حزیں صدیقی کنارے پر تھی دنیا دیکھنے کو:‌حزیں صدیقی

محمد امین

لائبریرین
جناب حزیں صدیقی مرحوم کا مختصر تعارف اس ربط پر ملا حظہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ غزل انکے مجموعے "قفسِ‌رنگ"‌سے اقتباس ہے:

میں ابھرا تھا کنارا دیکھنے کو،
کنارے پر تھی دنیا دیکھنے کو،

مرے ذوقِ نظر نے رنگ بخشے،
جہاں میں ورنہ کیا تھا دیکھنے کو،

تماشا گاہِ‌عالم میں ہوں تنہا،
کوئی تو ہو تماشا دیکھنے کو،

خرد نے زاویے کیا کیا نہ بدلے،
جنوں کا رنگ پھیکا دیکھنے کو،

وہ ہمراہِ مہ و خورشید آئے،
مرا داغِ‌تمنا دیکھنے کو،

سمندر سے ندامت آج تک ہے،
"ذرا ٹھہرا تھا دریا دیکھنے کو"

گذر کر سات رنگوں کے بھنور سے،
ملا خوشبو کا جلوہ دیکھنے کو،

دلِ بیدار نے برسوں جگایا،
شبِ‌غم کا سویرا دیکھنے کو،

سیاہی شب کی اوڑھے سو رہا تھا،
سحر آئی تماشا دیکھنے کو،

جہاں میں دیکھیے تیرے سوا کیا،
کہ ہے تیرے سوا کیا دیکھنے کو،

مرے گھر میں کسی سورج نے جھانکا،
نہ کوئی چاند اترا دیکھنے کو،

حزیں دل سے نظر کیسے ہٹا لوں،
یہی تو ہے دریچہ دیکھنے کو۔
 
Top