ص 25
“میں نہیں سمجھی۔۔۔۔؟“
“ اب کیا بتاؤں، مجھے تو سلیمان کی طرف سے بھی تشویش ہو گئی ہے۔!“
“کیوں۔۔۔۔؟کیوں۔!“
“اگر وہ بھی نواب زادہ نکلا تو پھر کیا میں چنے مرمرے پھانکتا پھروں گا۔!“
“آخر قصہ کیا تھا۔۔۔۔؟“
“پرنسز ٹالابوآ۔۔۔۔ ساری دنیا میں اپنے شوہر کو تلاش کرتی پھر رہی تھی۔ یہاں پہنچ کر اس نے فرنچ ایمبیسی والوں کو اپنے شوہر کی تصویر دکھائی۔ ان ناہنجاروں نے کہ جوزف کو پہلے ہی دیکھ چکے تھے۔ اُس کو میرا پتہ بتا دیا۔!“
“لیکن میں نے سنا ہے کہ جوزف نے اس کا اعتراف نہیں کیا کہ وہ شہزادہ ہے۔!“
“میں کب کسی کو بتاتا ہوں کہ میں مسٹر رحمان کا فرزندِرشید ہوں۔!“
ہلکی سی مسکراہٹ جولیا کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی اور عمران کہتا رہا۔“ شاہ بنکاٹا یعنی اس کے باپ سے بھینس کے دودھ پر اس کا تنازعہ ہو گیا تھا، لہٰذا وہ بنکاٹا سے نکل کھڑا ہوا۔“
“بھینس کے دودھ پر تنازعہ۔!“ جولیا نے حیرت سے کہا۔
“ہاں۔۔۔۔جوزف کا خیال تھا کہ بھینس کا دودھ نفاح ہے۔ اور شاہ بنکاٹا کا ارشاد تھا کہ نہیں، کاسر ریاح ہوتا ہے۔۔۔۔ یہ جھگڑا اس قدر بڑھا کہ جوزف نے گھربار چھوڑ دیا۔!“
“سچی بات۔۔۔۔؟“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔
“میری بات پر کسی کو بھی یقین نہیں آتا۔“ عمران نے بُرا مان کر کہا۔!
“اچھا یہ بتاؤ یہ بنکاٹا ہے کہاں۔۔۔۔؟“
“بحرالکاہل کے بےشمار جزائر میں سے ایک۔۔۔۔فرانس کا مقبوضہ لیکن وہاں رسمی طور پر ایک سیاہ فام خاندان کی بادشاہت ہے۔ اور جوزف اسی خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ موجودہ بادشاہ کے بعد اسی کی تاج پوشی ہو گی۔ خود حکومت فرانس اس سے متعلق تشویش میں مبتلا تھی۔“
“تو پھر جوزف اس کا اعتراف کیوں نہیں کرتا۔!“
“بے حد چالاک ہے۔۔۔۔!“ عمران بائیں آنکھ دبا کر شرارت آمیز لہجے میں بولا۔“اچھی طرح جانتا ہے کہ اعتراف کر لینے کے بعد بھینس کا دودھ پینا پڑے گا۔!“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔