کوئی تو بتاؤ۔۔۔ !!! از حاتم راجپوت

حاتم راجپوت

لائبریرین
میں بہت حساس بندہ ہوں۔۔ اتنا حساس شاید آج کل کی دنیا میں نہیں ہونا چاہئیے۔۔۔
بہت کچھ سنتا ہوں اور سن کر دماغ لرزتا ہے اور دل پھٹتا ہے۔۔

کچھ دن قبل ایک عورت نے بچوں سمیت ٹرین کے آگے چھلانگ لگا دی۔۔۔
ایک باپ نے اپنے دو بچوں کو قتل کر دیا۔۔
۔ایک آدمی نے اپنے بچوں کو راوی میں پھینک دیا۔۔
ایک عورت اپنی دو سال کی بچی کو بس میں چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔۔
کوئی پوچھے یار۔۔کوئی تو پوچھے۔۔۔!
ان سب کا جرم کیا تھا۔۔۔۔صرف غربت۔۔
کوئی سوچے تو ۔۔۔ بچوں کی انگلی تھامے وہ عورت جب ریل کی طرف جا رہی ہو گی تو بچوں کو کیا کہہ کر لائی ہوگی۔۔بھری آنکھوں سےکس چیز کا بہلاوا دیا ہو گا بچوں کو۔۔۔۔سخت گرمی میں بچوں کو کیسے بھوکے پیاسے لائی ہو گی کہ پاس کچھ نہ تھا کھانے کو۔۔۔۔کس کس طرح دل نہ پھٹا ہو گا اس کا۔۔ اپنے جگر کے ٹکروں کو آخری بار کتنا چوما ہو گا اس بے کس نے۔۔۔
اور۔۔۔بچوں کے ذہن میں کیا ہو گا۔۔۔بس یہ کہ ارد گرد کی چیزوں کو تجسس اور حیرانگی بھری آنکھوں سے دیکھتے چلے جا رہے ہوں گے اور سوچتے ہوں گے کہ ماں آج ہمیں کدھر لے کر جارہی ہے۔۔۔بھوک سے کرلاتے نہ ہوں گے کیا۔۔۔ یا شاید اسی امید پر کہ ماں شاید کھانا کھلانے لے کر جارہی ہے۔۔۔

اگر ان کے پاس کھانے کو کچھ ہوتا تو کیا یہ ماں ٹرین کے آگے کودتی۔۔۔!!
کوئی تو بتاؤ۔۔!!

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو باپ کو کتنی خوشی ہوتی ہے۔۔۔یہ ایک باپ ہی جان سکتا ہے۔۔
اس کی آنکھوں میں اپنے بچوں کے متعلق طرح طرح کے سپنے سجتے ہیں۔۔۔ عالم تصور میں انہیں افسر بنا دیکھتا ہے۔۔
ان کی ہر آسائش کے لئے دنیا بھر کا آرام خود پر حرام کرتا ہے۔۔۔ گدھوں کی طرح کام کرتا ہے۔۔
بچوں کی ایک کاپی کتاب کے لئے سارا سارا سال اوور ٹائم لگاتا ہے۔۔لیکن جب کاپی کتاب تو دور ۔۔کچھ کھانے کو بھی نہیں رہتا تو قرضے لیتا ہے۔۔انہیں اتارنے کیلئے اور قرضے لیتا ہے اور جب قرضے ملنے بند ہو جاتے ہیں ۔۔۔تو ہر طرح کا کام کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔۔۔ سبزی کی ریڑھی لگاتا ہے۔۔۔ چاٹ کا ٹھیلا لگاتا ہے۔۔
لیکن کھانے جوگا کچھ کما نہیں پاتا۔۔۔ شام کو گھر آ کے بیمار بیوی کا ستا ہوا چہرہ دیکھتا ہے۔۔۔ بچے بھوک سے کملائے ہوتے ہیں۔۔۔
اسے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔ تو کن کن خیالوں سے لڑتا ہے ۔۔۔کوئی تو سمجھے نا اس بات کو بھی۔
۔ بچوں کی پیدائش سے لے کر اب تک کی زندگی اس کی نگاہوں میں سے گزرتی ہے۔۔۔ بچوں کے ساتھ گزاری عیدیں۔۔ شبراتیں اسے بھی یاد آتی ہیں۔۔ بچوں کو دی ہوئی عیدی اور بچوں کے چہرے کی گزری خوشی اسے بھی تڑپاتی ہے۔۔ بچوں کو گود میں اٹھانا اسے بھی یاد آتا ہے ۔۔۔ لیکن وہ کیا کرے ۔۔۔ اسے کچھ نظر نہیں آتا آگے۔۔ بچے کھانے کی کمی سے لاغر ہیں۔۔ شاید ایسے ہی کسی دن مر جائیں ۔۔۔ تو اتنا سسکانا کیوں بچوں کو۔۔۔ ایک ہی دفعہ مار دو اور خود بھی مر جاؤ کہ آگے بھی تو سسک سسک کر مرنا ہے۔۔
انہی جذبات میں وہ کمرے سے باہر نکلتا ہے اور بچوں کو چومتا ہے اور ایک آخری حسرت بھری نگاہ سے انہیں دیکھتا ہے۔۔۔

پھر کیا باپ سنگدل تھا۔۔۔ کوئی بتاؤ یار۔۔ کوئی تو بتا دو۔۔!!


ماں کو اپنی اولاد سے بہت پیار ہوتا ہے۔۔۔ خود بھوکی رہ لیتی ہے لیکن اولاد کا بھوکا رہنا اسے گوارا نہیں۔۔۔ خود بیماری سے تڑپتی رہے گی لیکن بچہ بیمار ہوگا تو ہر جتن کر کے دوا لے آئے گی۔۔ بچہ بستر گیلا کر دے تو خود گیلی جگہ پر لیٹ جائے گی لیکن اپنے لال کو خشک جگہ پر کر دے گی کہ کہیں اسے سردی نہ لگے۔۔ کہیں یہ بیمار نہ ہو جائے کہ میری جان ہے اس میں۔۔۔ بچہ بیمار ہو گا تو اس کی ایک آہ سے ماں کی جان نکلے گی۔۔
تو۔۔۔ بچے کی ایک آہ پر تڑپ تڑپ جانے والی جب اپنی دو سالہ بچی کو بس میں چھوڑ جاتی ہے تو اس کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔۔کبھی کسی نے سوچا۔۔!
کس حوصلے سے وہ گھر سے نکلی ہو گی۔۔۔ کیا اس کے دل کے پرخچے نہ ہو گئے ہوں گے۔۔ کیا بس میں بیٹھے اس کے خاموش آنسو اس کے دوپٹے میں جذب نہ ہوئے ہوں گے۔ بچی کو چوم چوم کر پریشان کیا ہو گا نا اس نے ۔۔۔ بس سے کس دل سے اتری ہو گی وہ۔۔!!
کوئی تو مجھے بتائے۔۔۔!!
بس کو جاتے کب تک دیکھا ہو گا اس نے۔۔۔!!
”ہائے ۔۔ بچی رو نہ رہی ہو۔۔ اسے بھوک لگی ہو گی۔۔۔ اکیلی ہے ۔۔ کوئی چوٹ تو نہ لگے گی اسے۔۔۔“
کس کس طرح نہ ٹوٹی ہو گی وہ ماں۔۔۔!!
کیا دل میں ہوک نہ اٹھی ہو گی۔۔۔۔”ہائے میری بچی۔۔۔ رو رہی ہو گی۔۔ کوئی تو پکڑ لو اسے۔۔۔ “
دوپٹہ منہ میں دئیے جگر پاش پاش نہ ہوا ہو گا اس کا۔۔۔!!
آنکھوں سے بھل بھل آنسو نہ بہے ہوں گے کیا۔۔۔!!
اس کے پاس کچھ تھا کیا اپنی بچی کو کھلانے کو۔۔۔!!
گر ہوتا تو ایسے الگ کرتی کیا اپنے جگر کے ٹکڑے کو۔۔۔۔!!

کوئی تو بتا دو۔۔۔

کہ مجھے اب کھانا کھاتے خود سے گھن کیوں آتی ہے۔۔۔!!
 

تلمیذ

لائبریرین
حاتم جی، آپ کے احساسات و مشاہدات سے بے شمار لوگ متفق ہوں گے۔ اگرچہ یہ سب کچھ کاتب تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں لیکن ان مجبوروں کے ان اقدامات کا باعث معاشرتی اور اقتصادی تفاوت بھی ہے اور ان اندوہناک سانحات کا ذمہ دار براہ راست معاشرہ ہی ٹھہرتا ہے ۔ایسے غمناک واقعات ہم سب کی خود غرضی، بے حسی اور (بعض اوقات) لاعلمی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں ہمارے ہاں لوگوں کے پاس اتنی دولت نہیں ہے کہ وہ ان بد نصیبوں کی بر وقت امداد کرتے اور ان کی جانیں بچ جاتیں۔ ہمارے دین میں مال و دولت کی منصفانہ تقسیم اور ناداروں کی امداد کا ایک آزمودہ اور سکے بند نظام موجود ہے لیکن ہوسِ دنیامیں غرق ہونے کی بنا اس طرف آنے والوں کی تعداد قلیل ہے۔ کاش ، اللہ پاک اہل ثروت کو توفیق دے کہ وہ مجبوری کے عالم میں ایسے انتہائی اقدامات اٹھانے والے کا ہاتھ تھام لیں اور وہ اور ان کے اہل خانہ برباد ہونے سے بچ جائیں۔
دنیا کے امیر ممالک اور ویلفئیر اسٹیٹس میں اگرچہ ایسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں، لیکن ناداروں کی وہاں بھی کمی نہیں اور چیریٹی کا چلن بھی عام ہے ،گو ہمارے، یعنی مسلمانوں جتنا نہیں، (جیسا کہ شنید ہے)۔
میں کہیں پڑھ رہا تھا کہ وہاں کسی ملک کےبعض ریستورانوں میں رحمدل لوگ ادائیگی کرکے نوٹس بورڈ پرحسب توفیق، وَن میل (ایک کھانا) یا دو کھانوں (یا زیادہ) کی چٹ لگا جاتے ہیں اور ضرورت مند لوگ آکر وہ چٹ اتارکر ریستوران والوں کو دے کر اپنا پیٹ بھر کر چلے جاتے ہیں، اس طرح ہاتھ نہ پھیلانے کی وجہ سے ان کی عزت ِنفس بھی مجروح نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ہی یہ سارے المیے جنم لیتے ہیں۔
کرنے کو تو یہاں بھی سب کچھ ہو سکتا ہے، بس ارادہ،، جذبہ اور مستقل مزاجی درکار ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالے ایسے کاموں میں اپنی جناب سے خود مدد فرماتا ہے۔ کراچی میں قائم ایک مخلص درد مند خاتون پروین سعید کے ذریعے قائم کردہ 'کھاناگھروں' سے تو کئی لوگ واقف ہوں گے۔بی بی سی پر خبر بھی آئی تھی ربط یہ ہے:
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2011/10/111019_food_ghar_gel_rh.shtml
ممتاز کالم نگار نے' ایکسپریس' میں زاہدہ حنا نے اس پرایک کالم بھی لکھا تھا۔ ربط:
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101588619&Issue=NP_LHE&Date=20120805
ان کھانا گھروں کی سائٹ کا ربط یہ ہے:
http://www.khanaghar.org/

خیر۔ معافی چاہتا ہوں، میں کہاں سے کہاں نکل گیا۔ دراصل آپ کی بے حد متاثر کن تحریر نے یہ سب کچھ لکھوایا۔
اگرچہ مراسلہ طویل ہو گیا ہے۔ لیکن آخر میں اپنی قوم کے حاتم جیسے دردمند اور حسّاس نوجوانوں سے صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی خداد صلاحیتوں اور جوان توانائیوں کو بروئے کار لاکر کم از کم اپنے علاقوں میں اس طرح کے پروجیکٹ شروع کرنے کوشش کریں۔ ہرقسم کی مصلحتوں، رکاوٹوں اور دل شکنیوں کو خاطر میں لائے بغیرصرف سفر جاری رکھنے کی بات ہے کارواں خود ہی بنتا جائے گا۔ قلیل مقدار میں ہی سہی، چند جگنوؤں سے اندھیرا کچھ تو کم ہوگا۔
اللہ پاک آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
حاتم راجپوت
 
آخری تدوین:

سید زبیر

محفلین
حاتم راجپوت مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا رینکیگ دوں ۔۔۔ آپ کے احساسات زندگی کی علامت ہیں رب کریم ہمیشہ آپ پر اپنی رحمتیں ر کھے اور ہمیں اپنا اپنا کردار ادا ادا کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے ( آمین )
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
حاتم جی، آپ کے احساسات و مشاہدات سے بے شمار لوگ متفق ہوں گے۔ اگرچہ یہ سب کچھ کاتب تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں لیکن ان مجبوروں کے ان اقدامات کا باعث معاشرتی اور اقتصادی تفاوت بھی ہے اور ان اندوہناک سانحات کا ذمہ دار براہ راست معاشرہ ہی ٹھہرتا ہے ۔ایسے غمناک واقعات ہم سب کی خود غرضی، بے حسی اور (بعض اوقات) لاعلمی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں ہمارے ہاں لوگوں کے پاس اتنی دولت نہیں ہے کہ وہ ان بد نصیبوں کی بر وقت امداد کرتے اور ان کی جانیں بچ جاتیں۔ ہمارے دین میں مال و دولت کی منصفانہ تقسیم اور ناداروں کی امداد کا ایک آزمودہ اور سکے بند نظام موجود ہے لیکن ہوسِ دنیامیں غرق ہونے کی بنا اس طرف آنے والوں کی تعداد قلیل ہے۔ کاش ، اللہ پاک اہل ثروت کو توفیق دے کہ وہ مجبوری کے عالم میں ایسے انتہائی اقدامات اٹھانے والے کا ہاتھ تھام لیں اور وہ اور ان کے اہل خانہ برباد ہونے سے بچ جائیں۔
دنیا کے امیر ممالک اور ویلفئیر اسٹیٹس میں اگرچہ ایسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں، لیکن ناداروں کی وہاں بھی کمی نہیں اور چیریٹی کا چلن بھی عام ہے ،گو ہمارے، یعنی مسلمانوں جتنا نہیں، (جیسا کہ شنید ہے)۔
میں کہیں پڑھ رہا تھا کہ وہاں کسی ملک کےبعض ریستورانوں میں رحمدل لوگ ادائیگی کرکے نوٹس بورڈ پرحسب توفیق، وَن میل (ایک کھانا) یا دو کھانوں (یا زیادہ) کی چٹ لگا جاتے ہیں اور ضرورت مند لوگ آکر وہ چٹ اتارکر ریستوران والوں کو دے کر اپنا پیٹ بھر کر چلے جاتے ہیں، اس طرح ہاتھ نہ پھیلانے کی وجہ سے ان کی عزت ِنفس بھی مجروح نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ہی یہ سارے المیے جنم لیتے ہیں۔
کرنے کو تو یہاں بھی سب کچھ ہو سکتا ہے، بس ارادہ،، جذبہ اور مستقل مزاجی درکار ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالے ایسے کاموں میں اپنی جناب سے خود مدد فرماتا ہے۔ کراچی میں قائم ایک مخلص درد مند خاتون پروین سعید کے ذریعے قائم کردہ 'کھاناگھروں' سے تو کئی لوگ واقف ہوں گے۔بی بی سی پر خبر بھی آئی تھی ربط یہ ہے:
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2011/10/111019_food_ghar_gel_rh.shtml
ممتاز کالم نگار نے' ایکسپریس' میں زاہدہ حنا نے اس پرایک کالم بھی لکھا تھا۔ ربط:
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101588619&Issue=NP_LHE&Date=20120805
ان کھانا گھروں کی سائٹ کا ربط یہ ہے:
http://www.khanaghar.org/

خیر۔ معافی چاہتا ہوں، میں کہاں سے کہاں نکل گیا۔ دراصل آپ کی بے حد متاثر کن تحریر نے یہ سب کچھ لکھوایا۔
اگرچہ مراسلہ طویل ہو گیا ہے۔ لیکن آخر میں اپنی قوم کے حاتم جیسے دردمند اور حسّاس نوجوانوں سے صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی خداد صلاحیتوں اور جوان توانائیوں کو بروئے کار لاکر کم از کم اپنے علاقوں میں اس طرح کے پروجیکٹ شروع کرنے کوشش کریں۔ ہرقسم کی مصلحتوں، رکاوٹوں اور دل شکنیوں کو خاطر میں لائے بغیرصرف سفر جاری رکھنے کی بات ہے کارواں خود ہی بنتا جائے گا۔ قلیل مقدار میں ہی سہی، چند جگنوؤں سے اندھیرا کچھ تو کم ہوگا۔
اللہ پاک آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
حاتم راجپوت
شکریہ تلمیذ آپکا کہ آپ نے احقر کی تحریر کو پسند کیا۔۔۔ دراصل یہ تحریر ہے ہی نہیں۔۔ صرف جذبات ہیں جو میں لکھتا گیا۔
آپ کے خیالات سے صد فیصد متفق ہوں کہ جذبہ، ہمت اور مستقل مزاجی کی لگن ہونی چاہیئے تو اللہ تعالیٰ خود مدد کرتے ہیں۔۔
آپ کے جذبات اور معلوماتی مراسلے نے بہت متاثر کیا۔۔ بے شک جہاں میں ایسے اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی انداز میں خلق خدا کی خدمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔
خدا مجھے ، آپ کو اور ہم سب کو اپنے اپنے حصے کی روشنی پھیلانے کی توفیق دیں کہ اب کے اندھیرا بہت ظالم ہے ۔۔۔ آمین ثم آمین۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
حاتم راجپوت مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا رینکیگ دوں ۔۔۔ آپ کے احساسات زندگی کی علامت ہیں رب کریم ہمیشہ آپ پر اپنی رحمتیں ر کھے اور ہمیں اپنا اپنا کردار ادا ادا کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے ( آمین )
آمین۔۔۔
سید سرکار بس آپ کی دعائیں چاہئیں۔۔۔ ہم سب کو ، اس پوری قوم کو اب دعاؤں کے ساتھ ساتھ عمل کرنے کی اشد ترین ضرورت ہے۔۔
بہت خوش رہیں اور خوشیاں بانٹتے ریں۔ خدا آپ کے حامی و ناصر ہوں۔۔آمین
 

نایاب

لائبریرین
محترم حاتم بھائی ۔۔ بہت معذرت کئی بار پڑھنے کی کوشش کرنے کے باوجود مکمل نہ پڑھ پایا ۔ نگاہ ہی دھندلا جاتی ہے ۔
بلاشبہ کسی بھی ریٹنگ سے بالاتر " دل حاتم " کی صدا ہے یہ ۔۔
ہم سب ہی اس تحریر میں کہیں نہ کہیں اپنی جھلک پاتے ہیں ۔ اور معاشرے کے سنگدلانہ رویئے پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ یہ معاشرتی سنگدلی ہم جیسوں نے ہی اپنے اپنے ذاتی مفادات میں الجھ کر اپنے فرائض سے منہ موڑ کر قائم کی ہے ۔۔۔۔ہم مسلمانوں نے اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے صرف باتوں میں ۔ اسلام کی بنیاد " مواخات " جو کہ " ضرورت سے زاید چیز کسی دوسرے کو ہدیہ کر دینے پر استوار تھی " اسے ہم بھول چکے ۔
محترم تلمیذ بھائی نے " غیر مسلم معاشرے " سے " انفاق فی سبیل اللہ " کی اک سچی مثال پیش کی ۔ جس کے پاس استطاعت ہے ۔ وہ اپنی جانب سے کسی دوسرے کے لیئے ادائیگی کر کے نوٹس بورڈ پر اک چٹ لگا دیتا ہے ۔ اسے اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اس چٹ سے " حقدار " فائدہ اٹھاتا ہے یا کہ کوئی " دھندے باز " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسے یہ بھی ڈر نہیں ہوتا کہ ہوٹل والے ہی اس چٹ سے " مستفید " ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
شاید اسی لیئے " وہ معزز ہیں تارک قراں ہو کر " بھی ۔
اور ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لیئے رسوا ہیں حامل قراں ہو کر ۔
ہم ہوں کہ ہمارے حکمران ۔۔۔۔۔ ۔یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

x boy

محفلین
بہت ہی اچھی عکاسی ہے ،
صرف پاکستان ہی نہیں اس کے زد میں بلکہ 90 فیصد عالم ہی اس میں ڈوبا ہوا ہے۔
بہت شکریہ خاتم بھائی۔
 

زبیر مرزا

محفلین
ایک ہی دن میں دو خبریں سنیں تھیں ایک عورت کا بچی کو بس میں چھوڑجانا اور باپ کا بچی کو دریا میں پھینک دینا
سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کون سے پتھردل لوگ ہیں - ٹٹولا تو اپنا دل بھی پتھر سے سخت پا یا - ہم سماجی بے حسی کا شکار ہیں
جس کی انفرادی خبریں تو آتی ہیں لیکن اجتماعی طورپر ان کے لیے کچھ نہیں ہوتا- بلال قطب سماء ٹی وی پر راوی دریا میں پھینکنے والی
بچی کے بارے میں آج پروگرام کررہے تھے - الفاظ ومنظرکشی نے ایک بار پھر وہی کفییت میں مبتلا کہ جو چند سال پہلے لاہور میں تین
کم سن بچیوں کو ذبحہ کرنے کی خبر سے تھی -
لوگ غربت سے ذہنی اذیتوں سے دوچار ہوکر اپنے بچے مارتے ہیں تو کبھی سرراہ ان کو بیچتے ہیں اور ہم مست ومگن ترنوالے اُڑاتے ہیں
اس احساس سے کے ان سے ہمارا کیا لینا دینا ، ہم کیا کرسکتے ہیں - حاتم اچھا کہ اس اذیت کو لکھ ڈالا جو آنکھوں سے تو بہتی لیکن بے عمل ہے اور سنگدل ہے مدھم پڑجاتی دھندلا جاتی ہے -
 
آخری تدوین:
خوبصورت تحریر جو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ،حاتم صاحب سچ تو یہ ہے کہ ایسے کتنے ہی واقعات ہمارے معاشرے کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔لیکن ہماری نگاہ اس جانب نہیں جاتی جاتی بھی ہے تو ہم آنکھیں موند لیتے ہیں وہ تو آپ اور آپ جیسے چند حساس لوگ جسے دوسروں کی زبان میں دیوانے بھی کہ سکتے ہیں ،موجود ہیں جو کم از کم اسے صفحہ قرطاس میں لاکر اپنے دل کے پھھولے پھوڑتے ہیں ۔اور لوگوں کے ضمیر کو جنجھوڑنے کا کام کرتے ہیں ۔اللہ ضرور آپ کو اس کا بدلہ دے گا ۔

ابھی کچھ عرصہ قبل ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکماہی احمدنے بھی کیا تھا ،اسے بھی پڑھ کر کافی تکلیف ہوئی تھی ۔اسلامی معاشرے میں ایسی صورتحال دیکھ کراور بھی افسوس ہوتا اور ترس آتا ہے نایاب بھائی جان نے درست کہا ہے یہ سماجی سنگدلي ہم جیسوں نے اپنے ذاتی مفادات میں الجھ کر اپنے فرائض سے منہ موڑ کر خود ہی قائم کی ہے.... ہم مسلمانوں نے اسلام کو زندہ رکھا ہے صرف باتوں میں۔

مجھے یاد پڑتا ہے ایسے ہی کسی واقعہ کے پس منظر میں میں نے کہیں پڑھا تھا ماہرین نفسیات اس معاشرے کو وہ بیمار معاشرہ قرار دیتے ہیں جہاں ہر تیسرا فرد ذہنی مریض بن جاتا ہے۔بیمار معاشرہ کے اثرات نفسا نفسی اور بے حسی کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔

علامہ شبلی نعمانی کے نزدیک "ترقی آگے بڑھنے کا نام نہیں بلکہ اتنا پیچھے جانے میں ہے کہ ہم اپنی اساس تک پہنچ جائیں "۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اساس ہی ہماری شناخت ہے۔ لیکن جب اساس کو ہی بالائے طاق رکھ دیا جائے تو ایسے واقعات تو معمول بنیں گے ہی ۔اللہ ہمارئ مدد فرمائے ۔
 
آخری تدوین:
بہترین اور سادہ طریق سے مسائل کو بیان فرمایا قبلہ حاتم برادر، یہ مسائل بد تر نظامِ حکومت، ارتکازِ دولت، غیر عادلانہ تقسیمِ دولت، اور زکوت و بیت المال کے اسلامی نظام کے نہ ہونے اور ناس کی حرص و طمع کی وجہ سے پیداہوتے ہیں، جب تک خود عوام الناس کے ایک مناسب التعداد حصے میں بیداری و شعور نہیں آے گا جس کے نتیجے میں ایک بہتر نظام ِ حکومت نہیں آتا مسائل جوں کے توں رہیں گے، باھر حال مخیر حضرات کو از خود دولت کے انفاق و گردش کو یقینی بنا کر پسے ہوے طبقاتِ عوام کی نصرت کرنی چاہیے، اللہ فضل و توفیق عنائت فرماے
 

زبیر مرزا

محفلین
حاتم بچے ٹیک اٹ ایزی زندگی کا یہ رُخ بھی ہے - زیادہ دل پر مت لیں ورنہ شدید ڈپریشن اور انگزائٹی سے دوچار ہوں گے -
اپنے رویے کو مثبت رکھیں اور اللہ سے کُل عالم کی خیرمانگا کریں وہ بڑا رحیم وکریم ہے
 

ماہی احمد

لائبریرین
میں آپ کی تحریر کے پہلے فقرے سے متفق نہیں۔ ایک حساس شخص بلکہ شدید حساس شخص کا قلم ہی انقلاب لا سکتا ہے، کیونکہ وہ جذبات و احساسات کو دل و دماغ سے نکال کر صفحے پر ڈال سکتا ہے اور لوگوں کو جنجھوڑ سکتا ہے، معاشرے کی برایوں کی نشاندہی کر سکتا ہے جیسا کے آپ نے کیا۔ اللہ پاک آپ کے قلم کی طاقت میں اضافہ فرمائے آمین۔
 
Top