے
میرے دوست ! جس کسی نے بھی قرآن ﷺ کی اتباع کی، وہ دونوں جہانوں میں کامیاب ہوا۔ جس نے خلوص کے ساتھ سیدھے راستے کو تلاش کیا وہ کامیاب ہوا، لیکن جو اپنی فطرت کے خلاف گیا وہ جنت کے راستے سے ہٹ کر جہنم کی طرف چل پڑا۔
اے زمان و مکان کے مسافرو، اے میرے پیارے ساتھیو!
زندگی کا حاصل " لبیک " میں ہے
لبیک ۔ اللھم لبیک ۔ لبیک ۔ لا شریک لک لبیک ۔ ان الحمد والنعمۃ لک والملک ۔لاشریک لک ۔ لبیک اللھم لبیک ۔ لبیک ۔۔۔۔
حاضر ہوں ۔ میرے مولا میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ۔ بے شک ہر طرح کی ستائش اور حکومت تیرے لئے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ مولا میں حاضر ہوں ۔ میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں۔
اللہ تعالی کے حضور قلب کی اس حاضری ہی میں سب کچھ ہے۔ جس کا کوڈ ورڈ ہے
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
تسلیم و رضا کے ساتھ جب کوئی بندہ یہ کلمہ پڑھتا ہے تو اسے حاضری نصیب ہو جاتی ہے اسلئے بار بار کہو ، ہزار بار کہو۔
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
اسی میں نجات ہے ۔ اسی میں دنیا و آخرت کی فلاح ہے ، یہی رحمت العالمین کا پیغام ہے ۔
یایھا الناس قولو لا الہ الا اللہ تفلحوا
"اے نوع انسانی کہو کوئی خدا نہیں مگر اللہ۔ فلاح پاو گے"
از سلطان بشیر محمود ، ستارہ امتیاز ایٹمی سائنسدان
سابقہ ڈائریکٹر جنرل پاکستان اٹامک انرجی کمیشن
 

الف نظامی

لائبریرین
کیا ساقی نامہ سننے کا ارادہ ہے۔
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضی سوزِ صدیق دے
 
کیا خوب پوسٹ تھی روح خوش ہو گئ بہت ہی خوبی سے موضوع کو چلایا گیا۔ کیا خیال ہے خدا کے وجود پر بحث کے دلائل جمع نہ کئے جائیں
 
Top