کنگ چانگ۔۔ ص 16-25

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
ص16

"کیا میں پاگل ہو جاؤں۔۔۔۔؟"
"نہیں میرے ساتھ چلو ڈارلنگ۔۔۔۔!" سیاہ فام عورت بولی۔" اب میں تمہاری جدائی برداشت نہیں کر سکتی۔!"
جیمسن اور ظفر حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھے جا رہے تھے۔ سلیمان بھی باورچی خانے سے دوڑ آیا تھا۔ لیکن گفتگو انگریزی میں ہونے کی بناء پر اس کے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔
"یہ کیا چکر ہے باس۔۔۔۔!میں اس عورت کو نہیں جانتا۔۔۔۔!" جوزف بےبسی سے بولا اور ایک ایک کی صورت دیکھنے لگا۔ چہرے پر ایسے ہی تاثرات تھے جیسے بری طرح جھینپ رہا ہو۔!
" تم۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔!" عورت غصیلے لہجے میں بولی۔"اپنی بیوی کو نہیں پہچانتے۔!"
"فراڈ….!" جوزف حلق پھاڑ کر دھاڑتا ہوا اٹھ بیٹھا۔" میرے ساتھ کسی قسم کا فراڈ کیا جا رہا ہے…. اگر تم بھی دھوکے میں آ گئے باس…. تو پھر میں خودکشی کر لوں گا۔!"
"نہیں حضور میں اب آپ کا باس نہیں رہا۔ مجھے مزید شرمندہ نہ فرمائیے۔!"
"باس تمہیں کیا ہو گیا ہے….!"
عمران اُسے کوئی جواب دئیے بغیر عورت کی طرف مڑ کر بولا۔"آپ پرنس کو لے جا سکتی ہیں۔یورہائی نس….!"
"مجھے کہاں بھیج رہے ہو باس….!"
"ابے مر کیوں جا رہا ہے….!" عمران اردو میں بولا۔"اگر یہ عورت جھوٹی ہے تو میں اسے دیکھ لوں گا۔!"
"ٹم یکین کیسے کیا باس….!"
"بکواس مت کرو…. چپ چاپ اٹھو اور جہاں یہ لے جائے چلے جاؤ۔!"
"لیکن یہ تو بیوی بولٹی….!"
"میرا حکم مانو ورنہ اسے بیوہ کردوں گا۔!"
جوزف کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔! دیکھتے ہی دیکھتے جوزف وہاں سے رخصت ہو گیا۔
جیمسن نے کھڑکی سے سڑک پر جھانک کر دیکھا۔ نیچے لمبی سیاہ گاڑی کھڑی تھی اور باڈی گارڈ ان دونوں کے لئے پچھلی نشست کا دروازہ کھول رہا تھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص17
"تم دونوں ان کا تعاقب کرو گے….!" عمران نے ظفر سے کہا۔
"قصہ کیا ہے….؟"
"سندباد کا….جاؤ….مجھے باخبر رکھنا۔!"
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور فلیٹ سے نکل گئے۔
"سندباد کا کیا قصہ تھا صاحب…." سلیمان نے آگے بڑھ کر پوچھا۔!
"اچھا تو اب آپ بھی بور کریں گے….!"
"وہ کون تھی…. جوزف ہی کی سی شکل تھی اُس کی….!"
"شہزادہ جوزف ….!" عمران نے آنکھیں نکال کر تصحیح کی….!
"کیا مطلب….؟"
"جوزف یقیناً بنکاٹا کا شہزادہ ہے…. وہ اس کی بیوی تھی….!"
"نہیں….!" سلیمان اچھل پڑا۔
"ابے تو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں۔!"
"نہیں صاحب….خدا نہ کرے ….دراصل میں ہی بدنصیب ہوں کہ زندگی بھر چولہا ہانڈی ہی کرتا رہ جاؤں گا….!"
"نہیں نہیں اگر تو کہے تو میں تجھے شہنشاہ ہیل سلاسی کا فرزندِ اکبر بھی قرار دے سکتا ہوں۔!
"جی نہیں…. مجھے اپنے ہی باپ کا بیٹا رہنے دیجئے،چولہا ہانڈی ہی ٹھیک ہے….!"
"شاباش اناردانے کی چٹنی بھی بنا لیجئو! مسور کی دال چٹنی کے بغیر نہیں چلتی۔!"
"تو کیا وہ اب واپس نہیں آئے گا۔!" سلیمان نے مایوسی سے پوچھا۔
"خدا جانے….!"
"دل کڑھ رہا ہے اُس کے لئے….!"
"چل چل….ہر وقت لڑتا جھگڑتا رہتا تھا اُس سے….!"
"اُس سے کیا ہوتا ہے….صاحب….محبت اپنی جگہ پر ہے…. کبھی کبھی کہتا تھا ٹم ہم کو نہیں جانٹا سلیمان بھائی۔! ٹیرے لئے جان بھی ڈے سکتا۔!"
"دیکھ پھر کچھ جل رہا ہے کچن میں۔!" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص18
"بات سمجھ میں نہیں آئی۔!" ظفر نے جیمسن سے کہا۔
"یہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ سب کچھ جوزف کی لاعلمی میں ہوا ہے۔!" جیمسن بولا۔
"بات تاہیتی کی چل رہی تھی اور پھر وہ شہزادی صاحبہ ٹپک پڑیں یہ بنکاٹا ہے کہاں یور ہائی نس۔!"
"میں نہیں جانتا….!"
"جوزف کے چہرے پر اس وقت صداقت دیکھی تھی جب وہ اپنی شہزادگی سے انکار کر رہا تھا۔!"
"کیوں دماغ چاٹ رہے ہو، اپنے کام سے کام رکھو….!"
دونوں ایک لمبی سی گاڑی کا تعاقب کر رہے تھے جس میں جوزف اپنی نودریافت بیوی سمیت کسی نامعلوم منزل کی طرف اڑ جا رہا تھا۔!"
جیمسن ظفر گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ دفعتاً اُس نے کہا۔" ایک گاڑی ہمارا بھی تعاقب کر رہی ہے۔!"
"مجھے علم ہے….!" ظفر بولا"بس خاموشی سے چلتے رہو۔!"
کچھ دیر بعد جوزف کی گاڑی ایک غیر ملکی سفارت خانے کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوتی نظر آئی۔
جیمسن نے اپنی گاڑی کی رفتار کم کر دی اور اس کا تعاقب کرنے والی گاڑی آگے چلی گئی۔
"اُس کے پیچھے چلو….!" ظفر بولا۔
"جوزف کی نگرانی کرنے کو کہا گیا تھا۔!" جیمسن نے یاد دلایا۔
"میں کہہ رہا ہوں اس کے پیچھے چلو۔!"
"چلئے ….!" جیمسن نے طویل سانس لے کر کہا۔" ضروری نہیں کہ وہ لڑکی ہی ہو۔ اگر اپنے ہی قبیلے کا کوئی آدمی نکلا تو….؟"
"خاموشی سے چلے چلو….! جولیانافنٹر واٹر تھی اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا تھا۔"
"یہ عورت آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکی….!"
"بھلا آپ کیوں کوشش کرتے ہیں اسے سمجھنے کی۔!"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 19

"اکثر عمران صاحب کا تعاقب کرتے دیکھا ہے۔!"
"اپنے کام سے کام رکھو۔!"
"کام ہی کوئی نہیں ہے۔ ویسے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں یور ہائی نس کہ وہ جولیا نہیں تھی۔!"
"میں تم سے کہہ رہا ہوں چلتے رہو۔!"
"ایز یو پلیز….!"
سڑک پر ٹریفک کا اژدھام نہیں تھا۔ اکادکا گاڑیاں گزر رہی تھیں۔ دفعتاً اگلی گاڑی رک گئی اور کھڑکی سے ایک ہاتھ نے نکل کر پیچھے آنے والی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔
جیمسن نے پورے بریک لگائے تھے ورنہ گاڑی اگلی گاڑی تک پہنچتے پہنچتے ٹکرا ہی جاتی۔
کار ڈرائیو کرنے والی جولیانا فنٹر واٹر نہیں تھی البتہ کسی حد تک اس سے مشابہہ ضرور تھی۔
جیمسن دانت نکالے کھڑا اُسے گھور رہا تھا اور وہ اپنی گاڑی سے نکل کر فرانسیسی زبان میں بولی۔
"یہاں کوئی میری زبان نہیں سمجھ سکتا، میں راستہ بھول گئی ہوں۔!"
جیمسن نے سختی سے ہونٹ بھینچ لئے اور ظفر کی طرف مڑا۔ وہ بھی گاڑی سے اُتر آیا تھا۔ اُس نے اپسے گفتگو جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔
"شائد میں تمہاری زبان سمجھ سکتا ہوں۔!" جیمسن نے فرانسیسی زبان میں کہا۔
"اوہ….خدایا….شکر….!" لڑکی کھل اٹھی۔
"بتاؤ….میرے لائق کیا خدمت ہے….!"
"میں فرانسیسی سفیر کے ثقافتی اتاشی کی مہمان ہوں۔ مجھے سفارت خانے پہنچا دو۔"
"مجھے حیرت ہے محترمہ….! آپ سفارت خانہ پیچھے چھوڑ آئی ہیں اسی سڑک پر۔!"
"مجھے ساری عمارتیں یکساں معلوم ہوتی ہیں۔!"
"گاڑی موڑ کر میرے پیچھے چلی آؤ۔" جیمسن نے کہا اور اپنی گاڑی کی طرف مڑ گیا۔
لڑکی نے اس کے مشورے پر عمل کیا تھا اور اب دونوں گاڑیاں واپس ہو رہی تھیں۔ "چکر سمجھ میں نہیں آیا۔" جیمسن بڑبڑایا۔
"پرواہ مت کرو…." ظفر ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔"بہت دنوں کے بعد ایک معیاری نمونہ نظر آیا ہے دوستی ہو گئی تو وقت اچھا گزرے گا۔!"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 20
“کہیں مارے نہ جائیں۔۔۔۔!جوزف وہیں لے جایا گیا ہے جہاں یہ ہمیں لے جا رہی ہے۔!“
“شٹ اَپ۔۔۔۔!“
“لینگویج پلیز ۔۔۔۔! لڑکی لاکھ معیاری سہی لیکن آپ اپنا معیار برقرار رکھئے۔!“
“اچھا اب خاموش۔!“
“ خیر۔۔۔۔خیر۔۔۔۔میں گاڑی باہر ہی روکوں یا کمپاؤنڈ میں لیتا جاؤں۔!“
“اندر چلو ورنہ بات آگے کیسے چلے گی ۔۔۔۔!“
“دورہ پڑ گیا آپ پر یور ہائی نس ۔۔۔۔!“
ظفر کچھ نہ بولا۔ جیمسن سفارت خانے کی کمپاؤنڈ میں گاڑی موڑ رہا تھا۔
دونوں گاڑیاں قریب قریب پارک ہوئیں اور لڑکی نے ہاتھ ہلا کر کہا۔“بہت بہت شکریہ۔! ہاں یہی عمارت ہے تم لوگ بھی اترو۔۔۔۔ میں تمہیں اپنے میزبان سے ملاؤں گی۔!“
“تم نے دیکھا۔“ ظفر آہستہ سے بولا۔“ اس کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی۔“
“میں مناسب نہیں سمجھتا یور ہائی نس ۔۔۔۔!“
“کیا مناسب نہیں سمجھتے۔۔۔۔؟“
“یہی کہ ہم اس کے ساتھ عمارت میں داخل ہوں۔!“
“تم جانتے ہو کہ یہاں میرے کئی شناسا ہیں۔!“
“اترو نا۔۔۔۔کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔!“ وہ گاڑی کے قریب آکر بےتکلفی سے بولی تھی۔
وہ انہیں عمارت کے ایک رہائشی حصے میں لائی۔
“کیا پیو گے۔۔۔۔!“ اس نے جیمسن سے پوچھا۔
“ٹھنڈا پانی ۔۔۔۔!“
“شکل ہی سے معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔!“ اُس نے ظفر کی طرف دیکھ کر پوچھا“تم بتاؤ۔“
“ضرورت نہیں محسوس کر رہا۔!“
“تم لوگ فرانسیسیوں کے سے لہجے میں فرنچ بول سکتے ہو۔!“ لڑکی نے کہا۔“ میرا نام لوئیسا ہے۔۔۔۔!“
“میں ظفر ہوں۔۔۔۔اور یہ میرا سیکریٹری جیمسن ۔۔۔۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص21


“دونوں خوبصورت ہو۔!“
جیمسن کے دانت نکل پڑے۔! ٹھیک اُسی وقت بائیں جانب سے آواز آئی۔ “تمہاری اجازت سے۔!“
وہ چونک کر مڑے۔۔۔۔دروازے میں وہی سیاہ فام عورت کھڑی نظر آئی جسے جوزف کی بیوی ہونے کا دعویٰ تھا۔
“اوہ۔۔۔۔مادام۔۔۔۔!“ لڑکی بوکھلا کر بولی۔ “یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔۔میرے دوست ہیں۔!“
“میں ان دونوں سے واقف ہوں۔“ پرنسز بنکاٹا نے پروقار لہجے میں کہا۔ “ تم نے بہت اچھا کیا انہیں لے آئیں۔۔۔۔ یہاں پرنس اجنبیوں میں پریشان ہو رہے ہیں۔“
جیمسن نے آہستہ سے اپنی کھوپڑی سہلائی اور معنی خیز نص 20
“کہیں مارے نہ جائیں۔۔۔۔!جوزف وہیں لے جایا گیا ہے جہاں یہ ہمیں لے جا رہی ہے۔!“
“شٹ اَپ۔۔۔۔!“
“لینگویج پلیز ۔۔۔۔! لڑکی لاکھ معیاری سہی لیکن آپ اپنا معیار برقرار رکھئے۔!“
“اچھا اب خاموش۔!“
“ خیر۔۔۔۔خیر۔۔۔۔میں گاڑی باہر ہی روکوں یا کمپاؤنڈ میں لیتا جاؤں۔!“
“اندر چلو ورنہ بات آگے کیسے چلے گی ۔۔۔۔!“
“دورہ پڑ گیا آپ پر یور ہائی نس ۔۔۔۔!“
ظفر کچھ نہ بولا۔ جیمسن سفارت خانے کی کمپاؤنڈ میں گاڑی موڑ رہا تھا۔
دونوں گاڑیاں قریب قریب پارک ہوئیں اور لڑکی نے ہاتھ ہلا کر کہا۔“بہت بہت شکریہ۔! ہاں یہی عمارت ہے تم لوگ بھی اترو۔۔۔۔ میں تمہیں اپنے میزبان سے ملاؤں گی۔!“
“تم نے دیکھا۔“ ظفر آہستہ سے بولا۔“ اس کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی۔“
“میں مناسب نہیں سمجھتا یور ہائی نس ۔۔۔۔!“
“کیا مناسب نہیں سمجھتے۔۔۔۔؟“
“یہی کہ ہم اس کے ساتھ عمارت میں داخل ہوں۔!“
“تم جانتے ہو کہ یہاں میرے کئی شناسا ہیں۔!“
“اترو نا۔۔۔۔کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔!“ وہ گاڑی کے قریب آکر بےتکلفی سے بولی تھی۔
وہ انہیں عمارت کے ایک رہائشی حصے میں لائی۔
“کیا پیو گے۔۔۔۔!“ اس نے جیمسن سے پوچھا۔
“ٹھنڈا پانی ۔۔۔۔!“
“شکل ہی سے معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔!“ اُس نے ظفر کی طرف دیکھ کر پوچھا“تم بتاؤ۔“
“ضرورت نہیں محسوس کر رہا۔!“
“تم لوگ فرانسیسیوں کے سے لہجے میں فرنچ بول سکتے ہو۔!“ لڑکی نے کہا۔“ میرا نام لوئیسا ہے۔۔۔۔!“
“میں ظفر ہوں۔۔۔۔اور یہ میرا سیکریٹری جیمسن ۔۔۔۔!“نظروں سے ظفر کی طرف دیکھنے لگا۔
“میں سفارت خانے کا راستہ بھول گئی تھی یہی لوگ مجھے یہاں لائے ہیں۔“ لوئیسا نے کہا۔
“یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ کیا یہ فرنچ بول سکتے ہیں۔۔۔۔۔؟“
“اسی بناء پر تو میری رہنمائی کر سکے ہیں۔ ورنہ میں بھٹکتی پھر رہی تھی۔ یہ لوگ روانی سے فرنچ بول سکتے ہیں۔!“
“کیا تم لوگ کچھ دیر پرنس کی دل دہی کر سکو گے؟ پرنسز نے ظفر کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
“یقیناً۔۔۔۔یقیناً ۔۔۔۔!“
“اب سنبھالئے ۔۔۔۔!“ جیمسن اردو میں بولا۔“ آئے تھے اس پری وش کے چکر میں اور بھگتئے ملکہ تاریک۔۔۔۔شکل کش کو ۔۔۔۔!“
“بکو مت ۔۔۔۔!“
“تو آؤ۔۔۔۔چلو میرے ساتھ شاید پرنس تمہیں دیکھ کر خوش ہو جائیں۔!“
دونوں بنکاٹا کی شہزادی کے پیچھے چل پڑے۔ جیمسن جھنجھلاہٹ میں اُس کی مٹکتی ہوئی چال کی نقل اُتار رہا تھا۔
ایک بڑے اور آراستہ کمرے میں پہنچ کر شہزادی ٹالابوآ رُک گئی۔
“تم لوگ بیٹھو۔۔۔۔ پرنس لباس تبدیل کر رہے ہیں۔“ اُس نے کہا اور انہیں وہیں چھوڑ کر خود چلی گئی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 22

“میرا خیال ہے کہ ہم پھنس گئے ہیں۔!“ ظفر آہستہ سے بولا۔
“اس کلوٹی سے۔۔۔!“ جیمسن کے لہجے میں تضحیک تھی۔
“یقین کرو، معاملہ گڑبڑ معلوم ہوتا ہے۔۔۔!“
“کیا مطلب۔۔۔۔؟!“
“دیکھ لینا۔۔۔!“ ظفر نے طویل سانس لی۔
دفعتاً داہنی جانب والے دروازے کا پردہ ہٹا کر جوزف اس ہیئت کذائی میں اندر داخل ہوا کہ اس کے جسم پر سرخ رنگ کے مخمل کا بند گلے والا کوٹ تھا اور ٹانگوں میں سفید پتلون، چہرے پر ہوائیں اُڑ رہی تھیں۔ لیکن ان پر نظر پڑتے ہی ایسا لگا جیسے جی ٹھہر گیا ہو۔
“اوہ۔۔۔۔مسٹر۔۔مسٹر۔۔۔!“ وہ کہتا ہوا آگے بڑھا۔
ظفر اور جیمسن بڑے ادب سے اٹھ گئے۔
“خدا کے لئے تم لوگ تو سمجھنے کی کوشش کرو۔ خدا جانے باس نے مجھے کہاں جھونک مارا ہے۔!“ وہ مسمسی صورت بنا کر بولا۔
“سچی بات ہے۔۔۔!“ جیمسن نے انگلی اٹھا کر کہا۔
“آسمان والی کی قسم میں جوزف ہوں۔۔۔۔علی عمران کا ایک ادنیٰ غلام۔!“
“مسٹر علی عمران کو یقین آ گیا ہے کہ تم والئی بنکاٹا کے فرزند ارجمند ہو۔!“
“میرا باپ اپنے قبیلے کا سردار ضرور تھا لیکن اس کی بسراوقات کا انحصار ہاتھ صرف دانت کی فراہمی تھا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ منھوس بنکاٹا کہاں واقع ہے۔۔۔۔؟“
“افریقہ میں نہیں ہے۔۔۔۔؟“ جیمسن نے پوچھا۔
“میں نے تو نہیں سُنا۔۔۔۔! میرے لئے یہ نام بالکل نیا ہے۔!“
“چلو غلط ہی سہی!“ جیمسن ہنس کر بولا۔ “اگر اس طرح مفت کی بیوی ہاتھ آئے تو میں شہزادہ ہی نہیں بلکہ شہنشاہِ عالم بننے کو بھی تیار ہوں۔!“
“ تم سمجھتے نہیں مسٹر! وہ کوئی بدروح ہے۔!“
“بیوی بھی تو ہے تم فکر کیوں کرتے ہو۔!“
“نہیں مسٹر۔۔۔!“ جوزف ناگواری سے سر ہلا کر بولا۔ “بیوی کے ساتھ میں جنت میں بھی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 23


جانا پسند نہیں کروں گا۔ آخر باس کی آسمانی ذہانت کو کیا ہو گیا ہے۔ انہوں نے بےچوں و چراں اس کتیا کی بچی کو میری بیوی تسلیم کر لیا۔۔۔!“
“مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے۔۔۔!“
“یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی۔!“ جوزف بگڑ کر بولا۔ “مفت آئی رسی سے کیا تم اپنے گلے میں پھندا لگانا پسند کرو گے۔!“
“جمالیاتی حس کی رمق بھی نہیں ہے اس میں۔“ جیمسن نے ظفر سے کہا۔
“اُسے بور مت کرو۔“ ظفر بولا۔ “ تم پر اگر کبھی ایسی بپتا پڑی ہوتی تو تمہیں احساس ہوتا۔“
“کیا شراب نہیں ملی۔۔۔۔؟“ جیمسن نے ہنس کر جوزف سے پوچھا۔
“شراب بہت ہے لیکن میرے لئے پانی سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی، باس پتا نہیں کون سی پلاتے ہیں کہ پہلے ہی گھونٹ پر آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔!“
“کون سی پلاتے ہیں۔۔۔۔؟“ ظفر نے جیمسن سے سوال کیا۔
“دیسی شیرہ، ورنہ وہ خود ہی بھیک مانگتے پھر رہے ہوتے۔!“ جیمسن بالا۔
دفعتاً ٹالابوآ پھر کمرے میں داخل ہوئی اور کڑک کر بولی۔ “تم لوگ پرنس کو بہکا رہے ہو۔!“
“نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی یور ہائی نس۔۔۔!“
ظفر نے بڑے ادب سے کہا۔ ٹالابوآ نے تالی بجائی اور دوسرے ہی لمحے دو مسلح آدمی کمرے میں داخل ہوئے۔
“ ان دونوں کو پکڑ کر بند کر دو۔۔۔!“ ٹالابوآ نے انہیں حکم دیا۔
“تم یہ کیا(؟) کر رہی ہو کتیا کی بچی۔۔۔!“
جوزف غرایا۔
“جو میرا دل چاہ رہا ہے۔“ وہ سرد لہجے میں بولی۔ “تمہاری گالیوں کا برا نہیں مانتی کیوں کہ تم میری زندگی ہو۔!“
“میں تمہاری موت بن جاؤں گا۔ ورنہ اپنا یہ حکم واپس لے لو۔!“
“مجھے یہ اختیارات ہز میجسٹی بنکاٹا سے ملے ہیں۔!“
“دونوں کی ہڈیاں توڑ دوں گا، ورنہ باز آ جاؤ۔!“
مسلح آدمی ظفر اور جیمسن کو کمرے سے باہر نکال لائے۔ ریوالوروں کی نالیں ان کی کمر سے لگی ہوئی تھیں۔!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص24

مگر یہ بنکاٹا ہے کہاں۔۔۔۔؟ جولیا نے صفدر سے سوال کیا۔
"میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔۔ ! ایکس ٹو کے حکم سے ان دونوں کو تلاش کرتا پھر رہا ہوں۔!"
"اور وہ کالا پرنس اس وقت کہاں ہے۔!"
"فرنچ ایمبیسی میں۔۔۔۔!"
"کہانی کیا ہے۔۔۔۔؟"
"شاید ہی عمران صاحب کے علاوہ اور کسی کو علم ہو۔۔۔۔! جوزف کو چپ چاپ اُس عورت کے حوالے کر دینے کے بعد ظفر اور جیمسن کو ان کے پیچھے لگا دیا تھا۔"
"عمران کہاں ہے۔۔۔۔؟"
"اپنے فلیٹ میں۔۔۔۔ بےحد مغموم ہے۔۔۔۔!"
"چلو چلتے ہیں۔۔۔۔!" جولیا اٹھتی ہوئی بولی۔
"تم ہی جاؤ۔۔۔۔ مجھ سے تو ان کی شکل نہیں دیکھی جاتی۔!"
"اتنا ہی سیریس ہے۔۔۔۔؟"
"سیریس نہیں ہے۔۔۔۔؟"
"تب تو دیکھنے کی چیز ہوگا۔۔۔۔!" وہ ہنس کر بولی۔" تم جاؤ نہ جاؤ۔۔۔۔ میں جا رہی ہوں۔!"
سائیکو مینشن سے نکل کر وہ اپنی گاڑی میں بیٹھی تھی اور عمران کے فلیٹ کی طرف روانہ ہو گئی تھی۔!
وہ گھر پر ہی موجود تھا۔صفدر کے بیان کی تصدیق ہو گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بہت ہی عزیز شخصیت کی تدفین کے بعد گوشہ گیر ہو گیا ہو۔! جولیانافنٹر واٹر اپنا کھلنڈرا موڈ برقرار نہ رکھ سکی۔ غیر ارادی طور پر اس کا رویہ بھی تعزیت ہی کا سا ہو کر رہ گیا۔
"مجھے بھی افسوس ہے۔!" وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
بہت اچھا ہوا تم چلی آئیں۔ وہ تو قسمت کا سکندر تھا اُس کی ہر خواہش پوری ہوتی تھی۔!"
عمران نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 25


“میں نہیں سمجھی۔۔۔۔؟“
“ اب کیا بتاؤں، مجھے تو سلیمان کی طرف سے بھی تشویش ہو گئی ہے۔!“
“کیوں۔۔۔۔؟کیوں۔!“
“اگر وہ بھی نواب زادہ نکلا تو پھر کیا میں چنے مرمرے پھانکتا پھروں گا۔!“
“آخر قصہ کیا تھا۔۔۔۔؟“
“پرنسز ٹالابوآ۔۔۔۔ ساری دنیا میں اپنے شوہر کو تلاش کرتی پھر رہی تھی۔ یہاں پہنچ کر اس نے فرنچ ایمبیسی والوں کو اپنے شوہر کی تصویر دکھائی۔ ان ناہنجاروں نے کہ جوزف کو پہلے ہی دیکھ چکے تھے۔ اُس کو میرا پتہ بتا دیا۔!“
“لیکن میں نے سنا ہے کہ جوزف نے اس کا اعتراف نہیں کیا کہ وہ شہزادہ ہے۔!“
“میں کب کسی کو بتاتا ہوں کہ میں مسٹر رحمان کا فرزندِرشید ہوں۔!“
ہلکی سی مسکراہٹ جولیا کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی اور عمران کہتا رہا۔“ شاہ بنکاٹا یعنی اس کے باپ سے بھینس کے دودھ پر اس کا تنازعہ ہو گیا تھا، لہٰذا وہ بنکاٹا سے نکل کھڑا ہوا۔“
“بھینس کے دودھ پر تنازعہ۔!“ جولیا نے حیرت سے کہا۔
“ہاں۔۔۔۔جوزف کا خیال تھا کہ بھینس کا دودھ نفاح ہے۔ اور شاہ بنکاٹا کا ارشاد تھا کہ نہیں، کاسر ریاح ہوتا ہے۔۔۔۔ یہ جھگڑا اس قدر بڑھا کہ جوزف نے گھربار چھوڑ دیا۔!“
“سچی بات۔۔۔۔؟“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔
“میری بات پر کسی کو بھی یقین نہیں آتا۔“ عمران نے بُرا مان کر کہا۔!
“اچھا یہ بتاؤ یہ بنکاٹا ہے کہاں۔۔۔۔؟“
“بحرالکاہل کے بےشمار جزائر میں سے ایک۔۔۔۔فرانس کا مقبوضہ لیکن وہاں رسمی طور پر ایک سیاہ فام خاندان کی بادشاہت ہے۔ اور جوزف اسی خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ موجودہ بادشاہ کے بعد اسی کی تاج پوشی ہو گی۔ خود حکومت فرانس اس سے متعلق تشویش میں مبتلا تھی۔“
“تو پھر جوزف اس کا اعتراف کیوں نہیں کرتا۔!“
“بے حد چالاک ہے۔۔۔۔!“ عمران بائیں آنکھ دبا کر شرارت آمیز لہجے میں بولا۔“اچھی طرح جانتا ہے کہ اعتراف کر لینے کے بعد بھینس کا دودھ پینا پڑے گا۔!“


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top